پیپلزپارٹی کا 57 واں یوم تاسیس‘ کامیابیوں اور ناکامیوں کا سفر۔
جو لوگ دل و دماغ دونوں سے کام لیتے ہیں‘ آنکھیں اور کان کھلے رکھتے ہیں‘ وہ اپنا نامہ اعمال بھی درست رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انکی اپنے دفتر عمل پر نگاہ رہتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو تو اس طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے تاکہ جب کہیں سے پیش کر غافل اگر کوئی عمل دفتر میں ہے‘ کی صدا آئے تو اپنے کارناموں پر فخر اور ناکامیوں پر تاسف کا اظہار کر سکیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی خیر سے اب 57 برس کی ہوگئی ہے۔ باقی جماعتوں کی نسبت اس کا قیام اور اسکی سیاسی جدوجہد ہنگامہ خیز ماحول میں ہوئی۔ اسکے بانی ذوالفقار علی بھٹو ایک کرشماتی اور سیمابی صفت کے انسان تھے‘ انہوں نے اپنی تقاریر کے سحر سے پیپلز پارٹی کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بنا دیا۔ اسلامی سربراہ کانفرنس‘ پاکستان کا آئین ،نیشنلائزیشن کا عمل اور قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا انکے دور کے کارنامے ہیں۔ مغربی دنیا کے علاوہ روسی بلاک کے ساتھ انہوں نے رابطہ استوار کیا‘ اسلامی خاص طور پر عرب ممالک کو پاکستان کے قریب کر دیا۔ لاکھوں پاکستانی باہر ملازمت کیلئے بھیجے۔ سب سے بڑھ کر عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا جو اس سے پہلے نہیں تھا۔ تاہم انکے انا پرست رویہ کی وجہ سے انکے قریبی ساتھی جلد ہی ان سے دور ہوگئے مگر ان کا سب سے اہم کارنامہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز تھا جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ بعدازاں سیاسی مخالفوں جماعتوں پر سختیاں اور 1977ء کے الیکشن میں دھاندلی کی وجہ سے عوام بپھر گئے اور کچھ پس پردہ قوتوں نے بھی ان کا تختہ الٹ دیا اور مارشل لاء نافذ ہوا جس میں ایک قتل کے الزام میں انہیں پھانسی دی گئی۔ اس دوران انکی پارٹی نے واقعی لاٹھی‘ کوڑوں‘ گولی اور مارشل لاء کے جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کے بعد جب الیکشن ہوئے تو انکی بیٹی بے نظیر بھٹو پہلی اسلامی خاتون سربراہ بن گئیں اور دومرتبہ حکومت کی۔ انکے قتل کے بعد الیکشن میں آصف زرداری کا دور آیا تو حقیقت میں بھٹو والی پیپلزپارٹی کا دور ختم ہوا‘ یہ اب بلاول بھٹو زرداری کی جماعت بن چکی ہے جو سندھ کارڈ کی بدولت زندہ ہے۔ مگر بہرحال یہ بڑی قومی پارٹی ہے‘ اس عرصہ میں جہاں اس پارٹی کی کامیابیاں نمایاں ہیں وہیں اسکی ناکامیاں بھی سب کے سامنے ہیں۔ جن میں سب سے بڑی یہ ہے کہ اپنے تینوں ادوار میں یہ عوام کو نعرے کے مطابق روٹی کپڑا اور مکان نہ دے سکی۔
٭…٭…٭
چیمپئنز ٹرافی میں بھارتی ٹیم کی عدم شرکت کا مسئلہ ، آئی سی سی بھی پریشان۔
اس سے بڑی شرمندگی بھارت کیلئے اور کیا ہوگی کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور پاکستان کی طرف سے چیمپئنز ٹرافی میں بھارتی کرکٹ ٹیم کی عدم شرکت پر اس کی دنیا بھر میں ملامت ہو رہی ہے۔ مگر بھارتی حکومت ابھی تک بے مزہ نہیں ہو رہی۔ اب تو خود بھارت کے اندر بھی کرکٹ ٹیم کو پاکستان میں چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کی اجازت نہ دینے پر شور ہو رہا ہے۔ پہلے تو عالمی براڈکاسٹر یونین اور دیگر ادارے پریشان ہیں کہ ان کو اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ لوگ صرف پاکستان اور بھارت کے میچ دیکھنے کیلئے مہنگی ٹکٹیں لیتے ہیں۔ اسکے بعد بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں نے بھی کہا کہ انہیں پاکستان جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مگر حکومت اجازت نہیں دے رہی‘ اب بھارتی سیاست دان بھی مودی کو کوس رہے ہیں کہ وہ کھیل میں سیاست کو گھسیڑ کر اچھا نہیں کر رہے۔ چاروں طرف سے پڑنے والی پھٹکار سے جان چھڑانے کیلئے اب مودی سرکار کہہ رہی ہے کہ یہ فیصلہ انڈین کرکٹ بورڈ نے کرنا ہے کہ وہ پاکستان جائے گی یا نہیں جبکہ عالمی کرکٹ بورڈ نے دونوں ممالک سے کہا ہے کہ وہ مل کر اس مسئلے کا حل نکالیں۔ پاکستان نے کھل کر واضح کر دیا ہے کہ مقررہ شیڈول کے مطابق یہ میچز پاکستان میں ہی ہونگے۔ بھارت کسی تیسرے ملک میں اپنے میچ کھیلنا چاہتا ہے اور پاکستان نہ آنے کا کہہ چکا ہے۔ پاکستان نے بھی کہہ دیا ہے اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو پاکستان بھی آئندہ بھارت میں کسی کرکٹ مقابلے میں شرکت نہیں کریگا۔ اب آئی سی سی دوغلی پالیسی چھوڑکر بھارت کو خواہ مخواہ انکار پر سخت وارننگ دے اور میچز شیڈول کے مطابق پاکستان میں ہی ہوں۔ کھیل کے میدان کو میدان جنگ بنانے کی مخالفت ضروری ہے۔
٭…٭…٭
پی ٹی آئی پر پابندی یا خیبر پی کے میں گورنر راج ، جلد بازی نہ کی جائے۔
اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ کسی جماعت پر یکدم پابندی لگائی جا سکے۔ ہم تو پہلے ہی کئی مرتبہ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگا کر اس کا نتیجہ بھگت چکے ہیں۔ اس وقت بلاشبہ پی ٹی آئی کی طرف سے ریاست اور عسکری اداروں کیخلاف نہایت مکروہ گمراہ کن مہم چلائی جارہی ہے‘ مگر یاد رہے کہ پابندی لگانے کا فیصلہ حکومت کے کھاتے میں ڈال کر حکمرانوں کو موردالزام ٹھہرایا جائیگا اور تحریک انصاف والے مظلوم بن جائیں گے۔ اس وقت انہیں قانونی طور پر اپنے اعمال کا جواب دینے کیلئے میدان میں رہنے دیا جائے۔ سیاسی میدان میں حکومت اس کا مقابلہ کرے۔ پی پی پی‘ جے یو آئی‘ ایم کیو ایم و دیگر کئی پی ٹی آئی کی مخالف جماعتیں موجود ہیں مگر وہ بھی اس پر پابندی کیخلاف ہیں کیونکہ اس طرح وہ انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہو جائیگی۔ انہیں عدالتوں میں پیش کرنے سے کم از کم جو بھی فیصلہ ہوگا‘ حکمران اسکے ردعمل سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔ جس نے جو کیا اسے اس کا جوابدہ بنانے سے ہی آئندہ حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ جو بے قصور ہیں‘ انہیں چھوڑا جائے اور جو قصور وار ہیں انہیں سخت سزا دی جائے۔ اسی طرح خیبر پی کے میں اس وقت گورنر راج لگانا بھی اگرچہ حالات ایسے بن چکے ہیں مگر پھر بھی مناسب نہیں ہوگا۔ باوجود اسکے کہ کسی صوبے کی جانب سے اپنی انتظامیہ و سرکاری مشینری کے ساتھ وفاق پر چڑھائی کرنے کی سوچ بھی غلط ہے۔ مگر کابینہ کی اکثریت ہو یا صوبہ بلوچستان کی قرارداد یا حکمران اتحاد کی خواہش پر پابندی یا گورنر راج سے حالات مزید بگڑ سکتے ہیں جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے گرم گرم دودھ پینے سے منہ جل جاتا ہے‘ تو احتیاط ضروری ہے ورنہ بعد میں دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ ایسی پابندیوں سے یہ جماعتیں مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر زیادہ ہمدردیاں سمیٹتی ہیں۔ اب ہمارا ملک ایسی سیاسی شہید جماعتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
٭…٭…٭
اسرائیل اور حزب اللہ میں جنگ بندی‘ لبنان میں جشن‘ غزہ کے فلسطینی لہو لہو۔
اس معاہدے کی رو سے،لبنانی فورس اپنی سرحدوں پر واپس آجائیگی‘ اسرائیل لبنان سے نکل جائے گا۔حزب اللہ اسرائیل کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کریگی‘ لبنان پر حملے بند ہونگے‘ یوں اب اسرائیل کا ایک ہی ہدف رہ گیا ہے‘ جسے وہ تختہ مشق بناتا رہے گا۔ جی ہاں‘ غزہ کے فلسطینی ابھی نجانے کب تک خاک و خون میں لت پت ریں گے‘ کب اس عذاب سینجات پائیں گے جو اسرائیل کی طرف سے ان پر مسلط ہے۔ سچ کہیں تو حماس اور حزب اللہ والے شاید معاہدے کرکے اپنے لئے کوئی عافیت کی راہ نکال لیں گے مگر غزہ کے ان لاکھوں فلسطینیوں کا کیا ہوگا‘ جن کے پاس شہدا کو دفنانے کیلئے کفن نہیں‘ زخمیوں کیلئے دوا نہیں‘ کھانے کیلئے خوراک اور پینے کیلئے پانی نہیں‘ وہ روزانہ شہید اور زخمی ہو رہے ہیں‘ بھوک پیاس اور بنا علاج کے مر رہے ہیں۔ کیا ان کیلئے اسلامی امہ‘ عالمی برادری کوئی ایسا معاہدہ یا لائحہ عمل تیار نہیں کر سکتی کہ بچے کھچے لاکھوں بے گھر بے سروسامان موت کی راہ دیکھتے فلسطینیوں کیلئے بھی زندگی اور امن کی راہ کھلے اور وہ اس تکلیف دہ ماحول سے اسرائیلی ظلم و ستم سے محفوظ ہوں۔ حزب اللہ کے ساتھ معاہدے کیلئے ایران اور امریکہ نے تعاون کیا‘ ناجانیکیوں حماس کو شامل نہیں کیا گیا۔اگر کیا جاتا تو بیک وقت غزہ اور لبنان میں ہلاکتیں رک جاتیں۔ مگر نجانے کیوں ایسا نہ کیا جا سکا۔ حزب اللہ کے پیچھے ایران ہے‘ جبکہ حماس کے ساتھ صرف فلسطینی ہیں جن کو چن چن کر ختم کیا جا رہا ہے۔ یہودیوں سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ دیکھ لیں‘ نیتن یاہو نے امن معاہدے کے منہ پر کیسا طمانچہ مارا ہے اور کہہ رے ہیں کہ اگر ذرا سی بھی معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ پھر جنگ شروع ہوگی یعنی یہ صلح اسرائیل کے پائوں کی زنجیر نہیں بنے گی۔
٭…٭…٭