چاروں صوبوں کے ممتاز اہل قلم کا مل بیٹھنا اور باہمی محبت اور فلاح و بہبود کی باتیں کرنا یقینا ایک خوش گوار تجربہ تھا جس کا راقم نے اس ہفتے مشاہدہ کیا۔ یہ موقع پاکستان رائٹرز گلڈ ٹرسٹ کے ایک اہم اجلاس کے سلسلے میں ملا۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہورکی میزبانی میں چاروں صوبوں کے رائٹرز گلڈکے صوبائی سیکرٹری صاحبان اور پنجاب کے مرکز کیلئے نمائیندوں پر مشتمل ٹرسٹ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کیلئے کراچی سے احمد عمر شریف ،کوئیٹہ سے حلیم مینگل پشاور سے پرفیسراسیر منگل اور لاہور سے ٹرسٹ کی چئیر پرسن فرح جاوید خزانچی زاہدہ صدیقی کے ساتھ پنجاب کے سیکرٹری بیدار سرمدی اور فیصل آباد سے مرکز کیلئے پنجاب کے رکن اخلاق حیدر آبادی اور آفس سیکرٹری ظفر اقبال اجلاس میں موجود تھے۔ صوبہ سرحد کے سینئر قلم کاراور خازن شیر خان ولی نے مبصر کے طور پر شرکت کی۔ جب اہم مالیاتی امور کے حوالے سے ایگزیکٹو کے اس اہم اجلاس کافیصلہ ہوااور تاریخ 21 نومبر بھی طے ہو گئی توملک میں ایک طرف دھند نے حالات خراب کرنا شروع کر دئے اور فلائٹس کا شیڈول متاثر ہونے لگا اور دوسری طرف سیاسی اضطراب کی لہر نے بھی انگڑائی لی اورتحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد میں فائنل کال کے عنوان سے بڑے لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کر دیاگیا۔ حالات انتہائی کشیدہ ہوتے چلے جا رہے تھے اور اس با ت کا امکان تھا کہ گلڈ ٹرسٹ کے ایگزیکٹو کے اس اجلاس سے پہلے ہی کہیں سڑکیں بلاک اور آمد ورفت کے ذرائع جام نہ ہو جائیں۔ ان حالات میں بھی ہمارے سندھ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے احباب نے عزم صمیم کا مظاہرہ کیا اور طے پایا کہ اجلاس پرگرام کے مطا بق ہی ہونا چائیے۔ویسے تو اجلاس میں ہفت زبان شاعر اور دانشورپروفیسر اخلاق حیدر آبادی، نقوش جیسے جہت ساز جریدے کی مدیرہ فرح جاوید اور تحریریں جیسے اہم ادبی جریدے کی مدیرہ زاہدہ صدیقی بھی اپنے اپنے منصب کے حوالے سے شریک تھیں لیکن اس خوشبو دار اجتماع کی تفصیلات بعد میں پیش کروں گا اس بار جی کرتا ہے کہ خیبر پختون خواہ بلوچستان اور سندھ کی نمائندگی کرنیوالے سیکرٹری صاحبان کے حوالے سے کچھ باتیں کی جائیں۔ رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی صوبائی شاخ کے سیکرٹر ی حلیم مینگل پولیٹیکل سانئس میں ایم اے ہیں لیکن سیاست کی بجائے انہوں نے علم وادب کو اہمیت دی اور ان کی ساری زندگی ادب اور فن میں نمایاں کردار ادا کرتے گزری ہے۔1987ء سے پہلے ریڈیو پاکستان اسلام آباد اور پھر پروڈیوسر کے طور پر 1988ء سے کوئیٹہ ریڈیو سٹیشن سے اپنی سروس کا آغاز کیا کوئیٹہ اور گوادر کے سٹیشن ڈائریکٹر جیسے اہم ترین انتظامی معاملات کو نبھانے کے ساتھ اردو براہوی بلوچی زبانوں میںں سینکڑوں ڈرامے لکھے بھی پرڈیوس بھی کئے اور کئی ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں اورعلم و ادب اور آرٹ کے میدان میں ان کی خدمات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ بلوچستان میں گلڈ کے صوبائی سیکرٹری بننے کے بعد سے ادب اور اہلیان ادب کوپروموٹ کرنا ان کی زندگی کا ایک مقصد بن گیا ہے۔بلوچستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان رائٹرز گلڈ کے سیکرٹری جنرل کا اعزاز اسماعیل بلوچ کی صورت میں اسکے پاس رہا۔ اسماعیل بلوچ صوبائی سیکرٹری بھی تھے انکے انتقال کے بعد جب سے حلیم مینگل نے صوبائی سیکرٹری کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں تو بلوچستان کی ادبی سرگرمیوں میں بہت تیزی آ گئی ہے۔ انہوں نے پہلی بار گلڈ کا باضابطہ دفتر بنایا۔صوبے کے لکھاریوں کی دلجوئی انکے مسائل کے حل کیلئے کاوشیں،اہل قلم سے سماجی روابط کی بہتری کیلئے رات دن ایک کرنا ان کی مقبولیت کا باعث بنا ہے دوسری کتابوں کے ساتھ ساتھ صوبے کے اہم شاعروں کی یادیں تازہ کرنا بھی انکے پرگراموں کا حصہ ہے اور ممتا ز شاعر اور سابق سیکرٹری انفارمیشن بلوچستان عطا شاد کے ریڈیو ڈراموں کو آواز کے سائے کے عنوان سے شائع کرنا ان کی ایک تازہ کاوش ہے۔ انکی مجلس عاملہ کے اراکین بھی بہت فعال ہیں رکن مجلس عاملہ ڈاکٹر عبدالرشید کی طرف سے شائع کی جانے والی کتاب پاکستان رائٹرز گلڈ بلوچستان قیام تا حال اس کی بڑی مثال ہے۔۔پروفیسر حسام الدین اسیر منگل نے سیکرٹری کی حیثیت سے خیبر پختون خواہ کی نمائندگی کی۔ وہ ممتاز ماہر تعلیم پشتو اور ارد و کے معروف شاعر محقق نقاد کالم نگار اور ڈرامہ نگار ہیں کوٹلی ضلع ہنگو سے تعلق رکھنے والے اسیر منگل کے و الد مولوی نظام الدین ایک بڑے عالم دین تھے۔ پشتو اور اردو میں اب تک ان کی 22 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
پروفیسر اسیر منگل کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ وہ پشاور میں دو پشتو عالمی کانفرنسیں منعد کروا چکے ہیں اور خود بھی کابل دوبئی اور قطر میں مختلف علمی اور ادبی کانفرنسوں میں کلیدی مقالہ نگار کی حیثیت سے شرکت کر چکے ہیں صوبہ پختون خواہ کے رائٹرز گلڈ کے قلم کاروں کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ صوبائی سیکرٹری اسیر منگل پرائڈ آف پرفارنس کے حامل اور صوبہ کی انتہائی متحرک ادیبہ بشری فرخ جو انیس کتابوں کی مصنفہ کئی گولڈ میڈل اور ایوارڈ لینے کے ساتھ اب صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی حاصل کرچکی ہیں اور گلڈ کی سرگرمیوں کے ساتھ کاروان حوا جیسی تنظیم کی روح رواں بھی ہیں۔ اجلاس میں سندھ کی نمائیندگی سیکرٹری کی حیثیت سے احمد عمر شریف نے کی۔گلڈ ٹرسٹ کی مجلس عاملہ کے گزشتہ اجلاسوں میں ان کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی رہی۔ اس بار ان کے آنے سے تمام شرکا نے دلی مسرت کا اظہار کیا۔احمد عمر شریف جن کا اصل نام عمر شریف خان ہے۔ہندوستان ،سری لنکا ، مالدیپ ، چین ہانگ کانگ، ملیشیاء، تائیوان ، فرانس سوئٹزرلینڈ، انگلینڈ، متحدہ عرب امارات ، سعودیہ عرب ، برما ، تھائی لینڈ ، ازبکستان قازقستان اور روس کا سفر کر چکے ہیں۔فلم سازی بھی کر چکے ہیں۔ بطور پروڈیوسر پشتو فلم ڈولئی بنائی۔جہاں تک اعزازات و انعامات کی بات ہے تو انہیں حکیم سعید ایوارڈبہترین شاعر ایوارڈ کراچی سیکنڈری اسکول بہترین شاعر ایوارڈ جناح کالج کراچی فا ؤنڈیشن ایوارڈ:بہترین شاعر ایوارڈ۔ بزم طلباء ریڈیو پاکستان سفیر برائے امن ورلڈ بیس فیڈریشن انگلینڈسنت بھگت کبیر ایوارڈ:گیاویلفیئر ٹرسٹ اشتراک پاکستان ہندو کونسل امن ایوارڈ:انسٹی ٹیوٹ آف ایتھکس اینڈ کلچرسرسید احمد خان ایوارڈ:سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی مل چکے ہیں۔گیتا گیت پاکستان رائٹر گلڈ نے چھاپا جس پر صدف فاطمہ نے MA اردو کا مقالہ ڈاکٹر شاداب احسن کی زیرِ نگرانی لکھا جبکہ صائمہ راؤ نے M.Phil کا مقالہ زیر نگرانی ڈاکٹر آصف جہانگیر لکھا۔ ان دنوں سندھ کی تنظیم کو مزید فعال کرنے میں مصروف ہیں۔آخر مں ان کا ایک شعر۔
یہ جسم ہے کہ مکاں ہے رہا گمان مجھے
میں اس کو راس نہ آیا نہ یہ مکان مجھے