اس وقت ملک میں سیاست دانوں کی آپس کی لڑائیاں عروج پہ ہیں اور پورا ملک ایک افرا تفری کا شکار ہو چکا ہے لوگ گھروں بے گھر ہو چکے ہیں اور ملک کے نظام کو بچوں کے کھیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور سیاست اور الیکشن مذاق بن گئے ہیں ہمارے سیاست دان فیل ہوگئے ہیں باریاں بدل بدل کر آتے ہیں اور کبھی کبھی اکٹھے ہو کر ایک کے خلاف ہو جاتے ہیں لیکن افسوس کہ ان لوگوں کے ایسا کرنے سے عوام کو تو کوئی فائدہ نہیں ہے عوام تو بیچارے آج بھی محرومیوں کا شکار ہیں یہی سلسلہ قیام پاکستان سے چلتا رہا ہے اور اب مزید پتہ نہیں یہ سلسلہ کب تک اسی طرح ہی چلتا رہے گا یہ ایک قومی سانحہ اور المیہ ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی بے روزگاری ، چور بازاری اور لوٹ مار کا بازار ہر طرف قائم ہے کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات بنی ہوئی ہے رشوت خوری عام ہے۔ بے لگام پولیس والوں نے بھی لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے جو من میں آتا ہے کرتے ہیں اور آئے دن کرائم بڑھتا جا رہاہے جس کی طرف احکام بالا پولیس اور حکمرانوں کا اس طرف کوئی دھیان نہ ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس طرف جن لوگوں نے دھیان دینا ہے وہ آپس کی لڑائیوں میں لڑ مر رہے ہیں اقتدار کی خاطر نہ جانے اس ملک کے اندر اب کیا کیا کچھ ہو رہا ہے خدارا ہمارے حال پر رحم کریں اور اس ملک کو بچائیں اور اس ملک کی غریب عوام کا کچھ سوچیں اس مہنگائی نے غریب کا جینا مشکل کر کے رکھ دیا ہے حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ صبح کی کھاتے ہیں تو شام کا پتہ نہیں کہ کہاں سے کھائیں گے اور کیسے کھائیں گے کیونکہ کمائی کے ذریعے کم پڑ گئے ہیں کمائی تو اس وقت صرف سیاستدان پولیس والے اور دیگر رشوت خور کر رہے ہیں۔ ملکی حالات اس قدر خرابی کی طرف جا رہے ہیں کہ اب تو لوگ دعائیں کر رہے ہیں کہ یا اللہ ہم پر رحم فرما ہم کے اوپر مسلط ایسے حکمرانوں سے ہماری جان چھڑا دے
ملک کے اندر آئے دن کے جلسے جلوس دھرنے سے لوگوں کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے رہی سہی کسر سموگ سے بچنے کے لیے دکانیں شام ہوتے ہی بند کروا دی جاتی ہیں یاد رہے کہ جو دکاندار پولیس والوں سے ملی بھگت کر لیتے ہیں ان کی دکانیں بدستور کھلی رہتی ہیں پھر سموگ کا کسی قسم کا انہیں کوئی خوف نہیں ہوتا اب بتائیں جس ملک کی پولیس کا یہ حال ہوگا کیا وہاں پر کبھی نظام درست ہو سکتا ہے نہیں یہ نظام ایسے نہیں سیدھا ہوگا اس کے لیے مخلص لوگوں کی ضرورت ہے یا پھر ہمارے ملک کے سیاستدان اور حکمران اپنا قبلہ درست کر لیں تو سارے کا سارا نظام ایک دن میں درست ہو جائے گا مگر افسوس کہ ہم ایسا کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں یہاں پر میں عوام کو بھی کچھ قصوروار ٹھہراؤں گا کیونکہ جب الیکشن آتے ہیں تو پھر اس وقت یہ لوگ جب چہرے بدل کر ان کے سامنے دوبارہ آتے ہیں لوگ پھر ان کے ساتھ مل جاتے ہیں افسوس کہ اگر اس وقت فیصلہ کیا ہوتا کہ کس کو انتخاب کرنا ہے تو شاید آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے حالات بڑی تیزی سے خراب ہوتے جا رہے ہیں اس کے لیے ہمیں کچھ خود ہی کرنا ہوگا کیونکہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کو تو آپس کی لڑائیوں سے ہی فرصت نہیں ہے یہ لوگ اس ملک کا اور اس بیچاری غریب عوام کا کیا سوچیں گے۔