بامقصد مذاکرات… مسائل کا واحد حل

Dec 01, 2024

اللہ دتہ نجمی

’’میں آیا، میں نے دیکھا اور فتح کر لیا‘‘، 47 ء قبل مسیح میں جولیس سیزر کی طرف سے ادا کئے گئے اِس فرانسیسی phrase کی اس وقت یاد آئی جب پی ٹی آئی کے کارکنوں نے حکومتی رکاوٹوں کو کامیابی سے روندتے اور حکومت کی طرف سے دی جانے والی warnings اور پند و نصائح کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کی قیادت میں ڈی چوک پہنچ کر دم لیا۔ پی ٹی آئی کارکنان کی ڈی چوک پہنچنے پر حکومت اور حکومتی وزراء کی پریشانی دیدنی تھی۔ تاہم، حکومت کے ساتھ ساتھ گنڈا پور بھی بے پناہ دباؤ کا شکار نظر آئے۔ ان کو راستے میں بھی کئی آزمائشوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے بھی دباؤ کا شکار رہے۔ جوشیلے کارکن گنڈاپور کو واش روم نہیں جانے دے رہے تھے کہ کہیں وہ اِس قدرتی جواز کا سہارا لے کر پہلے کی طرح کارکنان کو اکیلا اور بے یارو مددگار چھوڑ کر پھر سے غائب نہ ہو جائیں۔ بہرکیف، گنڈا پور کو ڈی چوک پہنچ کر بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اور حکومتی زعماء بھی حیرانی و پریشانی کے عالم میں انگشت بدنداں ریے۔ ایسا لگتا تھا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے ڈی چوک میں دھرنا دینے کا سلسلہ اب پھر سے شروع ہونے کو ہے اور حکومت تلملاہٹ میں اس کا کوئی فوری توڑ تلاش کرے گی۔ فریقین لڑتے لڑتے تھک ہار کر اس صورتحال سے باہر نکلنے کے بہانے ڈھونڈیں گے۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا اور گنڈا پور اپنے کارکنوں کو بے یارو مددگار چھوڑ کر سرد موسم اور گرم سیاسی درجہ حرارت کے حوالے کر گئے اور بشریٰ بی بی کے ہمراہ رات کی تاریکی میں کے پی کے پہنچ گئے۔ 
سوچنے کی بات ہے کہ جب انہوں نے حکومتی رکاوٹوں کے تسلسل کو توڑ کر ڈی چوک پہنچنے کا اپنا پہلا مشکل ہدف حاصل کر لیا تھا اور حکومت کو زچ کرنے اور دفاعی پوزیشن پر لانے میں کامیابی بھی سمیٹ لی تھی تو پھر پسپائی اور فرار کے راستے کا انتخاب کرکے پریشان حال حکومت کو واک اوور کیوں دیا گیا؟؟ انہوں نے اس عمل سے اپنے کارکنان کو ناراض کرنے کے علاوہ حکومتی ارکان کو طرح طرح کے طعنے دینے کے مواقع کیوں فراہم کئے؟ ان سوالوں پر مبصرین کی طرف سے تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جو کسی نئے ایشو کے وقوع پذیر ہونے تک برقرار رہے گا۔ 
پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران بہت سی باتیں توجہ طلب رہیں۔ بشریٰ بی بی کی سیاست میں نہ صرف باقاعدہ انٹری ہوئی بلکہ انہوں نے پارٹی کی کمان بھی سنبھال لی۔ فیصلہ سازی کا اختیار بھی ان کے پاس چلا گیا۔  انکی گنڈا پور کی سیاسی سوچ سے اختلاف کی خبریں بھی سنی گئیں۔ سری نگر ہائی وے پر مظاہرین کی طرف سے رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھائے جانے سے رینجر کے چار اہلکار شہید اور پانچ شدید زخمی ہوئے۔ اس سانحہ سے پہلے ایک پولیس اہلکار نے بھی ڈیوٹی کے دوران جان کی بازی ہاری اور درجنوں پولیس اہلکار شدید زخمی ہو کر ہسپتالوں میں لائے گئے۔ پنجاب سے پی ٹی آئی کے رہنما عملاً احتجاج میں شرکت سے گریزاں رہے۔ پکڑ دھکڑ اور گرفتاریوں کا سلسلہ قبل از احتجاج سے بعد از احتجاج جاری رہا۔ احتجاج میں افغانیوں کی شمولیت کی اطلاعات بھی ملیں۔ حکومت اور پی ٹی آئی قائدین میں مذاکرات بھی ہوتے رہے اور پارٹی قائدین کو جیل میں مشاورت کیلئے عمران خان سے ملوایا بھی جاتا رہا۔ احتجاج کے دوران اور خاتمے کے بعد تک بشریٰ بی بی حکومتی ارکان کی طرف سے مسلسل ہدف تنقید بنیں۔ ماحول کو گرمانے والے شیر افضل مروت احتجاج سے لاتعلق سے رہے اور اب پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل، سلمان اکرم راجہ کے مستعفی جبکہ حامد رضا کی جانب سے سیاسی کمیٹی اور کور کمیٹی سے الگ ہونے کی خبریں بھی زیرِ گردش ہیں۔ 
 حکومتِ وقت کے خلاف لانگ مارچ کرنے اور دھرنا دینے کی رسم کوئی نئی نہیں ہے۔ اِس ہنر کو سبھی بڑی جماعتیں آزما چکی ہیں۔ پارٹی رہبروں کی جیل یاترا بھی رسمِ قدیم اور معمول کا حصہ سمجھی جاتی ہے1971ء سے لیکر اب تک منتخب ہونے والے تمام وزرائے اعظم پس زندان رہ چکے ہیں۔ آصف علی زرداری جیل کی بے رحمی کے بارے میں کہتے ہیں، ’’یہ دو سال کے بعد پوچھتی ہے، تم کون ہو اور کیسے آئے ہو؟‘‘ اِس وقت کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی حامی نہیں ہیں لیکن مسندِ اقتدار پر جلوہ افروز ہونے کیلئے ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھتی بھی انہی کی طرف ہی ہیں۔ لگتا ہے کہ اب تو اسٹیبلشمنٹ خود بھی اس صورتحال سے نالاں ہو چکی ہے۔ 
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہمارے ہاں حکومت اور اپوزیشن کی ورکنگ ریلیش شپ کبھی بھی مثالی نہیں رہی۔ دو بڑی جماعتیں، پی پی پی اور مسلم لیگ ایک لمبے عرصے تک ایک دوسرے سے باہم گتھم گتھا رہیں۔ آخر کار دونوں کو ’میثاق جمہوریت‘ کرنا پڑا اور اسکے بعد انکے طرزِ عمل سے میچورٹی کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ آصف علی زرداری اپنی ذات میں انجمن کا درجہ رکھنے والے سیاست دان بن چکے ہیں۔ انکی کہی ہوئی بات پر تمام سٹیک ہولڈرز یقین اور اتفاق کر لیتے ہیں۔ میاں برادران کی گارنٹی دینے کیلئے اندرون ملک آصف علی زرداری اور بیرون ملک سعودی عرب، قطر اور یو اے ای اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کیلئے مشکل یہ ہے کہ اسکی قیادت پر نہ کوئی اعتماد کرنے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی اس کا گارنٹر بننے کیلئے کوئی راضی ہے۔ شاید اِسی وجہ سے سب سے مقبول عام ہونے کی دعویدار جماعت کا اب تک کسی سیاسی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ سے کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا۔
 پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو چاہیے کہ وہ اپنا پرانا موقف ترک کرکے بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ با مقصد مذاکرات کرے۔ اگر گفت و شنید اور ’کچھ لو، کچھ دو‘ کے تحت وہ اگلے عام انتخابات صاف و شفاف کرانے کی حد تک بھی کامیاب و کامران ہو جائے تو اس عمل سے انہیں خود کو، دوسری سیاسی قوتوں کو اور عوام کو تلخ و کٹھن حالات سے نکلنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دریا کے نیچے بہت زیادہ پانی بہہ جانے کے بعد اب کسی کے پاس بھی یہ دعویٰ کرنے کا جواز باقی نہیں بچا کہ صرف وہی ایک تو دیانتدار ہے اور دوسرے تمام کرپٹ۔ اب تو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ سبھی ایک ہی صف پر صف آرا ہو چکے ہیں۔ بدلتی رْت میں پی ٹی آئی کی قیادت کا سیاسی قوتوں کے ساتھ نہ چلنا، اس کو نت نئے افتادی جالوں میں الجھائے رکھنے کا باعث بنتا رہے گا۔ اگر تمام سیاسی جماعتیں کسی مفاہمتی فارمولے پر متفق ہو جاتی ہیں، جس طرح 1973ء کے آئین پر ہوئی تھیں تو اسٹیبلشمنٹ کو بھلا اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟؟

مزیدخبریں