”اچھا مسلمان۔ اچھا پاکستانی“ 

ہم زلزلہ سے بچنے کے لیے اتنی مرتبہ ”سورة زلزال“ پڑھنے کا آغاز کر رہے ہیں آپ بھی اتنی تعداد میں پڑھ کر آگے زیادہ سے زیادہ شیئر کر دیں۔ یہاں ماضی کی انگنت مثالیں لکھ سکتی ہوں مگر گنجائش نہیں کیونکہ سطور کی ایک تعداد معین ہے جبکہ بے عملی۔ لا حسی کی کتابیں۔ کہانیاں انگنت۔ ا±سی طرح” انگنت فلسطین “میں ناحق مارے جانے والوں کی طرح۔
 پاکستان میں بر ہنگی بہت بڑھ گئی ہے ہم نے تو گھر میں ”ٹی وی“ بند کر دیا ہے مگر کیا کریں اِس ”موبائل“ کا جو چلتے پھرتے سینما کا نہایت بد صورت روپ ہے۔ پچھلے دنوں ایک ”ایوارڈ تقریب“ کی ویڈیو دیکھی تو پہنے ملبوسات دیکھ کر پریشان ہو گئے۔کیا حالت ہوگئی ہے کِسی کو پروا ہی نہیں۔ آپ تو ”دینی“ ہیں بہت بڑا پلیٹ فارم میسر ہے منتظمین کو چاہیے کہ زندگی کو ایمان دار اور آسان بنانے۔ انسان کو عملی مسلمان بننے کی تدابیر سکھائی جائیں۔ تبلیغ کا اصل زور اِس پہلو پر رکھیں کہ لوگ سچ بولیں۔ نماز لازمی پڑھیں اور سارا نچوڑ تبلیغ کا یہ ہو کہ ”قرآن مجید “ کو سچی ر±شد و ہدایت مان کر ترجمہ کے ساتھ پڑھیں۔ جس دن ہدایت آگئی خود ہی پورے کپڑے پہن لیں گے۔
معاملات میں درستگی سب سے زیادہ ضروری ہے یہ اچھا مسلمان بننے کی کلیدی روح ہے اگر روح ہی پاک نہیں ہوگی تو سانس بدبو ہی چھوڑے گا۔ مائیک اور سڑکوں پر احتجاج۔ ٹائرز جلاؤ گھیراؤ۔ عمل کی بجائے بس وعظ۔ دوسروں کو پندو نصائح۔ نتائج مجموعی طور پر کشمیر۔ فلسطین۔ انفرادی حالات ہر ملک کے کِسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ بدصورت ہماری نیت ہے جو چاہتے ہیں موبائل۔ لیپ ٹاپ کے ا±سی بٹن پر انگلی چلتی ہے اچھا یا ب±را استعمال نہ خود کیا اور نہ اپنی پود کو سمجھانے۔ سکھانے کے لیے اب بھی آمادہ نہیں۔ صرف ”مسلمان“ ہونے سے ہی ہماری خلاصی نہیں ہو جاتی۔ ایک اچھامسلمان وہ ہے جو زیادہ اچھا انسان ہو۔ اخلاق اچھا ہوہم نے تو بچپن میں سب سے پہلے ”موت کا منظر“ پڑھ ڈالی اور ڈر گئے کہ بس ہم تو مکمل جہنمی ہیں۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب نہ کندھوں پر گناہوں کا بوجھ لدھا ہوتا ہے اور نہ ہی دوسری کی حق تلفی کا انبار۔ اِس کے باوجود ہفتوں متوحش رہے (اب تو نہ ڈر ہے اور نہ ہی جوابدہی کا منظر) بڑے ہوئے تو تب معلوم ہوا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ”رحمت خاص“ ہی نے سب کو بخشوانا ہے۔ ایک نماز سے دوسری نماز پڑھنے پر بھی جنت کی بشارت ہے۔ ترقی اتنی ہو چکی ہے کہ خیر اب تو ”جنت “کے مکمل مفت پروانے تقسیم ہوتے س±نے ہیں۔ ”رب کائنات۔ کل مالک“ تو انتہا درجے کا رحمن۔ رحیم۔ کریم معبود اعلیٰ ہے۔”نبی ﷺ رحمت۔ خاتم النبین“ کا مشہور قول مبارکہ جس پر ”آپﷺ“ حرف بہ حرف عامل تھے۔کار فرما تھے ”اے اللہ زندگی تو بس آخرت کی ہے“۔ قارئین فرد ہے یا قوم یا پھر گروہ جو پیدائش سے عیش۔ آرام میں رہا اور ہے وہ تھوڑا نہیں کافی حد تک غافل تھا اور ہے۔
آخرت اندھیری ہے اور اعمالِ صالحہ اِس کا چراغ ہے۔ ”حضرت ابوبکر صدیقؓ“۔
 ”مالک حقیقی سوہنے رب“ سے فرار نہیں ہوسکتا نہ ا±س کا کوئی امر پوشیدہ ہو سکتا ہے۔ پیدائش۔ بھاگ دوڑ۔ شغل میلہ۔ تھکاوٹ آخر کار ر±خصتی۔ ”اے اللہ زندگی تو بس آخرت کی ہے “۔ واقعی ہر وہ تمنا جو آئیڈیل صورت میں آموجود ہو ہر خواہش جو سوچنے سے پہلے تکمیل کو پہنچ جائے۔ دودھ۔ شہد کی نہریں بہنے کے خواب دیکھنے والے مجبور۔ محروم واقعی نہروں کے پہلو بہ پہلو ”رب کریم“ کے مہمان ہونگے نہ موت نہ جدائی نہ دھوکہ۔ نہ فراڈ اور نہ ہی کرپشن زدہ خاندانوں کے وراثتی خاندان۔
زندگی بڑی عجیب چیز ہے ایک داستان ہے کبھی خوشیوں کے چھوٹے فاصلے اور کبھی غم۔ آزمائش۔ مصائب کے نہ ختم ہونے والے طویل راستے۔ پر بس یقین۔ بھروسہ ہی ختم کرنے میں ممدو معاون بن سکتا ہے کبھی ج±ھولے جھولاتی شاہریں بیچ میں ایک دم سے کنکریوں بھری گزرگاہ۔ بسا اوقات حد سے زیادہ آسائشات اور یکدم نچلے گریڈ کا جھٹکا۔ باطن کیا ہے ؟ استقبالیہ پ±ر کشش۔ باہر ٹھنڈی ہوا۔ اندر بدبو استقبال کرنے کی منتظر۔ اعتماد ایک ایسی چیز ہے جو تعلقات کو بہت اوپر لیجا جاتی ہے اور کبھی بلند پہاڑ کی کھائی پر لاکھڑا کرتی ہے۔ اصل مال وہی ہے جو آپ کے ہاتھ میں ہے مال وہی محفوظ۔ تسلی بخش ہے جو آپ نے ”رب کریم“ پر بھروسہ کر کے ا±س کی عطا کردہ عقل۔ شعور کو استعمال کرتے ہوئے حاصل کیا۔ جدوجہد کے بغیر حیات کا ہر صفحہ خالی ہے جو منزل ہماری اپنی آنکھیں دکھاتی ہے وہ پرائی آنکھ آپ کو صحیح تصویر نہیں دکھا سکتی۔ سبق ہے کہ اپنی زندگی کا کوئی بھی لمحہ کِسی کے ہاتھ میں مت دو۔ نہ فرائض کی ادائیگی میں خود کو کِسی کا محتاج بننے دو۔ انسان کا سب سے بڑا۔ پائیدار۔قابل قدر۔ مشکل ترین لمحات میں بھی مدد فرمانے والا۔ اپنے بندے کو کبھی بے یارومددگار نہیں چھوڑنے والاصرف ”رب رحمان“ ہے۔ وہ چاہے تو بادشاہوں کو معمولی۔ حقیر انسان کی دہلیز پر لا بٹھائے۔ سب ا±س کے کرم کے سائے ہیں سب ا±سی کی م±ٹھی مبارکہ میں ہے۔ بھروسہ بس ”رب رحمان“ پر۔ پھر معجزے ہوتے دیکھو۔ وہ اسباب کا ک±ل مالک ہے۔ سب ”ا±سی پاک ذات“ کے غلام۔ اسیر۔ مطیع ہیں۔ وہ بندوں کو بھی آپ کا غلام بنا دینے پر قدرت رکھتا ہے۔ ”اللہ کریم“ مہربان ہو جائے تو وہ دنیا کو آپ کے قدموں میں بٹھا دیتا ہے۔ بس ا±س پر کامل بھروسہ کریں۔ یہ دنیاوی تعلقات۔ٹیشن سب دھوکہ ہے میرے نہیں یہ تو خود ”مالک حقیقی“ کے فرامین ہیں تو بھلا کوئی کیوں نہ یقین کرے۔ کیا بھروسہ کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ ہے ؟؟ ہرگز نہیں۔ انسان ایک حقیر چیز سے پیدا کیا گیا۔ فیصلہ کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہ دو۔ بس کرنا یہ ہے کہ ایک دم نہ سوچ کو منفی ہونے اور نہ فوراً اظہار کرنا خود پر واجب کرلو۔ کچھ تھوڑا سا وقت دو خود کی ذات کو اور دوسروں کو۔

ای پیپر دی نیشن