5 سال پورے ہو گئے .... (۱)


گذشتہ روز ایوان اقتدار میں خوبصورت نیلگوں آسمان تلے منظر دیدنی تھا۔ اودے اودے، نیلے نیلے اور پیلے پیلے پیرہنوں میں ملبوس خواتین اور سوٹ زیب تن کئے ہوئے رنگ برنگ نکٹائیوں سے آراستہ ارکان اسمبلی فوٹو سیشن کیلئے جمع تھے۔ ان چمکتے دمکتے چہروں اور ایک دوسرے کے ساتھ چہلیں کرتے ہوئے خواتین و حضرات کے بے فکرے پن سے تو یوں لگتا تھا کہ یہ ملک بہت آسودہ حال ہے یہاں کے لوگوں کو دکھ کوئی نہیں سُکھ ہی سُکھ ہے۔
اس میں شک بھی کوئی نہیں کہ چند سو ارکان اسمبلی کی اکثریت آسودہ حال تھی جو اب بہت ہی خوشحال ہو گئی ہے اور خوشحال ہی نہیں مالا مال ہو گئی ہے اور انہوں نے بڑی محدود تعداد میں اپنے پیاروں کو بھی نہال کر دیا ہے۔ باقی رہ گئے عوام تو اُن کی انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے بعد کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہوتی۔
ارکان اسمبلی اس بات پر بغلیں بجا رہے تھے اور خوشی کے نغمے گنگنا رہے تھے کہ اس اسمبلی نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر لی ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ مدت پوری تو اس سے پہلے بھی کئی اسمبلیوں نے کی تھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس اسمبلی نے عوام کو کیا دیا ہے۔ کیا اس حکومت نے عوام کو روٹی دی۔ کیا انہیں روزگار دیا، کیا انہیں توانائی دی، کیا انہیں روشنی دی، کیا انہیں علاج معالجہ دیا، کیا انہیں نورِ علم دیا۔ حکومت نے نہ صرف یہ بنیادی ضرورتیں اپنے شہریوں کو دیں بلکہ اُن سے یہ ضرورتیں چھین لی ہیں۔ روٹی دینے کا اعلان کر کے برسر اقتدار آ نے والی جماعت نے روٹی مہنگی کر دی کہ غریب عوام اور دس بیس نہیں کم از کم پانچ کروڑ عوام روٹی خریدنے کی استطاعت سے محروم ہو گئے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار میں آٹا 12 روپے فی کلو تھا اور آج 37 روپے فی کلو ہے۔ ملک کی نصف آبادی کی آمدنی نے کیا بڑھنا تھا ان سے ہر وسیلہ روزگار بھی چھین لیا گیا ہے۔ بجلی بند، گیس بند، سرمایہ کاری بند، صنعتیں بند، فیکٹریاں بند تو پھر روزگار کہاں سے آئے گا۔
گذشتہ روز فوٹو سیشن سے اپنی رنگ برنگ گاڑیوں کی طرف لوٹتے ہوئے ارکان اسمبلی سے جب رپورٹروں نے پوچھا کہ آپ نے اپنی پانچ سالہ مدت تو پوری کر لی مگر اس عرصے میں آپ نے عوام کو کیا دیا تو انکے چمکتے ہوئے چہرے ماند پڑ گئے اور وہ بغلیں جھانکنے لگے اور انکے پاس سوائے اعترافِ جرم کے اور کوئی جواب نہ تھا۔ اس حکومت نے ان پانچ سالوں میں عوام کو مہنگائی کا تحفہ دیا، دہشت گردی کا تحفہ دیا، ڈرون حملوں کا تحفہ دیا۔ عوام کیلئے تو ان کے یہ تحائف تھے جبکہ خود انہوں نے عوام کی دولت لوٹ لوٹ کر بیرون ملک بنک بھرے ہیں۔ اندرون ملک فیکٹریاں لگائیں اور زمینوں پر قبضے کئے ہیں۔ رینٹل پاور سٹیشنوں کے نام پر بلامبالغہ کھربوں کمائے ہیں۔ اس دوران اس عوامی حکومت نے ہر روز کرپشن کا ایک نیا سکینڈل عوام کو دیا ہے اور کوئی تھوڑی بہت نہیں کھربوں کی کرپشن کی۔ ہر بڑا نام ایک سے ایک بڑے مالی سکینڈل میں ملوث ہے۔
اس حکومت نے معیشت کو گور کنارے پہنچا دیا ہے۔ ابھی فوری طور پر پاکستان نے آئی ایم ایف کو 1.6 بلین ڈالر کی قسط ادا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ جولائی، دسمبر 2013ءمیں دو بلین ڈالر کی مزید اقساط ہمارے ذمے واجب الادا ہیں۔ سٹیٹ بنک میں زرمبادلہ کے موجودہ 8.7 بلین ڈالر کے ذخائر قسطوں کی ادائیگی کے بعد دو ماہ کی درآمدات کیلئے بمشکل کافی ہیں اور اس سے زائد ادائیگیوں کے کسی طور متحمل نہیں ہو سکتے۔ آئی ایم ایف کی اقساط ادا کر کے ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ ان حالات میں ہمارے حکمرانوں کو کشکول گدائی لے کر پھر آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر جانا ہو گا اور امریکہ کی مکمل ڈکٹیشن کو من و عن تسلیم کرنا ہو گا۔ معیشت کی اس زبوں حالی پر حکمرانوں کو کوئی پریشانی نہیں۔ سابق چیئرمیں اوگرا 87 ارب روپے لوٹ کر مفرور ہیں۔ اب ان کی گرفتاری کی خبریں آ رہی ہیں۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف رینٹل پاور سکینڈل میں قریب قریب ایک کھرب روپے کی بدعنوانی کے الزام کا سامنا کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم کی بیگم فوزیہ گیلانی، صاحبزادے علی موسیٰ، مخدوم شہاب اور خوشنود لاشاری کے بنک اکاﺅنٹ منجمد کر دئیے گئے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کو انتخابات سے آگے پیچھے غریبوں کی بستیوں میں جانے کی توفیق نہیں ہوتی مگر ہمیں معلوم ہے کہ وہاں کیسی کیسی آہ و فعاں بلند ہو رہی ہے۔ اسی طرح متوسط گھرانوں میں چلے جائیں یا ایلیٹ کلاس مجالس میں چلے جائیں وہاں بھی آپ کو حکومت سے ہی مایوسی نہیں بلکہ جمہوریت سے مایوسی اور سخت بیزاری سنائی دے گی۔ لوگ اب جمہوریت بچاﺅ، جمہوریت بچاﺅ کا راگ الاپنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور جب ایسی کوئی بات دستور، جمہوریت، عوام، عوامی اقتدار وغیرہ کے حوالے سے کی جاتیں ہیں تو لوگوں کی جلی کٹی سُننا پڑتی ہیں۔ ان باتوں کا کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔
لوگ پانچ پانچ بچوں کو ہلاک کر کے آپ خودکشی کر رہے ہیں۔ اس طرح کی خودکشیاں اس نام نہاد جمہوریت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ پہلی بدعنوان حکومتیں عوام سے روٹی چھین لیتی تھیں، روزگار چھین لیتی تھیں، تعلیم چھین لیتی تھیں، چھت چھین لیتی تھیں مگر یہ پہلی حکومت ہے کہ جس نے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ بیچارا شہری گھر سے کام کیلئے لگتا ہے اور شام کو وہ نہیں اس کی لاش گھر واپس آتی ہے۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن