چند روز قبل لاہور پریس کلب میں کنسرنڈ سٹیزنز آف پاکستان (سی سی پی) نے ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں سوات سے چیدہ چیدہ لکھاریوں کو مدعو کیا گیا کہ وہ وادی کی تشویشناک صورتحال سے حاضرین کو آگاہ کریں۔ مقررین نے زور دیکر کہا کہ گو سوات کو ایک پناہ گزینوں کے کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا ہے لیکن وہ یہاں خیمے‘ کمبل یا دال مانگنے نہیں آئے بلکہ اپنے خطے میں امن اور آشتی لانے کیلئے مدد مانگنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس ملک سے علیحدہ نہیں ہو سکتے لیکن اگر اُن کو نہ بچایا گیا تو وہ ایک کینسر بن جائیں گے جس سے سارے ملک کو خطرہ ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ حالات میں زیادہ بگاڑ اس وقت پیدا ہوا جب ملٹری اپریشن شروع کیا گیا۔
اپریشن سے پہلے سوات کا تقریباً 15 فیصد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں تھا جبکہ آپریشن کے بعد 80 فیصد علاقہ طالبان کے زیراثر ہے۔ ہر ایسا کرفیو جو ایک دو ہفتے جاری رہتا ہے‘ اسکے بعد نہ صرف قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں بلکہ قابل غور امر یہ ہے کہ کرفیو کے دوران گو کہ پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا لیکن اسکے باوجود سکول جلائے جاتے ہیں اور لوگوں کو قتل کر کے سر تن سے جدا کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا فرنٹیر کنسٹیبلری اور فوج عوام کو تحفظ فراہم کر رہی ہیں یا کہ طالبان کو۔
ماضی سے بھی شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان ملی بھگت کی بہت مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مثلاً سوات کے مقررین کیمطابق تنظیم نفاذ شریعت محمدی کی بنیاد کمشنر مالاکنڈ ڈویژن کے دفتر میں رکھی گئی تھی۔ اسی طرح سال 2006ء میں ایم ایم اے کی حکومت کے وقت ایک قومی تعطیل کے دوران پولیس کو چھٹی پر بھیج دیا گیا اور جب پولیس کا عملہ چھٹی سے واپس آیا تو مولوی فضل اللہ کی ’شاہین فورس‘ نے علاقہ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
اسکے برخلاف 1997ء میں جب نفاذ شریعت کے سلسلے میں ایک بغاوت نے جنم لیا تو فرنٹیئر کانسٹیبلری نے 72 گھنٹوں کے دوران اسے کنٹرول کر لیا تھا۔ ادھر اس وقت سوات میں دو ڈویژن فوج موجود ہے لیکن بغاوت پھیلتی ہی جا رہی ہے۔
جب شدت پسند کسی فرد کے سر کو تن سے جدا کر کے لاش کو کھمبے سے لٹکا دیتے ہیں تو ساتھ ایک نوٹس چسپاں کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے دو دن سے پہلے لاش کو اتارنے کی جرات کی تو اسکو بھی قتل کر کے لٹکا دیا جائیگا۔
15 جنوری سے لڑکیوں کے سکول قانون نافذ کرنیوالوں کی ناک کے نیچے بند پڑے ہیں اور ان کا منہ چڑا رہے ہیں۔ عوام طالبان کے احکامات پر خوف کی وجہ سے عمل کرتے ہیں۔ جب طالبان نے 15 جنوری سے لڑکیوں کے سکول بند کرنے کا نادر شاہی حکم صادر کیا تو والدین نے ویگن والوں کو کہہ دیا کہ آپ ہماری بیٹیوں کو لے جانے کیلئے نہ آئیں۔
جب احکامات صادر ہوئے کہ ڈاکٹر صاحبان 200 روپے کی بجائے 100 روپے فیس وصول کریں گے تو انہوں نے حکم کی تعمیل میں پل بھر کی دیر نہیں کی۔ جب صدر مقام منگورہ کے ڈاکٹر بھی طالبان کا حکم مان رہے ہیں تو حکومت کا یہ دعویٰ کیونکر سچا سمجھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے سوات کے کئی حصوں پر کنٹرول سنبھال لیا ہے؟
اس سے راقم الحروف کو ماضی کی ایک مثال یاد آئی۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب امریکن یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ انہوں نے ملک کے زیادہ تر حصہ پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ ایک پاکستانی اخبار نویس نے دیکھا کہ صدر مقام سائیگان کے ارد گرد جن ناکوں پر نواحی دیہات سے آنیوالی ڈیری اور فارم کی پیداوار پر محصول وصول کیا جا رہا تھا‘ ان کو حکومت مخالف ویٹ گوریلے چلا رہے تھے۔
ظاہر ہے اخبار نویس کو دیہات میں جا کر چیک کرنے کی ضرورت ہی نہ رہی بلکہ اسے یہ بھی پتہ چلا کہ جب کوئی سرکاری ملازم اپنے گائوں جانا چاہتا ہے تو اسے اس شرط پر جانے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے سرکاری محکمے کا کوئی اہم راز گوریلوں کو بتائے گا۔ ظاہر ہے اس سے امریکنوں کے جھوٹ کا پول کھل گیا۔ پھر عنقریب وہ دن آیا کہ سائیگان سے بھاگنے والے آخری فوجی انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل کی چھت سے ہیلی کاپٹروں کے پہیوں سے لٹک کر بندرگاہ میں لنگرانداز جہازوں پر منتقل ہوئے۔ سواتی مقررین نے حاضرین پر زور دیا کہ وہ نہ تو حکومت کے سوات میڈیا سنٹر پر یقین کریں اور نہ ہی مسلم خان کے ایف ایم ریڈیو پر‘ کیونکہ یہ دونوں خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔
مقررین نے کہا کہ شائد آپ لوگ خیال کریں کہ عوام کی اکثریت طالبان کے حق میں ہیں۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ۔
ایک سوال پوچھا گیا کہ کیا یہاں بھی ایک مشرقی پاکستان بننے جا رہا ہے؟ سواتیوں نے سی سی پی کے ممبران سے مخاطب ہو کر کہا ’’نہیں اس مرتبہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ 1971ء میں آپ جیسے لوگ نہیں تھے‘‘۔ ان کی اس بات میں نہ صرف امید کی کرن تھی بلکہ حاضرین کیلئے انتہائی خراج تحسین بھی شامل تھا۔ دراصل 1971ء میں نہ صرف مکمل پریس سنسرشپ تھی بلکہ کسی قسم کے احتجاج پر بھی پابندی تھی۔
قارئین کرام! تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف نے نہ صرف سوات کا دورہ کیا ہے بلکہ وہاں کے حالات کو معمول پر لانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اس اعلان سے اہالیان سوات کی قدرے اشک شوئی اور ان کی ڈھارس بندھانے میں بہت مدد ملے گی۔
ممکن ہے اس دورہ کے متحرکیں میں وہ انتہائی سخت تنقید شامل ہو جس کا سامنا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کرنا پڑا جب عوام کی بھاری اکثریت نے ان کے ڈیووز سوئٹزرلینڈ جانے کو سخت ترین ناپسندیدگی سے دیکھا اور کہا کہ ان کو اس کی بجائے سوات جانا چاہئے تھا۔ ہو سکتا ہے انہوں نے آرمی چیف کو ہدایت کی ہو کہ وہ سوات میں بنفس نفیس حالات کا جائزہ لیں۔ بہرحال یہ بہتری کی طرف ایک پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
اپریشن سے پہلے سوات کا تقریباً 15 فیصد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں تھا جبکہ آپریشن کے بعد 80 فیصد علاقہ طالبان کے زیراثر ہے۔ ہر ایسا کرفیو جو ایک دو ہفتے جاری رہتا ہے‘ اسکے بعد نہ صرف قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں بلکہ قابل غور امر یہ ہے کہ کرفیو کے دوران گو کہ پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا لیکن اسکے باوجود سکول جلائے جاتے ہیں اور لوگوں کو قتل کر کے سر تن سے جدا کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا فرنٹیر کنسٹیبلری اور فوج عوام کو تحفظ فراہم کر رہی ہیں یا کہ طالبان کو۔
ماضی سے بھی شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان ملی بھگت کی بہت مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مثلاً سوات کے مقررین کیمطابق تنظیم نفاذ شریعت محمدی کی بنیاد کمشنر مالاکنڈ ڈویژن کے دفتر میں رکھی گئی تھی۔ اسی طرح سال 2006ء میں ایم ایم اے کی حکومت کے وقت ایک قومی تعطیل کے دوران پولیس کو چھٹی پر بھیج دیا گیا اور جب پولیس کا عملہ چھٹی سے واپس آیا تو مولوی فضل اللہ کی ’شاہین فورس‘ نے علاقہ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
اسکے برخلاف 1997ء میں جب نفاذ شریعت کے سلسلے میں ایک بغاوت نے جنم لیا تو فرنٹیئر کانسٹیبلری نے 72 گھنٹوں کے دوران اسے کنٹرول کر لیا تھا۔ ادھر اس وقت سوات میں دو ڈویژن فوج موجود ہے لیکن بغاوت پھیلتی ہی جا رہی ہے۔
جب شدت پسند کسی فرد کے سر کو تن سے جدا کر کے لاش کو کھمبے سے لٹکا دیتے ہیں تو ساتھ ایک نوٹس چسپاں کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے دو دن سے پہلے لاش کو اتارنے کی جرات کی تو اسکو بھی قتل کر کے لٹکا دیا جائیگا۔
15 جنوری سے لڑکیوں کے سکول قانون نافذ کرنیوالوں کی ناک کے نیچے بند پڑے ہیں اور ان کا منہ چڑا رہے ہیں۔ عوام طالبان کے احکامات پر خوف کی وجہ سے عمل کرتے ہیں۔ جب طالبان نے 15 جنوری سے لڑکیوں کے سکول بند کرنے کا نادر شاہی حکم صادر کیا تو والدین نے ویگن والوں کو کہہ دیا کہ آپ ہماری بیٹیوں کو لے جانے کیلئے نہ آئیں۔
جب احکامات صادر ہوئے کہ ڈاکٹر صاحبان 200 روپے کی بجائے 100 روپے فیس وصول کریں گے تو انہوں نے حکم کی تعمیل میں پل بھر کی دیر نہیں کی۔ جب صدر مقام منگورہ کے ڈاکٹر بھی طالبان کا حکم مان رہے ہیں تو حکومت کا یہ دعویٰ کیونکر سچا سمجھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے سوات کے کئی حصوں پر کنٹرول سنبھال لیا ہے؟
اس سے راقم الحروف کو ماضی کی ایک مثال یاد آئی۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب امریکن یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ انہوں نے ملک کے زیادہ تر حصہ پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ ایک پاکستانی اخبار نویس نے دیکھا کہ صدر مقام سائیگان کے ارد گرد جن ناکوں پر نواحی دیہات سے آنیوالی ڈیری اور فارم کی پیداوار پر محصول وصول کیا جا رہا تھا‘ ان کو حکومت مخالف ویٹ گوریلے چلا رہے تھے۔
ظاہر ہے اخبار نویس کو دیہات میں جا کر چیک کرنے کی ضرورت ہی نہ رہی بلکہ اسے یہ بھی پتہ چلا کہ جب کوئی سرکاری ملازم اپنے گائوں جانا چاہتا ہے تو اسے اس شرط پر جانے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے سرکاری محکمے کا کوئی اہم راز گوریلوں کو بتائے گا۔ ظاہر ہے اس سے امریکنوں کے جھوٹ کا پول کھل گیا۔ پھر عنقریب وہ دن آیا کہ سائیگان سے بھاگنے والے آخری فوجی انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل کی چھت سے ہیلی کاپٹروں کے پہیوں سے لٹک کر بندرگاہ میں لنگرانداز جہازوں پر منتقل ہوئے۔ سواتی مقررین نے حاضرین پر زور دیا کہ وہ نہ تو حکومت کے سوات میڈیا سنٹر پر یقین کریں اور نہ ہی مسلم خان کے ایف ایم ریڈیو پر‘ کیونکہ یہ دونوں خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔
مقررین نے کہا کہ شائد آپ لوگ خیال کریں کہ عوام کی اکثریت طالبان کے حق میں ہیں۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ۔
ایک سوال پوچھا گیا کہ کیا یہاں بھی ایک مشرقی پاکستان بننے جا رہا ہے؟ سواتیوں نے سی سی پی کے ممبران سے مخاطب ہو کر کہا ’’نہیں اس مرتبہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ 1971ء میں آپ جیسے لوگ نہیں تھے‘‘۔ ان کی اس بات میں نہ صرف امید کی کرن تھی بلکہ حاضرین کیلئے انتہائی خراج تحسین بھی شامل تھا۔ دراصل 1971ء میں نہ صرف مکمل پریس سنسرشپ تھی بلکہ کسی قسم کے احتجاج پر بھی پابندی تھی۔
قارئین کرام! تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف نے نہ صرف سوات کا دورہ کیا ہے بلکہ وہاں کے حالات کو معمول پر لانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اس اعلان سے اہالیان سوات کی قدرے اشک شوئی اور ان کی ڈھارس بندھانے میں بہت مدد ملے گی۔
ممکن ہے اس دورہ کے متحرکیں میں وہ انتہائی سخت تنقید شامل ہو جس کا سامنا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کرنا پڑا جب عوام کی بھاری اکثریت نے ان کے ڈیووز سوئٹزرلینڈ جانے کو سخت ترین ناپسندیدگی سے دیکھا اور کہا کہ ان کو اس کی بجائے سوات جانا چاہئے تھا۔ ہو سکتا ہے انہوں نے آرمی چیف کو ہدایت کی ہو کہ وہ سوات میں بنفس نفیس حالات کا جائزہ لیں۔ بہرحال یہ بہتری کی طرف ایک پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔