کراچی (خصوصی رپورٹ + پ ر) کراچی میں ایم کیو ایم کے جلسہ قومی یکجہتی شرکت کے لئے متحدہ کے زیر اثر علاقوں سے دیگر قومیتوں کے افراد کو جبراً گھروں سے جلسہ گاہ لایا گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ متحدہ نے جلسے کے اعلان کے بعد ہی شہر بھر میں خصوصی بینر لگائے تھے جن میں مختلف قومیتوں کے لوگوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور ایم کیو ایم کے عہدےداروں کی خصوصی ڈیوٹیاں بھی لگائی گئی تھیں تاہم اتوار کی صبح اس وقت کارکنان پریشان ہوئے جب پختون ٹھیلے‘ ہوٹل اور دکانوں والے غائب تھے جس کے بعد جلسے میں شرکت کو یقینی بنانے کے لئے متحدہ کے کارکنان اپنے علاقوں کی مارکیٹوں اور بازاروں میں سوچی اور دیگر مزدوری کے لئے آنے والے پختون افراد کو جبری طور پر بسوں میں بٹھانے لگے۔ پختون افراد کی کمی فیڈرل بی ایریا‘ بفرزون میں واقع پختون افراد کے ہوٹل بند کر کے پوری کی گئی اور ملازمین کو جبری طور پر جلسے میں بھیجا گیا۔ جلسے میں سب سے کم پختون اور بلوچی تھے جبکہ زیادہ تر پنجابیوں کے نام پر شہری حکومت کے ملازمین کو بلوایا گیا تھا جو کرتا دھوتی اور پگڑی پہن کر آئے تھے جبکہ زیادہ تر بنگالی‘ برمی افراد کو جمع کیا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ الطاف حسین کے خطاب کے دوران جب یہ لوگ نماز مغرب کی ادائیگی کے لئے جانے لگے تو انہیں روک دیا گیا۔ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے صوبائی سیکرٹریٹ سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ شہر بھر میں پشتون دکانداروں‘ ہوٹلوں ارو ریڑھی بانوں کو زبردستی اپنے جلسے میں لے جایا گیا اور حقائق کو غلط بیان کرنے اور میڈیا کے ذریعے دنیا کو گمراہ کن تاثر دینے کے لئے جلسے میں عوام کی بڑی اکثریت کی شرکت ظاہر کرنے کے لئے سرکاری ملازمین اور ان کے حلقہ اثر علاقوں میں محنت کشوں اور مزدوروں کو جلسہ گاہ میں حاضری نہ دینے کی صورت میں جان سے مارنے اور کراچی سے بے داخل کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔