’’آئیے ، روتے حالات میں ہنس لیں ‘‘

رونا اور ہنسنا انسان کی جبلت میں شامل ہے اور جب انسان اپنی کسی جبلت کو نظرانداز کرتا ہے تو پھر کئی قسم کے جسمانی ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں نے چونکہ اِن انسانی جبلتوں کو اپنی مصروفیات کی وجہ سے نظر انداز کیا تھا۔ تو اَ ب وہ اِس کی اہمیت کو سمجھنے کے بعد اَب اِس جبلت کو بھی مصنوعی انداز سے Activate کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو ایک دلچسپ اور مضحکہ خیر کہانی ہے جیسے کہ انہوں نے ہر انسانی ضروریات یا جبلت کا مصنوعی متبادل بنالیا ہے اور اپنی ضروریات پوری کرلیتے ہیں مثلاً اْنہوں نے مصنوعی ذہانت کے ساتھ ایک ایسا روبوٹ بنالیا ہے جو گھر میں وسیع المقصد فرائض انجام دیتا ہے گھر کا مالک سارے دن کیلئے اْس روبوٹ کے فرائض کی ایک لسٹ اْس کے دماغ کے خانے میں فِٹ کرکے بجلی کا پلگ لگادیتا ہے۔ اور اِس کے ساتھ ہی وہ انسانی فرد کی طرح اپنے فرائض میں جْٹ جاتا ہے کھانا پکانے سے لے کر وہ تمام کام جو گھر میں نوکر چاکر یا خود افراد خانہ سرانجام دیتے ہیں وہ یہ سب کچھ کر لیتا ہے حتیٰ کہ اگر گھر میں کوئی فرد بیمار ہے تو ہر قسم کی نرسنگ وہ کرتا ہے دوائی کھلانے سے لے کر حاجتِ ضروری بمعہ طہارت ( اْن کے طریقہ کا ر کے مطابق ) طریقہ طہارت چونکہ سائنسدانوں کے اپنے مذہب کے مطابق ہوتا ہے جو زیادہ پیچیدہ نہیں ہے ورنہ اگر اِس روبوٹ کو اسلامی طرز طہارت کا کہا جاتا تو وہ صاف انکار کرکے اپنا اگلافرض شروع کردیتا۔
  بہرحال چونکہ اِن ترقی یافتہ ملکوں کے نفسیات اور میڈیکل ماہرین نے اِس حقیقت کو عیاں کردیا ہے کہ ہنسنا اور رونا دونوں کیفیات سے انسان کا گزر نا بہت ضروری ہے تو اْنہوں نے ایسے ماسک تیار کئے ہیں۔ جو ہر انسان کچھ دیر تک لگانے کے وجہ سے اپنی مرضی کے وقت کے مطابق خود بخود زور سے ہنسنا شروع کردیتا ہے ( مَیں سوچ رہی ہوں اگر ہنسنے کے اْس مقرر کردہ وقت کے دوران کِسی عزیز کی موت کی اطلاع آجاتی ہے تو اْس ماسک کو مقررہ وقت سے پہلے بند کرنا بھی تو مشکل ہوگا مگر وہ کونسا کِسی عزیز کی موت پر روتے ہیں ) میرے خیال میں سائنس دان اپنے جنون میں بہت سی ایجادات کرتے جارہے ہیں شاید ایک وقت آجائے کہ وہ بھی ہاتھ کھڑے کرکے ایک جگہ بیکار ہوکر بیٹھ جائیں کہ بس بہت ہوچکا۔ بہر حال اب دوسری جبلت یعنی رونے کے بارے میں بھی اْنہوں نے ایک طریقہ کار استعمال کررہے ہیں چونکہ ترقی یافتہ ملکوں میں سہولیات بہت زیادہ اور محرومیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اِس لیے اْنہیں رونے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ہمارے ہاں تو محروومیوں کے علاوہ بھی تو رونے دھونے کا اتنا مواد موجود ہے کہ قدم قدم پر رونا پڑتا ہے گھر سے باہر اور گھر کے اندر گھر کے اند ر صرف ساس بہو کے جھگڑے تو باقاعدہ جرائم کی صورت اختیار کرچکے ہیں یہیں آپ کو رونے کی بجائے ہنسنے کا کچھ مواد مہیا کررہی ہوں یہاں جرمنی میں ہر عید کو پاکستانی کمیونٹی کا ایک Gather To Get ہوتا ہے ایک عید پر میرے ساتھ کی ایک کرسی پر ایک دیہاتی قسم کی سادہ عورت بیٹھی ہوئی تھی اور اْس کے ساتھ بیٹھی جرمن لڑکی بار بار اْس کی پلیٹ میں کچھ نہ کچھ ڈال رہی تھی اور اْس کا بہت خیال رکھ رہی تھی مجھے تشویش ہوئی تو مَیں نے پوچھا آپ کہاں سے ہیں کہنے لگی چینچوں کی ملیاں سے ہوں میرا بیٹا یہاں بہت بڑا ڈاکٹر ہے وہ بہت مدت سے یہاں تھا اَب اْس نے یہاں اِس انگریز لڑکی سے شادی کرلی ہے مَیں نے جھٹ سے پوچھا یہ آپ کے ساتھ کیسی ہے؟ ابھی تو آپ کا بہت خیال رکھ رہی ہے بے ساختہ بولی بہن یہی تو پریشانی ہے ہم لوگ لڑائی جھگڑے کے عادی ہیں یہ تو سارا دن یَس (Yes) اور Pleaseکے علاوہ بات نہیں کرتی سونے سے پہلے ہر حال میں Night Good کہتی ہے میرے بیٹے کو بھی بہت پیار کرتی ہے بات بات پر اْسکے گلے میں بانہیں ڈال کر اْسے پیار کرتی ہے بھلا ہم اِن بے حیا ئیوں کے کہاں عادی ہیں؟ بس مَیں واپس جانا چاہتی ہوں لیکن میرے شوہر چونکہ فوت ہوگئے ہیں اور یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے مجھے جانے نہیں دیتا۔ یہاں نہ کوئی لڑائی
 نہ جھگڑا نہ کام نہ کاج بھلا ہم لوگ یہاں کیسے رہ سکتے ہیں؟ بیچاری خاتو ن رونے لگ گئی۔ بچہ سَقہ کی کہانی سب کو معلوم ہوگئی جب اْسے اڑھائی دن کے لیے بادشاہ بنایا گیا تو اْسنے اپنی چمڑے کی مَشک کے سکے بنوائے اور پھر ٹھیک اڑھائی دن کے بعد وہ اپنی مَشک سے سڑکوں پر چھڑکاو کرتے ہوئے ناچ رہا تھا۔
اَب آپ کو اپنے بارے میں بھی ایک دلچسپ واقعہ سناتی جاوں۔ جب میری شادہ ہوئی تو میرے اور میرے سسرالی خاندان کے طرزِ زندگی میں زمین و آسمان کا فرق تھا سْسرالی بڑے وَڈے زمیندار تھے اور مَیں ایک ایسے گھرانے سے تھی جو سادہ مگر تربیت یافتہ تھا والد ایک سرکا ری سول آفیسر اور دادا ایک فوجی آفیسر تھے (مجھے لغاری ہونے کی وجہ سے لوگ کِسی فیوڈل لارڈ کی چشم و چراغ نہ سمجھیں ) مجھ پر اتنا زیور ڈال دیا گیا جیسے میلے میں ناچنے والی گھوڑی کو پہنایا جاتا ہے شادی کا جوڑا بھی ایک زرہ بکتر کے برابر وزنی تھا ( کیونکہ اْنہیں پتہ تھا کہ آگے چل کر مجھے سسرال میں جنگی بنیادوں پر رہنا پڑے گا ) جب گلے میں گلو بند کی صورت میں پھانسی کا پھندا بانہوں میں چوڑیوں کی ہتھکڑیاں ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ اور پاوں میں پازیبوں کے جولان ڈال دیئے گئے تو جب مہمان کھانا کھانے گئے اور مَیں سٹیج پر اکیلی رہ گئی تو مجھے اپنے آپ کو Comfortableکرنے کا حیران کن خیال آیا مَیں نے دوچار کے علاوہ تمام زیورات اْتار کراپنے پرس میں ڈال دیئے جب کچھ دیر بعد میری نند کچھ مہمانوں کو لے کر میرا منہ دکھانے آئیں تو مہمان عورتیں میری نند سے انتہائی ترس بھری آواز میں کہنے لگیں بہن اچھا کیا ہے غریب گھر کی لڑکی لے آئی ہیں۔ایسی لڑکیاں اچھا گزارہ کرتی ہیں پھر آہستگی سے کہنے لگیں بہن یہ بیچاری تو چلو کچھ نہیں لائی آپ تو بڑے زمیندار تھے کچھ اپنی طرف سے آپ ہی زیور ڈال دیتے گھر کی چیز گھر میں بنی رہنی تھی لوگ باتیں بنارہے ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...