یہ اٹل حقیقت ہے کہ کسی مسلمان کیلئے حرمتِ رسول سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہو سکتی اور جان کی قربانی دیکر حرمتِ رسول کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کے ایمان اور عقیدے میں شامل ہے۔ اسلام وہ واحد آفاقی مذہب ہے جسے اختیار کرنیوالا ہر فرد حضرت نبی ٔ آخرالزماں کے وسیلے سے تمام انبیاء کرام اور تمام الہامی کتب کو برحق تسلیم کرتا ہے اور ان کا احترام حرمتِ رسول کے تحفظ ہی کی طرح خود پر واجب سمجھتا ہے‘ اس لئے کیا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ رحمت اللعالمین قرار پانے والی جس ہستی کے طفیل دوسرے انبیاء اور دوسری الہامی کتب پر بھی ایمان لانا اور ان کا احترام کرنا مسلمانوں پر واجب ٹھہرا ہو‘ اس بابرکات ہستی کی توہین برداشت کرلی جائے۔ اللہ جل شان‘ نے قرآن مجید کی سورۃ مجادلہ میں ایمان کی ایک علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ مومن ایسے لوگوں سے قلبی روابط اور تعلقات رکھنے کو جائز نہیں سمجھتے‘ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ہوں اور انکی مخالفت کرتے ہوں۔ رسول اور نبی تو اس کائنات ارضی پر اللہ کے نائب ہوتے ہیں اور وہی اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواحی کا نفوذ کرتے ہیں اس لئے رسولوں کی تعظیم و تکریم درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی تعظیم و تکریم ہوتی ہے‘ اس لئے صرف مسلمانوں پر ہی نہیں‘ ہر غیرمسلم اہل کتاب پر بھی حضرت نبی آخرالزمان سمیت تمام انبیاء اور رسولوں کی حرمت کا تحفظ لازم ہے جبکہ مسلمان تو اپنے ایمان کا حصہ سمجھ کر تمام انبیاء اور الہامی کتب کی حرمت اور تقدس کی پاسداری کرتے ہیں چنانچہ آج تک کوئی ہوش مند مسلمان لاشعوری طور پر بھی کسی نبی یا رسول کی گستاخی کا مرتکب ہواہے‘ نہ اس کا تصور کر سکتا ہے مگر یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ غیرمذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد تو کجا‘ مسلمانوں کے بعض نام نہاد روشن خیال حلقے بھی خدا کی محبوب ترین ہستی حضرت نبیٔ آخرالزمانؐ کی شان میں گستاخی کو بطور فیشن اپنا شعار بنانے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے اور اس قبیح حرکت کو اظہار رائے کی آزادی کا نام دیکر توہین رسالت کی سزا کے دائرے سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ توہین رسالت کی سزا موت کا تعین تو خود خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ مائدہ میں واضح طور پر فرما دیا ہے کہ ’’جو لوگ اللہ اور اسکے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین پر اس لئے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں‘ انکی سزا ہے کہ قتل کئے جائیں یا سولی پر چڑھائے جائیں یا انکے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں یا جلاوطن کر دیئے جائیں‘‘۔ اس واضح فرمانِ خدا وندی کی موجودگی میں جو مجہول طبقات یہ بودی دلیل دیتے ہیں کہ ناموس رسالت کا قانون ایک جرنیل نے اپنے مقاصد کے تحت نافذ کیا ہے‘ وہ احکام خدا وندی اور شانِ رسالت مآبؐ سے نابلد ہیں۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-C وفاقی شرعی عدالت میں کم و بیش دو ماہ تک زیر سماعت رہنے والے کیس میں ہر مکتبہ فکر کے جید علماء کرام‘ فقہاء اور دینی سکالرز کے طویل دلائل کی بنیاد پر اور سورۃ مائدہ میں متعین کی گئی توہین رسالت کی سزا کی روشنی میں ہی ناموس رسالت ایکٹ کا حصہ بنی تھی‘ جس میں کسی ترمیم یا ردوبدل کا تصور کرنا بھی شانِ رسالت مآبؐ میں گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم کیلئے سابق وزیر اطلاعات شیری رحمان کے قومی اسمبلی میں داخل کرائے گئے بل کے معاملہ میں وفاقی حکومت ابھی تک منافقانہ پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے‘ بظاہر وزیراعظم تک کی جانب سے یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ ناموس رسالت ایکٹ میں ترمیم نہیں کی جائیگی‘ مگر اس بل کو داخل دفتر کرنے کے بہانے برقرار بھی رکھا جا رہا ہے اور مصدقہ اطلاعات کے مطابق بیرونی آقائوں کو جو قرآن مجید اور حرمت رسول کی گستاخی کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں‘ یہ یقین بھی دلایا جا رہا ہے ہے کہ کسی مناسب وقت پر انکی مرضی کے مطابق ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم کر دی جائیگی۔ اقتداری مفادات کے اسیران کم فہموں کو اپنے بیرونی آقائوں سے یہ پوچھنے کی بھی کبھی جرأت کرلینی چاہیے کہ آیا وہ توہین مسیحیت ایکٹ میں کسی ہلکی سی ترمیم کے بھی روادار ہو سکتے ہیں جبکہ یہ ایکٹ حضرت عیسیٰ ؑہی نہیں‘ گرجا گھروں کو اپنی سفلی خواہشات کی تکمیل کیلئے استعمال کرنیوالے شیطان پادریوں کی توہین کو بھی مستوجب سزا ٹھہراتا ہے۔ اس تناظر میں تحریک ناموس رسالت کسی ایک فرقے یا محض دینی و مذہبی جماعتوں کی نہیں‘ بلاامتیاز تمام اسلامیانِ پاکستان کی تحریک ہے اور ناموس رسالت ریلی میں صرف مولانا فضل الرحمان‘ پروفیسر منور حسن‘ حافظ محمد سعید‘ پروفیسر ساجد میر‘ مولانا سمیع الحق‘ علامہ ساجد نقوی اور دیگر علماء کرام نے ہی نہیں‘ چودھری پرویز الٰہی‘ خواجہ سعد رفیق جیسی سیاسی شخصیات نے بھی بے لوث شرکت کرکے ناموس رسالت پر مر مٹنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ چودھری شجاعت حسین تو یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ گستاخ رسول کے حامی بھی ناموس رسالت ایکٹ کے تحت مستوجب سزا ہیں اس لئے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ناموس رسالت ایکٹ میں ترمیم کیلئے شیری رحمان کا پیش کردہ بل فی الفور واپس کرکے پارلیمنٹ اور قوم کو یقین دلانا چاہیے کہ آئندہ ایسا کوئی بل اسمبلی میں پیش بھی نہیں ہونے دیا جائیگا۔ اگر وفاقی حکمران ناموس رسالت ایکٹ کے حوالے سے منافقانہ روش پر قائم رہے اور اس کیخلاف گستاخانہ ریمارکس کے اظہار کیلئے مادر پدر آزاد این جی اوز اور نام نہاد روشن خیالوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے تو شمعٔ رسالت کے پروانے خیبر تا کراچی ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی شکل اختیار کرلیں گے اور ملحدین و منافقین سمیت حکمرانوں کا بوریا بستر لپیٹ دینگے۔ بہتر یہی ہے کہ پشاور کی 20 فروری کی تحفظ ناموس رسالت ریلی کی نوبت نہ آنے دی جائے ورنہ حکمرانوں کو نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔
خطے کو ایٹمی جنگ سے بچانے کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے
پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ سطحی پالیسی سازوں کے ایک گروپ نے دونوں ملکوں کی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر بھوٹان میں ہونیوالے مذاکرات کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کو شامل کیا جائے۔ پاکستان کی طرف سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی پر زور دینے والوں میں شیری رحمان‘ جنرل (ر) جہانگیر کرامت‘ بریگیڈیئر (ر) ہمایوں خان‘ ایئرمارشل (ر) شہزاد‘ نسیم زہرہ‘ ڈاکٹر رفعت حسین‘ معید یوسف اور بریگیڈیئر (ر) فیروز خان شامل ہیں۔ ان میں کچھ غیرمعروف اور کچھ پاکستانی سیاست اور مسئلہ کشمیر کو سمجھنے والے جہاندیدہ لوگ شامل ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے موقف بھارت کی ہٹ دھرمی سے بخوبی واقف ہیں۔ کھٹمنڈو اجلاس میں اگر مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کو شامل بھی کرلیا جاتا ہے تو اس سے فرق کیا پڑیگا؟ بھارت نے ہمیشہ مذاکرات کو مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے کیلئے ایک بہانے اور ڈرامے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس نے اٹوٹ انگ کا راگ ہمیشہ الاپا ہے‘ جب وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے تو اندازہ کیجئے وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کتنا سنجیدہ ہو گا؟ حالانکہ کشمیر صرف اور صرف پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے‘ بھارت نے پاکستان کی شہ رگ پر قبضہ جما رکھا ہے‘ پاکستان کی طرف آنیوالے دریائوں پر 60 سے زائد ڈیم تعمیر کئے جا رہے ہیں‘ جن میں اکثر تکمیل کے مراحل طے کر چکے ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ جب بھارت چاہتا ہے‘ پاکستان کے حصے کا پانی روک کر خشک سالی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جب پانی وافر ہو تو پاکستان کی طرف چھوڑ کر اسے ڈبو دیتا ہے۔ یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بھارت کشمیریوں کو آزادی پلیٹ میں رکھ کر دیدے‘ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کا حل اپنی قراردادوں میں کشمیریوں کے استصواب کی صورت میں تجویز کر دیا۔ بھارت کو اس حل پر آمادہ کرنے کیلئے موجودہ حالات میں بھرپور کوشش کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ پر زور دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرائے۔ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ عالمی میڈیا اور خود ہمارے اکابرین سیاست بار بار کہتے ہیں کہ اگلی عالمی جنگ پانی کے مسائل پر ہو گی اور یہ ایٹمی جنگ ہو گی۔ جنوبی ایشیاء کو ایسی تباہ کن جنگ سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔
ریمنڈ ڈیوس پر حکومت پنجاب اور ترجمان ایوان صدر کا قابل تحسین مؤقف
امریکی قونصل جنرل کارمیلا کونرائے نے گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات میں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر زور دیا جبکہ شہبازشریف نے ریمنڈ کو چھوڑنے کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔
لاہور کے مصروف ترین اور بارونق علاقہ میں امریکی کے ہاتھوں تین پاکستانیوں کے قتل پر بہت سارے سوالوں نے جنم لیا ہے‘ اس انداز کی کارروائیاں بلیک واٹر پہلے عراق میں کر چکی ہے‘ ملزم کے نشانے اور پراسرار میٹنگوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص مشن کے تحت ریمنڈ کو پاکستان لایا گیا ہے۔ پاکستان کے وزراء سے لے کر عام شہری تک اگر کوئی امریکہ پہنچتا ہے تو جوتے اتروا کر اسکی تلاشی لی جاتی ہے لیکن ہماری حکومت کو کسی امریکی سے پوچھنے کی جرأت تک نہیں کہ وہ کون ہے؟کس مقصد کیلئے اور کس ویزے پر پاکستان آرہا ہے۔
ویانا یا جنیوا کنونشن کے تحت سفیروں کو کسی آدمی کے قتل پر استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔ 1997ء میں جارجیا کے نائب سفیر کو واشنگٹن ڈی سی میں ایک امریکی شہری کو ٹریفک حادثے میں ہلاک کرنے پر 21 سال سزا سنائی گئی تھی۔ تب امریکہ کو ویانا اور جنیوا کنونشن کیوں یاد نہ آئے تھے‘ 1982ء میں شمالی کوریا کے ایک سفارت کار نے نیویارک میں ایک خاتون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی‘ اس معمولی جرم پر اسے اسثتنیٰ کیوں نہ دیا گیا۔ ریمنڈ ڈیوس کا کیس عدالت میں ہے‘ عدالت قانون کے مطابق جو فیصلہ کریگی‘ امریکی حکام اس فیصلے کا احترام کریں اور حکومت پاکستان بھی کسی قسم کی لچک مت دکھائے۔ میاں شہباز شریف اور ترجمان ایوان صدر کا مؤقف سو فیصد درست ہے‘ یہی مؤقف پوری قوم کا ہے۔ لہٰذا حکومت امریکی دبائو میں آئے بغیر اپنے قانون کی عملداری کرائے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے مفید پروگرام
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرکے وسائل عوام کی بنیادی سہولتوں پر خرچ کر رہے ہیں۔
وسائل کی ترقی کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جاتے تو آج ہمیں غیروں کا دست نگر نہ بننا پڑتا۔ احتساب کا کڑا نظام وضع کرنا ہو گا‘ کرپشن ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے جس قدر باتیں کی ہیں‘ وہ بنیادی اہمیت کی حامل ہیں‘ انکی اہم ترین تجویز وسائل کی ترقی پر زور دیتا ہے۔ وہ عمداً بھی اس وقت وسائل کو عوام کی بنیادی سہولتوں پر خرچ کر رہے ہیں اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی جو نوید انہوں نے سنائی ہے‘ وہ نہایت خوش آئند ہے اور یہ مثال بنے گی۔ انہوں نے وسائل کے بہتر استعمال پر توجہ دیکر گڈگورننس کی بنیاد قائم کی ہے۔ انہوں نے بجا طور پر کہا ہے کہ ہم اپنے وسائل بروئے کار نہ لا کر خود کو دوسروں کا محتاج کر دیا ہے۔ اسی طرح اگر احتساب کا کڑا نظام ہوتا تو یہ لوٹ مار نہ ہوتی اور نہ ہی کرپشن۔ وزیراعلیٰ کی یہ بات درست ہے کہ وہ وسائل کو عوام کی بنیادی سہولتوں پر خرچ کر رہے ہیں۔ مگر صوبے میں اسکے کہیں آثار نظر نہیں آتے۔ ممکن ہے مستقبل قریب میں اسکے نشان ظاہر ہو جائیں۔ وہ انتھک ہیں اور توقع ہے کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے‘ اس پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے اور مزید حالات میں بہتری آئیگی۔