مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی
”حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جس کے پاس سفر حج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو بیت اللہ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر، اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔“ (رواہ الترمذی)
حج کی فرضیت کا حکم رائج قول کے مطابق 9ھ میں آیا اور اگلے سال10ھ میں اپنی وفات سے صرف تین ماہ پہلے رسول اللہ نے صحابہ کرامؓ کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ حج فرمایا جو ”حجة الوداع“ کے نام سے مشہور ہے اور اس حجة الوداع میں خاص عرفات کے میدان میں آپ پر یہ آیت نازل ہوئی الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی الایہ۔(المائدہ)
اس آیت میں تکمیل دین کے ساتھ ساتھ ایک لطیف اشارہ ہے کہ حج اسلام کا تکمیلی رکن ہے۔ اگر بندہ کو مخلصانہ حج نصیب ہو جائے جس کو دین و شریعت کی زبان میں ”حج مبرور“ کہتے ہیں تو گویا اس شخص کو سعادت کا اعلیٰ مقام حاصل ہو گیا۔لیکن جو شخص حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرے اس کے لیے آغاز میں مذکور ارشاد نبوی میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔ مولانا محمد منظور نعمانی معارف الحدیث میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
حج فرض ہونے کے باوجود حج نہ کرنے والوں کو مشرکین کے بجائے یہود و نصاریٰ سے تشبیہ دینے کا راز یہ ہے کہ حج نہ کرنا یہود و نصاریٰ کی عادت تھی البتہ مشرکین عرب حج کیا کرتے تھے لیکن وہ نماز نہیں پڑھتے تھے اس لیے ترک نماز کو مشرکین کا عمل بتایا گیا۔
ارشاد نبوی میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے لیے یہ فرمایا گیا یہودی و نصرانی ہو کر مرنا گویا برابر ہے (معاذ اللہ) اس کے بعد حدیث میں سورہ آل عمران کی اس آیت کا حوالہ دیا گیا جس میں حج کی فرضیت کا بیان ہے ”للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا“ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ راوی نے صرف حوالہ کے طور پر آیت کا ابتدائی حصہ پڑھنے پر اکتفاءکیا، حدیث میں مذکور وعید آیت کے جس حصہ سے نکلتی ہے وہ اس کے آگے والا حصہ ہے یعنی ومن کفر فان اللہ غنی عن العالمین (جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم کے بعد جو کوئی کافرانہ رویہ اختیار کرے یعنی باوجود استطاعت کے حج نہ کرے تو اللہ کو کوئی پرواہ نہیں وہ ساری دنیا اور ساری کائنات سے بے نیا زہے)۔
اس میں استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں کے رویہ کو ”من کفر‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور ”ان اللہ غنی عن العالمین“ کی وعیدسنائی گئی ہے اس کا مطلب یہی ہو اکہ ایسے ناشکرے اور نافرمان جو کچھ بھی کریں اور جس حال میں مریں اللہ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔ (معارف الحدیث جلد چہارم صفحہ193)
باقی رہا یہ کہ حج کس پر فرض ہوتا ہے تو اس بار ے میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یہ روایت کافی راہنمائی کر رہی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے سوال کیا یا رسول اللہ مایو جب الحج (کیا چیز حج کو واجب کر دیتی ہے) آپ نے فرمایا الزادو الراحلہ (سامان سفر اور سواری)۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)
قرآن مجید میں فرضیت حج کی شرط کے طور پر ”من استطاع الیہ سبیلا“ فرمایا گیا ہے یعنی حج ان لوگوں پر فرض ہے جو سفر کر کے مکہ معظمہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں اس آیت میں جو اجمال ہے غالباً سوال کرنے والے صحابی ؓنے اس کی وضاحت چاہی تو آپ نے یہ ہدایت فرمائی کہ:
ایک تو سواری کا انتظام جس پر مکہ معظمہ تک سفر کیا جا سکے اور اس کے علاوہ کھانے پینے جیسی ضروریات کے لیے اتنا سرمایہ ہو جو اس زمانہ سفر کے گزارنے کے لیے کافی ہو۔
فقہائے کرام نے ان اخراجات میں ان لوگوں کے اخراجات کو بھی شامل کیا ہے جن کی کفالت حج پر جانے والے کے ذمہ ہو۔
جب کوئی شخص حج کر لے تو اس کے لیے بڑی بشارتیں ہیں‘ حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جس شخص نے حج کیا اس میں نہ تو کسی شہوانی اور فحش بات کا ارتکاب کیا اور نہ اللہ کی کوئی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو کر واپس ہو گا جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
جو شخص اخلاص کے ساتھ حج یا عمرہ کرتا ہے وہ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے دریائے رحمت میں غوطہ لگاتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ گناہوں کے گندے اثرات سے پاک صاف ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ دنیا میں بھی اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہوتا ہے کہ فقر و محتاجی اور پریشان حالی سے اس کو نجات مل جاتی ہے، خوشحالی اور اطمینان قلب کی دولت نصیب ہو جاتی ہے، اور ”حج مبرور“ کے صلہ میں جنت کا عطا ہونا اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا ایک عمرہ سے دوسرے عمرہ تک کفارہ ہو جاتا ہے ان کے درمیان گناہوں کا ”والحج المبرور لیس لہ جزاءالا الجنة“ اور حج مبرور (نیکی سمجھتے ہوئے اخلاص کے ساتھ حج کرنے) کا بدلہ تو بس جنت ہی ہے۔“ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: پے در پے حج اور عمرہ کیا کرو کیونکہ حج اور عمرہ دونوں فقر و محتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح لوہار اور سنار کی بھٹی لوہے اور سونے اور چاندی کا میل کچیل دور کر دیتی ہے اور حج مبرور کا صلہ تو بس جنت ہی ہے۔(جامع ترمذی، سنن نسائی)
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ رسول اللہنے فرمایا ”حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ اللہ سے دعا کریں تو وہ ان کی دعا قبول فرمائے اور اگر وہ اس سے مغفرت مانگیں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔“
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہنے فرمایا جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اس کو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لیے کہو کیونکہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ (مسنداحمد)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص کے ساتھ بار بار”حج مبرور“اور عمرہ کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین۔
فریضہءحج سے غافل حضرات کیلئے لمحہءفکریہ
Dec 01, 2023