یوں تو بھارت اپنے سیکولر ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتا۔ لیکن اقلیتوں کے ساتھ جس قسم کا غیرانسانی سلوک بھارت میں کیا جاتا ہے اس کی مثال شاید دنیا کے کسی ملک میں نہیں مل سکتی۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حال ہی میں بالی وڈ کے سپرسٹار شاہ رخ (کنگ خان) نے اپنے ایک مضمون میں بھارت کے چہرے پر سیکولرازم کا چپکا ہوا ماسک اتار کر دکھایا ہے کہ بھارت کا اصل مکروہ چہرہ کس قدر بھیانک ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ اور ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔ شاہ رخ خان نے لکھا ہے کہ میرے باپ دادا نے بھارت کی آزادی کی جنگ لڑی ہے اور ہماری حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بھارت کی انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے مجھے دھمکی آمیز پیغامات ملتے ہیں۔ جب ہم بھارت کے اس رویے پر تنقید کرتے ہیں تو ہماری وفاداری کو پڑوسی ملک (پاکستان) سے جوڑا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا مسلمان ہونے کی باعث سپرسٹار ہونے کے باوجود بھارت میں ہماری زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔ میں نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے ہی ”مائی نیم از خان“ نامی فلم بنائی تھی کہ میرے مذہب کو میری وطن دوستی کے ساتھ مت جوڑا جائے۔ شاہ رخ سے پہلے اسی طرح کے بیانات کچھ عرصہ قبل بالی وڈ کی مایہ ناز ایکٹریس شبانہ اعظمی کی طرف سے بھی آئے تھے۔ انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ ہماری تمام خدمات کو فراموش کر کے ہمارے فن اور ہنر کو بھلا کر صرف مسلمان ہونے کی بنا پر ہمیں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور گاہے بگاہے قتل کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہے۔
اسی طرح بھارت کے بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور، حسین جن کے فن پاروں کی بناءپر پوری دنیا میں بھارت کے جے جے کار ہوئی اس شریف النفس فنکار کے ساتھ بھارت نے اس وقت توہین آمیز اور متشدد سلوک کیا کہ حسین کو بھارت چھوڑ کر ابوظہبی میں پناہ لینا پڑی۔ حسین نے بھی جاتے جاتے بھارتی سیکولرازم کی دھجیاں بکھیریں اور دنیا کو بھارت کا لعین چہرہ دکھایا بلکہ بعد میں اپنے فن پاروں میں بھی حسین نے بھارت کے خلاف اپنی بھڑاس نکالی۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں بھارت کے خود ساختہ سیکولرازم کی.... جس ملک میں اتنی شہرت یافتہ شخصیات کے ساتھ بھارت یہ سلوک اختیار کئے ہوئے ہے وہاں عام مسلمانوں پر کیسے کیسے مظالم ڈھائے جاتے ہوں گے۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائیوں کے ساتھ بھارت میں اس قسم کا غیرانسانی، غیراخلاقی اور ذلت آمیز سلوک کیا جا رہا ہے کہ اب وہاں عیسائی تنظیمیں بھی بھارت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور بھارتی حکومت میں سکھوں کے گولڈ ٹمپل پر جس قسم کا وحشیانہ آپریشن کیا گیا پوری دنیا اس سے واقف ہے۔ اس آپریشن میں ہزاروں سکھوں کو خون میں نہلا دیا گیا بلکہ سکھوں کے خون سے باقاعدہ ہولی کھیلی گئی اور آج بھی سکھ بھارت کے مظالم کا شکار ہیں اور بھارت سے آزادی کی خاطر ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ چودہ پندرہ برس سے مسلمانوں پر مظالم کے جتنے پہاڑ توڑے جا سکتے ہیں توڑے گئے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں اور آزادی کی صبح کی خاطر ظلم کی سیاہ رات سے مسلسل نبرد آزما ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ کشمیری مسلمانوں کے لہو کے نذرانے رائیگاں نہیں جائیں گے۔ یہ لہو ایک دن رنگ لائے گا اور بھارت کو دم دبا کر یہاں سے بھاگنا پڑے گا۔ پاکستانی حکومت کشمیری مجاہدین کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت تو کرتی ہے لیکن یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ بھارت کی تمام تر چیرہ دستیوں اور ہٹ دھرمیوں کے باوجود پاکستانی حکومت بھارت کو ”پسندیدہ ترین ملک“ قرار دینے پر کیوں آمادہ ہوئی؟ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے دوستی کی پینگیں کیوں بڑھائی جا رہی ہیں؟ اور تجارت کے راستے کیوں کھولے جا رہے ہیں؟ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں ایک موقع بھی ایسا نہیں آیا کہ بھارت سے مسئلہ کشمیر پر سنجیدہ مذاکرات کئے گئے ہوں۔ بھارت، کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے۔ پاکستانی حکومت کشمیر کو اپنی ”شہ رگ“ کیوں نہیں مانتی؟ اور اپنی شہ رگ دشمن کے پنجے سے چھڑانے کی کوشش کیوں نہیں کرتی؟ مسئلہ کشمیر کے نام پر فوج کو جو کروڑوں، اربوں کا بجٹ دیا جا رہا ہے اس کا حاصل کیا ہے؟
کوئی جواب! کہ دست سوال میں ہے کدال