سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ہمارے ہی پیدا کر دہ ہیں۔اور پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔حکومتی ہٹ دھرمی بھی اتنی ہی عیاں ہے جتنی کی اپوزیشن کی، دونوں کے ہاتھ ہی تمام گند میں صاف نہیں ہیں۔سیاست نام ہے مذاکرات کا بات چیت کا مخالف کی بات سننے کا ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا اور ڈیڈ لاک کی صورت میں کوئی درمیانی راہ نکالنے کا لیکن ہمارے ہاں تو جمہوریت شاید کسی اور ہی شے کا نام ہے۔شاید موجودہ حالات میں حکومت سے زیادہ ذمہ دار اپوزیشن ہے لیکن بہر حال اپوزیشن کو اس انداز میں دھتکارنا جس انداز میں ہمارے ہاں کیا جا رہا ہے وہ بھی کسی صورت مناسب رویہ نہیں ہے بلکہ نہایت ہی غیر جمہوری رویہ ہے۔اس رویے میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔پاکستان میں کم و بیش ہر دور میں اپوزیشن کے خلا ف کیسز بنے اور اب تو یہ سلسلہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ پورے ملک میں اپوزیشن کے خلاف ہزاروں ایف آئی آرز درج ہیں اور اب تو یہ سلسلہ مذاق ہی بن کر رہ گیا ہے۔اس قسم سے حربوں سے اپوزیشن نہ تو کمزور ہو سکتی ہے اور نہ ہی اسے ختم کیا جاسکتا ہے صرف وقتی طور پر ہی دبایا جاسکتا ہے۔جہاں تک بانی پی ٹی آئی کا تعلق ہے تو ان کی بھی کم و بیش ہر کیس میں عدالت سے ضمانت ہو چکی ہے۔اس لیے ان کو بھی ریلیف ملنا چاہیے۔اس لیے موصوف کو چھوڑا جائے اور آزاد کیا جائے تاکہ وہ آزادی سے سانس لے سکیں اور اپوزیشن کا کردار ادا کر سکیں۔کتنا اچھا ہو تا اگر بیرون ملک مقیم پاکستانی عمران خان کے اکسفورڈ یو نیورسٹی کے چانسلر کے الیکشن کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی کی نامزدگی کو سبوتاڑ نہ کرتے تو بانی پی ٹی آئی عمران خان آج اکسفورڈ کے چانسلر ہو تے اور اس وجہ سے پاکستانی بھی بڑی تعداد میں اکسفورڈ تک پہنچ سکتے۔اگر بڑی تعداد میں نہیں تو کچھ تو آکسفورڈ تک پہنچتے۔اگر دس بیس پاکستانی بھی اکسفورڈ تک پہنچتے تو کسی بھی عوامی نمائندے سے تو زیادہ ہی موثر ہوتے۔ملک کے لیے اپنے لیے اہم مقام حاصل کرتے ،اور پاکستان کا بھی ایک نام ہو تا لیکن بد قسمتی سے ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم سیاسی عداوت میں کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے ہی ملک کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ہمیں ان رویوں میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا ہے جب تک ہمارے خمیر میں جمہوریت نہیں ہو گی تب تک جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتی ہے۔ہمیں سوچ جمہوری کرنے کی ضرورت ہے۔بہر حال جو سلوک اپوزیشن کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی ماضی میں کو ئی مثال نہیں ملتی ہے ،پاکستان کی پوری تاریخ میں ہی اپوزیشن کا کو ئی خاص مقام نہیں رہا ہے۔اگر جمہوری ممالک پر نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ اپوزیشن کا ہر جمہوری ملک میں ایک مقام ہے جو کہ بے حد ضروری ہو تا ہے اور کئی ممالک کی قومی سلامتی کی قونسلز میں بھی اپوزیشن لیڈراس کا حصہ ہو تا ہے۔لیکن ہمارے ہاں الٹا ہی پہیہ گھومتا ہے۔آگے بڑھنے کے لیے ان تمام چیزوں کو دیکھنے اور ان پر اسر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔کسی بھی مہذب ملک میں اپوزیشن لیڈر کا ایک مقام ہو تا ہے ہمارے ہاں بھی کیا نواب زادہ نصر اللہ خان کی اپوزیشن کا رول ہم فراموش کر چکے ہیں ؟ ان کی جماعت کی ایک نشست تھی لیکن ان کا کردار بھرپور تھا ،ان کی زیر قیادت اپوزیشن نے جو کردار ادا کیا وہ عرصہ دراز تک یا د رکھا جائے گا۔اس کے مقابلے میں جب آج کے حالات دیکھتے ہیں تو دکھ ہی ہو تا ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ آج کی اپوزیشن کو تو فارم 47نے زد و کوب کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہو ئی ہے وہ تو پوری قوم دیکھ رہی ہے۔میری استدا یہی ہے کہ ان معاملات کو جلد از جلد حل کیا جائے یہ معاملات زیادہ عرصے تک اسی طرح نہیں چل سکتے ہیں ملک ایک حالت جنگ اور خانہ جنگی کی کیفیت میں ہمیشہ نہیں رہ سکتا ہے ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طاقت کے زور پر اس مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن اگر بات چیت کا راستہ اپنایا جائے تو ہی ملک کے لیے بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔یہ جو کچھ بھی ہو ا ہے کسی کی فتح مندی نہیں ہے۔جس طریقے سے اپوزیشن نے اسلام آباد پر یلغار کی ہے اور جس طرح سے حکومت نے اس یلغار کا جواب انہی سکوں (coins) میں دیا ہے ،اس لیے عوام کی نظر میں حکومت اور پوزیشن دونوں ہی ان حالات کی ذمہ دار ہیں۔یہ حالات یقینا نہایت ہی نا موزوں ہیں اور پاکستان کے لیے مفید نہیں ہیں۔پاکستان کے لیے اور پاکستانیوں کے لیے شائستگی کا ماحول بھی چاہیے ہمیں ایک سیاسی روا داری کی ضرورت ہے اس کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں۔ایسے حالات میں ہم بری طرح بٹے ہو ئے ہیں اور ہمیں ایک قوم بننا بہت ہی مشکل نظر آرہا ہے۔پاکستان بنانے والوں کا خیال یہی تھا کہ یہ ملک ایک قوم بنے گا اور متحد ہو کر دنیا میں مقام حاصل کرے گا لیکن ایسا ہو نہیں سکا ہے۔بنگال کے علیحدہ ہو نے کے بعد تو یہ خیال بہت ہی شدت سے محسوس ہونے لگا ہے کہ صرف جمہوریت ہی ہے جو کہ اس ملک کو متحد رکھ سکتی ہے اور ہمیں بہتر گورننس بھی دے سکتی ہے لیکن جو حکمرانی ہمیں ملی ہے وہ اس میں یکسر ناکام رہی ہے ،ہمیں مارشل لا ء یا پھر مارشل لا ء جیسی پابندیوں کی حامل حکومتیں ہی میسر ہو ئی ہیں جو کہ بنیادی مسائل کے حل میں یکسر ناکام رہی ہیں۔اگر ہمیں ایک قوم بننا ہے تو پھر ہر اکائی کو ایک با اختیار اور آزاد صوبائی اسمبلی کی ضرورت ہے جو کہ منظم طریقے سے عوامی خو اہشات کے مطابق آگے بڑھے اور منظم انداز میں سیاست کو آگے بڑھائے۔موجودہ مار دھاڑ کی سیاست قابل قبول نہیں ہے اور نہ ہی حکومت شاباش کے لائق ہے ،درمیانہ راستہ نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔