ستمبر 2023ءمیں پاکستان حکومت کی طرف سے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افراد کو ملک سے چلے جانے کیلئے 31 اکتوبر 2023ء تک کی ڈیڈ لائن بلاوجہ نہیں تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں 2002ءکے بعد خود کش دھماکوں کے ذریعے برپا کیے جانے والادہشت گردی کا طوفان اور ملک کے ہر شہر میں معصوم پاکستانیوں کی جان سے کھیلنے والوں کی اکثریت کا تعلق افغانستان میں قائم دہشت گردی کے تربیتی مراکز سے ثابت ہوا۔ نہ ہی یہ کوئی راز ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کو خود کار ہتھیاروں اور گولہ بارود کی ترسیل براستہ افغانستان ہی ہوتی رہی جس میں بھارت کے ملوث ہونے کی گواہی بین الاقوامی میڈیا بھی دیتا رہا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ بھارت کو افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کی سرپرستی حاصل رہی لیکن اگست 2019 میں افغانستان سے امریکی افواج کے اچانک انخلاءکے بعد سے پاکستان میں متحرک دہشت گرد ایسے خوفناک اور تباہ کن ہتھیاروں سے مسلحہ ہوکر پاک فوج کے صوبہ بلوچستان اور کے پی کے میں قافلوں ، فوجی چوکیوں اور دیگر اہم مقامات پر حملہ آور ہوئے جو صرف امریکی فوج کے زیراستعمال ہے۔اس سے ثابت ہوگیا کہ یہ وہی اسلحہ ہے جو امریکی افغانستان سے رخصت ہوتے وقت کابل کے بگرا م ایئربیس پر سیل بند کریٹوں میں بغیر استعمال کیے چھوڑ کر چلے گئے۔ اس بابت اگست 2019ءمیں امریکی دفاعی تجزیہ کاروں نے بھی حیرانگی کا اظہار کیا کہ ٹینک ، بکتربندگاڑیاں ، جنگی ہیلی کاپٹر اور بڑے دہانے کی توپوں کو کابل میں چھوڑ کے آنا تو سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن لاکھوں کی تعداد میں ہلکے خود کار ہتھیاروں کو سیل بند کریٹوں میں افغان طالبان کیلئے چھوڑکر آنا حیران کن ہے۔ ان ہتھیاروں کو امریکہ کے بڑے جنگی سازوسامان کی باربرداری کیلئے استعمال ہونے والے کارگو جہازوں پر لاد کر قطر یا جنوبی ایشیاءمیں دیگر امریکی اڈوں پر منتقل کرنا امریکی افواج کیلئے مشکل نہیں تھا۔ یہی امریکی اسلحہ جب پاکستان میں مارے گئے دہشت گردوں سے برآمد ہوا تویہ بات ثابت ہوگئی کہ ٹی ٹی پی کو افغانستان میں امریکی اسلحہ تک دسترس حاصل ہے جوکہ افغان عبوری حکومت کی مرضی یا معاونت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ لیکن افغان عبوری حکومت اس سے خود کو بری الذمہ قرار دیتی رہی۔
یہ ابہام 19نومبر 2023ءکو اس وقت دور ہوگیا جب امریکی کانگرس میں امور خارجہ کی کمیٹی میں جوبائیڈن حکومت کے نمائندوں کو اگست 2019ءمیں امریکی فوج کی طرف سے کابل سے چھوڑے گئے اسلحہ سے متعلق سوال و جواب کیلئے طلب کیا گیا۔اس موقع پر خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ مائیکل میکول نے بتایا کہ 2016ءتک امریکہ افغانستان کی قومی فوج کو 25ہزار گرینڈ لانچز ، 65ہزار سے زیادہ مشین گنیں ، 3لاکھ 60ہزار مختلف ساخت کی خود کار رائفلیں، 22ہزار ہومیز ( بلٹ پروف جیپں)، 42ہزار فورڈ رینجر پک اپ ٹرک اور ایک ہزار سے زیادہ ایسے بڑے ٹرک فراہم کر چکا تھا۔ جو سڑک کنارے نصب بم یا بارودی سرنگوں سے بچاو¿ کیلئے تیار کیے گئے تھے۔ یہ تمام اسلحہ اور دیگر جنگی سازو سامان اب افغان طالبان کے زیراستعمال ہے۔ تاہم اگست 2019ءکو امریکی افواج نے کتنا اور کس نوعیت کا اسلحہ کابل میں چھوڑا تاحال جوبائیڈن حکام اس کی تفصیلی سامنے نہیں لاسکے۔ اس موقع پر مائیکل میکول نے واضح طورپر کہا کہ امریکہ کی طرف سے چھوڑا گیا جدید اسلحہ اب نہ صرف افغان طالبان کے زیراستعمال ہے بلکہ افغان طالبان کے ذریعے یہ اسلحہ ٹی ٹی پی کے ہاتھ بھی لگ چکا ہے جسے وہ پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ''یو ایس سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن افغانستان'' جان سو پکونے ہاو¿س کو بتایا کہ حال ہی میں پاکستان کے میانوالی میں ایئر بیس پر مارے گئے دہشت گردوں سے برآمدہونے والا امریکی اسلحہ جس میں M-4,Ak-47، A-4,M-16 رائفلوں کے علاوہ دہشت گردوں نے امریکی ساختہ ایسے ہیلمٹ بھی پہن رکھے تھے جن پر نصب شیشوں کے ذریعے رات کے اندھیرے میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں دہشت گردوں نے دستانوں کے علاوہ امریکی ساختہ فالتوراو¿نڈز رکھنے والے (جیکٹ کی شکل کے)بیگ بھی پہن رکھے تھے۔ جان سوپکوکاکہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردیہ اسلحہ پشاور، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال کرچکے ہیں۔ یوں پاکستان کے یہ خدشات درست ثابت ہورہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کیلئے ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کا مکمل تعاون حاصل ہے۔
19نومبر کی واشنگٹن میں کانگریس کی کمیٹی برائے امور خارجہ میں مائیکل میکول اور جان سوپکوکی طرف سے کی گئی گفتگو کو کابل میں افغان عبوری حکومت کے ترجمان نے مسترد کردیا ہے لیکن کمیٹی کی طرف سے کیے گئے انکشافات اور اٹھائے گئے سوالا ت کا افغان عبوری حکومت نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔ تو پھر پاکستان کے عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ٹی ٹی پی والوں کے پاس امریکی ساختہ جدید اسلحہ کہاں سے آیا اور پاکستان میں یکم جنوری 2023ءکو شمالی وزیرستان میں پاک فوج پر حملہ کرنے والے گروہ کی قیادت کرنے والے افغان کمانڈر سے متعلق پاکستان کے احتجاج پر افغان حکومت کیوں خاموش رہی۔ 12جولائی 2023ءکو زوہب کنٹونمنٹ میں مارے گئے تینوں دہشت گرد افغان کون تھے؟کوٹ اعظم ضلع ٹانک میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مارے گئے 6دہشت گرد افغان شہری ثابت ہوگئے تواس کے خلاف بھی پاکستان کے احتجاج کا افغان عبوری حکومت نے ابھی تک جواب کیوں نہیں دیا؟