اصحاب کہف(۱) 

مفسرین کے بیان کے مطابق اصحاب کہف ا±فسوس نامی ایک شہر کے شرفاءو معززین میں سے ایماندار لوگ تھے ان کے زمانے میں دقیانوس نامی ایک بڑا جابر بادشاہ تھا جو لوگوں کو بت پرستی پر مجبور کرتا اور جو بھی بت پرستی پر راضی نہ ہوتا اسے قتل کر دیتا تھا۔ بادشاہ کے ظلم سے بچنے کے لیے اصحاب کہف دوڑے اور ایک غار میں پناہ لے لی اور وہاں سو گئے اور تین سو سال سے زیادہ عرصہ تک سوئے رہے۔ باد شاہ کو معلوم ہو ا کہ وہ اس غار کے اندر ہیں تو اس نے حکم دیا کہ غار کو ایک سنگین دیوار سے بند کر دیں تا کہ وہ اس کے اندر ہی مر جائیں اور یہ ہی ان کی قبر بن جائے۔ اس سارے واقع کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے ؟ جب وہ جوان غار میں جا رہے تھے تو کہنے لگے اے ہمارے پروردگار ہم پر اپنے ہاں سے رحمت نازل فرما اور ہمارے کام میں درستگی (کے سامان ) مہیا کر۔تو ہم نے غار میں کئی سالوں تک ان کے کانوں پر (نیند کا ) پردہ ڈالے (یعنی ان کو سلائے ) رکھا۔ پھر ان کو جگا اٹھایا تا کہ ان سے معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ غار میں رہے دونوں جماعتوں میں سے اسکی مقدار کس کو خوب یاد ہے۔ہم ان کے حالات تم سے صحیح صحیح بیان کرتے ہیں وہ کچھ جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کو اور زیادہ ہدایت دی تھی۔ اور ان کے دلوں کو مربوط (یعنی مضبوط ) کر دیا جب وہ (اٹھ ) کھڑے ہوئے تو کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار آسمانوں اور زمین کا مالک ہے ہم اس کے سوا کسی معبود کو نہ پوجیں گے۔ اگر ایسا کیا تو ہم نے ضرور حد سے گزری ہوئی بات کی۔ یہ جو ہماری قوم ہے اس نے اللہ کے سوا اور معبود بنا رکھے ہیں بھلا یہ ان (کے خدا ہونے ) پر کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے۔تو اس سے زیادہ کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ اور جب تم ان سے اور جو کچھ وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں ان سب سے الگ ہو جاؤ تو غار میں پناہ لو تمہارا رب تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے کام میں آسانی کے سامان بنا دے گا۔ اور جب سورج نکلے تم دیکھو گے کہ (دھوپ) ان کے غار سے داہنی طرف سمٹ جائے اور جب غروب ہو تو ان کے بائیں طرف کترا جائے اور وہ اس کے میدان میں تھے یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں جس کو اللہ ہدایت دے وہ ہدایت یاب ہے اور جو گمراہ ہو تو تم اس کے لیے کوئی دوست راہ دکھانے والا نہیں پاؤ گے۔

ای پیپر دی نیشن