’’شام معاصر‘‘۔۔۔صبح نو

Dec 01, 2024

ناصر نقوی۔۔۔ جمع تفریق

ادب وثقافت ،سیاست و صحافت کے منفرد شہر لاہور میں آ ج بھی ادب نوازوں اور شخصیت شناسوں کی کمی نہیں، حالانکہ ماضی کی روایت اور ادبی جستجو،، سوشل میڈیا جنگ ،،کی نذر ہو چکی ہے۔ کتاب اور رسالہ بے زار معاشرے میں اب بھی اچھے اور منفرد تخلیق کاروں کی پذیر ائی نہ ہونے کے باوجود نمایاں ہیں کیونکہ مضبوط کہانی، خوبصورت مکالمے، لفظوں کی بنت ،ڈرامہ، منفرد خیال اور اچھوتے اسلوب انہیں خود بخود زندگی بخش دیتے ہیں اور یہ زندگی ابدی ہوتی ہے۔ کسی عمر اور ماہ و سال کی مرہون منت نہیں، اس لیے کہ ہر دور میں بہت کچھ لکھا گیا، چھپا بھی لیکن پزیرائی ہر کسی کو نہیں ملی، ایسے میں اگر پوری صدی کا جائزہ لیں تو فنون، نقوش ،ادب لطیف، مخزن، ادبی دنیا، سویرا ،ماہ نو، عالمگیر، ہمایوں اور نیرنگ خیال ہر لحاظ سے میدان ادب کے شاہکار دکھائی دیتے ہیں۔ ان رسائل نے بہت سی شخصیات کو شرف قبولیت ہی نہیں، کامیابی کی سند بھی بخشی، وجہ یہ بھی تھی کہ ان ادبی جریدوں کے مدیران بھی کسی سے کم نہ تھے بلکہ وہ ہمعروں کے علاوہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی میں بھی کنجوس ہرگز نہیں تھے ،اسی ادب نواز دور میں 1979ء  میں ممتاز کالم نگار، منفرد شاعر ،معروف نثر نگار عطاء الحق قاسمی معاصر کی ادارت کے ساتھ وارد ہوکر دوسروں سے ،،وکھری ٹائپ،، ثابت ہوئے۔ آ ج تک ان کا نا عزم کم ہوا اور نہ ہی ہمت ہاری بلکہ معاصر کے ضخیم شماروں کی تیاری کے لیے ہر با ادب دروازے پر دستک دی اور ممتاز ادیبوں اور معروف شاعروں کے انتخاب کلام سے اس کی شان اور پہچان میں اضافہ کیا۔ آج 2024ء میں بھی اس کا معیار ایسا ہی ہے کہ تمام بڑے لکھاری اپنی تخلیقات معاصر کے ذریعے ادب شناسوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور جو سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں عطاء الحق قاسمی ان کا دروازہ اس زور سے کھٹکھٹاتے ہیں کہ اسے سوتے جاگتے معاصر نہیں بھولتا ،ماضی کے مدیران کا یہی رویہ تھا جو آ ج ناپید ہو چکا ہے تازہ شمارے میں بھی احمد جاوید، عطاالحق قاسمی، انوار احمد، اصغر ندیم سید ،ڈاکٹر یونس جاوید، محمد حمیدشاہد، ناصر عباس نیر ،ڈاکٹر ضیاء الحسن کی تحریروں سے سجا ہوا ہے بلکہ ظفر اقبال ،نذیر قیصر ،فیصل عجمی اور قمر رضا شہزاد جیسے ممتاز شعراء کے لیے گوشے بھی بنائے گئے ہیں۔ یہی نہیں، نظم ،غزل، افسانے ، موسیقی، تحقیق و تنقید اور طنز و مزاح موجود ہے معاصر کے مدیر عطاء الحق قاسمی کا خاکہ ،ناصر عباس نیر کا مضمون اور اقتدار جاوید کا مرثیہ نو تصنیف نمایاں ہیں۔ 500 صفحات پر مشتمل معاصر قابل تعریف ہے، اسی لیے موجودہ دور کے ممتاز شاعر ڈائریکٹر جنرل مجلس ترقی ادب عباس تابش نے چائے خانہ کلب روڈ میں ایک محفل ایسی سجائی جس میں سردیوں کی شاموں میں اداس پھرنے والے شعیب بن عزیز اور ان جیسے دوسروں کو ممتاز ناول نگار اور ڈرامہ نویس اصغر ندیم سید کی زیر صدارت اکٹھا کیا ،مہمان خاص عطاء الحق قاسمی تھے جبکہ اس خصوصی نشست میں صوفیہ بیدار کی نظامت میں نذیر قیصر ،شعیب بن عزیز، ڈاکٹر نجیب، ڈاکٹر ضیاء الحسن، گل نوخیز اختر اور دیگر نیاظہار خیال کیا جنہوں نے مشکلات کے اس دور میں معاصر کی باقاعدہ اشاعت اور اس کے معیاری اور اعلی تخلیقات پر عطاء الحق قاسمی اور ٹیم کو مبارکباد دی۔ 
 تقریب عطاالحق قاسمی کے اعزاز میں تھی لہذا ہر دوسرے لمحے کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور کی گئی جس سے نہ صرف شرکاء کے چہرے مسکراہٹوں سے کھل اٹھتے بلکہ محفل زبردست تالیاں بجا کر داد بھی دیتی رہی، سردیوں کی شاموں میں اداس رہنے کے دعوے دار شعیب بن عزیر نے خوشخبری سنائی کہ وہ اس موقع پر ایک تحریر لکھ کر لائے ہیں حالانکہ لکھنے کے معاملے میں وہ خاصے کنجوس ہیں۔ اس اطلاع پر لمحے بھر کی خاموشی ہوئی تو شعیب بن عزیز نے فیصلہ بدلتے ہوئے کہا میں پورا نہیں پڑھوں گا، اس کے اقتباس سناؤں گا۔ اصغر ندیم سید نے صدارتی لقمہ دیا کہ آ پ با ضمیر ہیں؟ شعیب صاحب نے برجستہ جواب دیا پھر تو مجھے پورا مضمون پڑھنا پڑے گا۔ نذیر قیصر نے کہا جس محفل میں عطا القاسمی موجود ہوں وہاں مسکراہٹوں کا ڈیرا ہوتا ہے اور میں تو یہی کہتا ہوں ،، چہرے دعا ہوتے ہیں اور مسکراہٹیں بانٹنے والے خراج تحسین کے مستحق کیونکہ مرجھائے چہروں کو خوشیاں بخشنا بھی،، صدقہ جاریہ ،،ہے ان کا کہنا تھا کہ 60 کی دہائی میں میرا اور قاسمی صاحب کا تعلق بنا۔ معاصر سے بھی ابتدا سے ہی رشتہ قائم ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ڈاکٹر ضیاء الحسن کا کہنا تھا میں ان کا شاگرد ہوں یہ قاسمی صاحب کی عطا ہے کہ وہ ہم جیسوں سے بھی محبت کرتے ہیں۔ میں لکھوں، نہ لکھوں، مجھے ان کے اصرار پر لکھنا ھی پڑتا ہے۔ صوفیہ بیدار نے اعلان کیا کہ میں روایت شکنی کرتے ہوئے صدر محفل سے پہلے خطاب کی درخواست کرتی ہوں، اصغر ندیم سید ابتدائی الفاظ میں اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے مخاطب ہوئے کہ آپ کو پتہ چل گیا ہوگا کہ میں کمزور صدر ہوں ،نہ کسی کو روک سکا اور نہ ہی حسب منصب بول سکا ،انہوں نے کہا جب پڑھنے پڑھانے کا شوق ہوا تونذ یر قیصر کی شاعری سے متاثر ہو کر انہیں،، گلڈ ہوٹل ،،ملتان دیکھنے گیا جب مجھے ان سے ملایا گیا تو یقین ہی نہیں آ یا کہ ایک دبلا پتلا سا لڑکا ہی نزیر قیصر ہے لیکن کمال یہی ہے کہ نذیر قیصر جیسا بھاری بھرکم شاعر آ ج بھی اسی طرح کا دبلا پتلا ،،سمارٹ لڑکا،، ہے۔ اصغر ندیم سید کا کہنا تھا کہ جب میں لاہور آ یا تو سب سے پہلے ،،نوائے وقت ،،میں قاسمی صاحب سے ملنے گیا اور انہوں نے اپنے ادبی صفحہ پر میرے حوالے سے خبر لگائی۔ ملتان کا ،، پپو ،،لاہور میں جب سے آ ج تک ملتانی مجھے اسی نام سے پکارتے ہیں انہوں نے کہا عطاالحق قاسمی میں حس مزاح تو ہے ہی لیکن ان میں حس وفا بھی ہے ،انہوں کا کہنا تھاہر منصب پر بیٹھتے ہی دوسروں کا خیال کیا دوسروں کو فائدہ پہنچایا۔ میں 20ویں گریڈ میں اپنی تقرری کے انتظار میں تھا، ان کو پتہ چلا تو انہوں نے مجھے بغیر بتائے ایک گھنٹے میں مسئلہ حل کر دیا ،شاعری اور کالم نگاری میں عطا ایک یکتا مقام رکھتے ہیں لیکن انہوں نے جب ڈرامہ لکھا تو ،،خواجہ اینڈ سن اور شب دیگ،، ہی یادگار نہیں بلکہ الیکشن کا خصوصی ڈرامہ،، شیدا ٹلی ،،بھی ناقابل فراموش بن گیا۔ انہوں نے کہا میں ان تاریخی لمحات کا گواہ ہوں جب پرویز مشرف نے ایک منتخب حکومت پر شب خون مارا۔ پہلی اطلاع پر ہی عطا الحق قاسمی نے ایک سادے کاغذ پر اپنا استعفی لکھ دیا اس وقت میں سفیر پاکستان کے ساتھ ان کے گھر میں موجود تھا میں نے ان کو کہا کہ ذرا سوچ سمجھ کے فیصلہ کریں۔ 
اس وقت وہ سفیر پاکستان میرے لیے کھانا پکا رہے تھے لیکن انہوں نے میری بات سنی ان سنی کر دی ،چند لمحوں بعد بولے،، فیصلہ تو ہو گیا ہے،، میں حیران تھا کہ ایسی جلد بازی کیوں ؟لیکن ان کی شخصیت میں موجود وفاداری منتخب حکومت کے ساتھ تھی لہذا میں نے اس بات کو پرکھتے ہوئے خاموشی اختیار کی، دوسرے روز صبح سویرے میرے ساتھ وہ پاکستانی سفارت خانے گئے اور انہوں نے وہاں سے اپنا استعفی بھیج دیا۔ وہ ایسی شخصیت ہیں کہ ان کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ شاعری، نثر نگاری ،ڈرامہ نویسی اور دوستوں کی پذیرائی ان کا خاصہ ہے لیکن یقینی بات ہے کہ اس وقت محفل ان کی زبان سے ان کی یہ کہانی سننا چاہتی ہوگی لہذا میں ان کے اور شرکاء  کے درمیان حائل ہونا نہیں چاہتا ،ویسے بھی عطاالحق القاسمی نے دھیرے سے میرے کان میں کہا ہے کہ بار۔بی۔ کیو کی خوشبو نے بھوک کو تیز کر دیا ہے لہذا انہی الفاظ پر میرا صدارتی خطبہ اختتام کو پہنچتا ہے ،عطاالحق قاسمی نے مائیک سنبھالتے ہی کہا کہ میں نے بہت سی اپنی تعریفیں آ پ لوگوں کے گوش گزار کرنی تھیں لیکن ہوا یہ کہ سب نے میری اتنی تعریفیں کر دیں کہ میرے پاس اب کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے لہذا میرے شکریہ کو ہی میری تقریر سمجھیے، تمام چہرے کھل اٹھے، پھر مت پوچھیں کیا ہوا ؟زندہ دلان لاہور اور ادب و آداب کے پیکر شرکا نے تکہ بوٹی اور کبابوں پر خوب ہاتھ صاف کیا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ نان اپنی منفرد حیثیت رکھنے کے باوجود بھی دور سے ان سب کو دیکھتے رہ گئے، بھلا تکہ بوٹی کے سامنے نان کی کیا اوقات؟ بہرحال عباس تابش نے ایک پر تکلف عشائیہ بھی دیا اور ایک خوبصورت تقریب کا اہتمام بھی کیا، یوں تو یہ،، شام معاصر،، تھی لیکن اس کے شرکا کی تعداد یہ بتا رہی تھی کہ ثقافتی اور ادبی شہر لاہور میں قدر دانوں کی ابھی بھی کمی نہیں۔ یقینا آ ج کے دور میں ایسی تقریبات کم کم ہی دکھائی دیتی ہیں اب اسے عطا الحق قاسمی کی شخصیت کرامات سمجھیں یا عباس تابش کی پذیرائی کا خوبصورت تحفہ، میں تو،، شام معاصر،، کو نوید صبح نو ہی کہوں گا آ پ کیا کہتے ہیں یہ آ پ کی مرضی ؟خدا ایسی شخصیات کو زندہ و سلامت رکھے تاکہ اس افراتفری اور ہنگامی دور میں بھی لوگوں کو سکھ کا سانس نصیب ہو سکے ،کچھ کہنے،کچھ سننے اور ایک دوسرے کے مسکراتے دیکھنے کے لمحات میسر آ سکیں۔

مزیدخبریں