سانحہ اسلام آباد ۔۔ہم شرمندہ ہیں !!!

Dec 01, 2024

فاطمہ رِدا غوری

                                             آواز خلق
                                           فاطمہ ردا غوری
عجب تذبذب ہے،بے چینی ہے ،کشمکش ہے ،چند روز قبل سے کچھ لکھنے کی کوشش جاری تھی لیکن کامیابی نہ ہو سکی آج پھر ہمت کر کے قلم و قرطاس تھام بیٹھے ہیں انتہائی افسوس کے عالم میں آج کا کالم تحریر کیا جا رہا ہے عقل دنگ ہے اور روح زخمی ہے قیامت خیز منظر کسے کہتے ہیں آج معلوم ہوا ۔
سب سے پہلے تو ذہن میں رہ رہ کر ایک خیال آرہا ہے کہ راہنما آخر کسے کہا جاتا ہے راہ سے مراد تو ہم سب جانتے ہیں کہ راستہ ہے جبکہ ’’نما‘‘ زبان فارسی کے ’’نمودن‘‘ سے منسلک ہے جسکے معنی ہیں ظاہر کرنا ، عیاں کرنا ، دکھانا وغیرہ ۔۔ اس اعتبار سے راہنما سے مراد وہ انسان ہوا جو راستہ دکھائے ، راستہ ظاہر کر دے عیاں کردے  جبکہ ہمارے یہاںنام نہاد ’’راہ نما ‘‘ہمیں راستہ بھٹکانے ، راستہ کھوٹا کر دینے، راستہ مسدود کر دینے پر مامور ہیں اور موجودہ حالات میں تو راستے ختم ہی کر دیتے ہیں اور جیتے جاگتے افرد کو لقمہ اجل بنا دینے سے بھی نہیں چوکتے  !
 لمرنے والے نہ فورسز کے بندے تھے ،نہ رینجرز کے ،نہ ہی پی ٹی آئی کے تھے وہ پاکستانی تھے اور سب سے بڑھ کر انسان تھے ۔ ان کی تعداد ۸۰۰ تھی ، ۲۷۸تھی، یا  ۸ ، اس سے فرق نہیں پڑتا 
فرق پڑتا ہے تواس بات سے کہ کسی ایک انسان کو بھی بنا کسی جرم کے مار دیا جانا ایک ایسا عمل ہے جس پر ہمیں من حیث القوم شرمندہ ہونا چاہئے !!!
افسوس ہے ان پر جنہیں بہت اچھی طرح حالات کی سنگینی کا اندازہ تھا ، جن کو ریاست ،ریاستی عہدیداران، آئی جی اسلام آباد تک کی جانب سے بارہا نتائج کے حوالے سے الرٹ کیا گیا لیکن پھر بھی انہوں نے مجبور ، بے قصور ، ضرورت مند لوگوں کو سبز باغ دکھا کر ، آسرا دے کر ، ساتھ کھڑے رہنے اور آخری سانس تک ڈٹے رہنے کے نام پر جذباتی کر کے ، جھوٹے اور بے بنیاد دعوے کر کے ساتھ آنے پر مائل کیا اور خطرے کو بو محسوس ہوتے ہی بے یارو مددگار چھوڑ کر فرار ہو گئے !!!
ذہن میںکچھ ایسے سوالات ابھرتے ہیںکہ انہیں روکنے کی ازحد کوشش کے باوجود انکو مات دینا ناممکن سا ہوجاتا ہے کسی شاعر نے کیا خوب کہا  تھا کہ۔۔۔
سوچاں دی میت چک کے ،ہن میں کیہڑے گھر جاواں گا 
جے میں بولاں تے مار دیون گے ،نہ بولاں تے مر جاواں گا 
 توسوال ہے ان نام نہاد ’’ راہ نمائوں ‘‘ سے کہ جب آپکو خطرے کا احساس بر وقت ہو گیا تھا،جب ریاست ایسی ماں کی صورت اختیار کر چکی تھی جو اپنے ہی ناخلف بچوں کو کھا جانے کے درپے تھی ایسی خوفناک صورتحال میںکہ جب بقول آپکے بشری بی بی راہ فرار نہیں چاہ رہی تھیں لیکن پھر بھی آپ ان کی حفاظت کرتے ہوئے ان کو بچا کر آپ محفوظ مقام پر لے گئے ی( یہ الگ بات کہ وہ محفوظ مقام بعدازاں حبس بے جااور گمشدگی میں بدل گیا) خیر وہ محترم تھیں ، آپ سب کی ماں تھیں ،خان کی امانت تھیں سو ان کو ہر حال میں بچانا آپ نے عین فرائض میں سے سمجھا لیکن جو لوگ آپکے آسرے پر آپکی قیادت میں وہاں تک پہنچے تھے وہ بچارے بھی تو کسی کے باپ، بھائی کسی کی امانت تھے ۔ معذرت کے ساتھ ان کو فقط مہرے کی طرح استعمال کیا گیا وہ جس قیادت کے بھروسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے چند ایک کے علاوہ وہ بڑھکیں لگانے اور دعوے کرنے والی قیادت بھی کہیں دکھائی ہی نہ دی ۔
سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ آپ سب تو بقول آپ ہی کے سروں پر کفن باندھ کر، اپنے پیاروں کو نظر بھر کے دیکھ کر ،الاشیں نہ ملنے کی صورت بھی نماز جنازہ پڑھ لینے کی تلقین کر کے نکلے تھے پھر آخر کیا وجہ ہے کہ شہداء میں فقط عام، بے بس ، ضرورت مند ، باتوں میں آئے ہوئے لوگوں کا نام ہی ہے غلطی سے بھی کسی راہ نما یا قیادت کے کسی اعلی عہدے دار کے شہید ہونے یا کم از کم زخمی ہونے کی بھی کوئی اطلاع نہیں ۔۔ 
ہر طرف واویلا ہے کہ ریاست تو ماں ہوتی ہے لیکن یہ کوئی نہیں سوچ رہا کہ یہ جانوروں کی طرح لڑنے والی بھی ایک ہی ماں کی اولادیں ہیں ضرورت فقظ یہ سمجھنے کی ہے کہ اگر ایک طرف ’’غیور ‘‘ اور ’’نہتی ‘‘ اولادیںماں کو زخموں سے چور چور کردینے بلکہ اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں نیست ونابود کر دینے کے لئے نکل کھڑے ہوں گی تو وہ اولادیں جن کے ذمے ماں کی ذمہ داری ہے جن کے پاس ان دنوں ماں ہے وہ بھی اسکے بچائو کے لئے اسکی حفاظت کے لئے جو بن پڑے گا کریں گے ہی۔ پھرآخر یہ شور کیسا ہے ؟ 
کیا رینجرز نے آپکو آپکے گھروں میں یا آپکی جماعت کے دفاتر میں آکر تشدد کا نشانہ بنایا ہے ؟ جب آپ سب کچھ تباہ کرنے کے لئے اپنی ہی تنصیبات کا ستیاناس کرنے دھمکیاں دیتے ، دھڑلے سے اسلحہ دکھاتے ہوئے اول فول بکتے ہوئے نکلیں گے تو ریاست بھی تو حفاظت اور بچائو کے لئے کچھ کرے گی !
عجیب شرمناک صورتحال ہے جب بھی کسی کو اپنی ہار قریب محسوس ہوتی ہے وہ پورے ملک کے ہار جانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے جب کسی کو خوف گھیرنے لگتا ہے تو وہ پوری ریاست کو خوفزدہ کرنے میں مصروف عمل ہو جاتا ہے ہر کوئی اپنے گرد روشنی خواہ وہ مستعار ہی کیوں نہ لی گئی ہوقائم رکھنے کے لئے نہ جانے کس کس کے چراغ بجھانے پر مصر ہے ایک باکمال شاعر نے یہ اشعار شاید انہی شرم اور احساس سے عاری شخصیات کے لئے کہے تھے کہ 
                      کیا کیا دلوں کا خوف چھپانا پڑا ہمیں 
                       خود ڈر گئے تو سب کو ڈرانا پڑا ہمیں 
                       اپنے دیے کو چاند بنانے کے واسطے 
                       بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا ہمیں 
                      اک دوسرے سے بچ کے نکلنا محال تھا 
                      اک دوسرے کو روند کے جانا پڑا ہمیں
آخر میں خان صاحب سے گزارش ہے کہ خدارا انتشار اور افراتفری سے ہٹ کر آگے بڑھئے اللہ تعالی نے آپکو بے پناہ صلاحیتوں اور عوام کی جانب سے عزت و شہرت سے نوازا ہے اس عزت ، اعتماد اور بھروسے کا مثبت استعمال کیجئے  جتنی شدت اور شوق احتجاج ودھرنے اور بدلے کی سیاست کے میں دکھائی دیتی ہے یہی شدت اگر ملک کی بہتری کے لئے استعمال کی جائے تو یقینا اس ملک کی حالت بدل جائے گی خدا کے لئے اپنے طریقہ کار کو تھوڑا تبدیل کیجئے محبت اور دوستی کا نقاب اوڑھے ہوئے قعر مذلت کی جانب دھکیلنے والے مخالفین اور جڑیں کھوکھلی کرنے والے ہر قسم کے موکلین سے خود کو جتنا جلد ہو سکتا ہے علیحدہ کر لیں اور ایک مثبت سفر کا آغاز کریں جو پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہو ۔۔
ابھی بھی وقت ہے !!!  

مزیدخبریں