ملک میں جاری سیاسی بحران کے ذمہ دار انتشار پسند عناصر ہیں،جو ملک کی سلامتی کو دائو پر لگا کر پر تشدد احتجاج کو اپنا حق سمجھتے ہیں ، یہ انقلاب اورآزادی کے جھوٹے دعویدار سیدھے سادھے عوام کو ورغلا کر سڑکوں پر لا کر انہیں مشکلات میں پھنسا کربے یارو مدد گار چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں، بچوں اور عورتوں کو ساتھ ملا کر انقلاب یا آزادی کا نعرہ ایک فریب ہے ، بزدلی ہے نامر دانگی ہے ،انقلاب کبھی نامرد اور بزدل نہیں لاتے، اور نہ ہی وہ پست ذہن افراد جن کا نہ کوئی اصول اور مقصود ہو، اور نہ ہی کسی نسب العین کا تعین ہو، ان انتشار پسند فتنہ پرور عناصر کا ایک ہی مقصد ہے ، انتشار پیدا کیا جائے اور ملک کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ دنیا پاکستان کوایٹمی اثاثوں سے محروم کر دے اور اردگرد کے ممالک پاکستان پر قابض ہو جائیں ۔
ان ملک دشمن انتشار پسند وں سے پوچھا جائے کہ انہوں نے آزادی کس سے لینی ہے ان سے جو اس ملک کی سرحدوں کے محافظ ہیں ، جو راتوں کو جاگ کر پاکستان کے ہر شہری کو بلا تفریق تحفظ دیتے ہیں اور عوام چین کی نیند سوتے ہیں ، ان جیسے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں تاکہ عام شہری محفوظ رہ سکیں ، قدرتی آفات ، سیلاب اور بم دھماکوں سے ہلاک شدگان کی امداد تک یہی افواج پاکستان ہی ہے جو کرتی ہے ، ملک کے محافظوں سے آزادی کا مطلب شر پسند طبقے کو اچھی طرح معلوم ہے اور یہی ان کا بیرونی ایجنڈا بھی ہے لیکن معصوم نوجوانوں اور صنف نازک اس جھوٹے آزادی کے نعرہ کو سمجھ نہیں رہے ۔اپنے محافظوں سے آزادی کا مطلب ہے کہ کے فوج کو بے بس کر کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا اور بیرونی آقائوں کی غلامی میں دینا ، دوسرا یہ کہ اپنی محافظ فوج کو مفلوج کر کے پنجاب اور سندھ کو انڈیا کے مقابلے میں غیر محفوظ بنانا ، خیبر پختونخواہ کو افغانستان کے زیر اثر لانا اور بلوچستان ایران کی تحویل میں دے کر اپنوں سے آزادی اور اغیار کی غلامی میں پاکستان کی نئی نسل کو جھونک دینا ان جھوٹے حقیقی آزادی کے شرپسندوں کا ایجنڈا ہے ، جس سے نوجوان نسل لا علم ہے ۔
اپنے اس ایجنڈے کی تکمیل کے لئے یہ ٹولہ ملک اور بیرون ملک باقائدہ منصوبہ بندی سے متحرک ہیں اور ایسا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے جس سے پاکستان کی بدنامی ہو ، بیرون ملک اپنے آقائوںسے مشاورت میں رہتے ہیں اور سوشل میڈیا پر حقائق کے منافی اس قدر جھوٹ پھلاتے ہیں کہ سچ کا گمان ہو ، ایک صوبے میں حاکمیت کے بل بوتے پر تمام سرکاری وسائل کے ساتھ وفاق پر بیرونی آقائوں کے ایماء پر کرائے کے دہشت گردوں کو ساتھ ملا کر ملکی سیکورٹی کے اداروں پر حملہ آور ہونے اور املاک کو نقصان پہنچانے کو اپنا حق سمجھنے والے نرمی کے کیسے مستحق ہو سکتے ہیں، حالیہ اسلام آباد پر چڑھائی اور احتجاج میں امن وامان کی صورتحال کو قابو رکھنے کے لئے سیکورٹی اداروں کی طرف سے جو اقدامات اٹھائے گئے ان کو پی ٹی آئی اور اس جماعت کے حمائتی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے موقف اپنا رہے ہیں کہ پر امن مظاہرین پر شیلنگ کی گئی اور ان پر گولیاں چلائیں گئیں ، پہلی بات تو یہ ہے کہ اس احتجاج میںشامل افراد پُر امن نہیں تھے وہ اسلحہ بردار تھے ، دوسرا یہ کہ افغان باشندے کرائے پر لائے گئے تھے ، چیف کمشنر اسلام آباد اور آئی جی اسلام آباد نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’پر امن احتجاج آپ کا حق ہے ، لیکن جب مظاہرین اسلحہ استعمال کریں اور امن و امان کو قائم رکھنے والے اداروں کے ملازمین پر حملے کریں ،املاک کو نقصان پہنچائیں اور سیدھی فائرنگ کریں ، تو پھر یہ احتجاج نہیں شر پسندی اور دہشت گردی ہے ‘‘اس احتجاج کی آڑ میں مظاہرین نے ہر قسم کا اسلحہ پولیس پر استعمال کیا، مظاہرین سے مجموعی طور پر 43 ہتھیار بر آمد ہوئے ، ا س شر پسندانہ احتجاج کے کچھ پوشیدہ حقائق بھی سامنے آئے ہیں ، جن میں کچھ افغان باشندوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے ،صحافتی ذرائع نے خدشات ظاہر کرتے ہوئے اس بات کے امکان کا اظہار کیا کہ احتجاج میں ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ’’ را ‘‘ کے اہلکار بھی موجود تھے ، اور خیال کیا جاتا ہے کہ کنٹینر کو آگ بھی ’’ را ‘‘ کے ایجنٹوں نے ہی لگائی تاکہ خفیہ مواد پاکستان کی ایجنسیوں کے ہاتھ نہ لگے ،جو کہ بھاگتے وقت وہ اپنے ساتھ نہیں لے جا سکے، تحریک انصاف اپنے جن کارکنوں کی اموات کی بات کرتی ہے، قوی امکان ہے کہ یہ ان کی منظم منصوبہ بندی ہو ، کیونکہ ان کے بتائے ہوئے اعدادو شمار کسی بھی طرف سے مصدقہ نہیں ہیں۔
پی ٹی آئی کے اس شر پسندانہ احتجاج میں ملکی معیشت کو شدید نقصان ہوا ، 27 نومبر ، 2024 ء کو سٹاک مارکیٹ میں کاروبار شدید مندا رہا جس کے نتیجے میں سٹاک مارکیٹ کریش کی سی صورت میں دیکھی گئی ، اور سٹاک مارکیٹ انڈیکس 3506 پوائنٹ گر گیا ،حکومت کو اربوں روپے کے مالی نقصان کا اندیشہ ہے ، آئی جی اسلام آباد کے مطابق اسلام آباد سیف سٹی کے کیمرے جن کی مالیت 38 ملین تھی وہ توڑے گئے، احتجاج کو روکنے کے لئے 30 کروڑ کا ابتدائی تخمینہ لگایاگیا تھا، لیکن مظاہرے کے دوران توڑ پھوڑ کے علاوہ مظاہرین کو روکنے کے لئے حکومتی اقدامات کے سبب اعداو شمار اربوں تک تجاوز کر گئے ہیں۔
2014 ء سے تحریک انصاف نے ملکی سیاست کو پارلیمنٹ کے بجائے احتجاج کی صورت میں سڑکوں پر انتشار ہی پھیلا یا،اور سیاسی رویے سے اجتناب کیا اور پالیمنٹ میں سیاسی مسائل کو حل کرنے کے بجائے عدالتوں کو سیاسی مسائل میں الجھائے رکھا، مزید برآں ملکی معاملات کو بیرونی دنیا اور سوشل میڈیا پر اچھا ل کر پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔