بھارت دنیا کی بڑی طاقت ہونے کے خواب کافی عرصہ سے دیکھ رہا‘ کبھی سکیورٹی کونسل کے ممبر ہونے کی لگن ہو جاتی ہے اور اب امریکہ بہادر کی چلتی گھوڑی پر سوار ہونے کی کوشش میں ہے اور بھارت کے اندر کئی علاقے‘ ریاستیں اور صوبے ہیں جن میں غربت انتہا درجہ تک پہنچ گئی ہے۔ چند روز قبل ایک انگریزی اخبار میں جنوبی ہندوستان کی ریاست میں عورتوں کو بیل کی جگہ ہل چلانے کیلئے مزدور رکھا جاتا ہے کیونکہ لوگوں کے پاس ہل چلانے کیلئے روپیہ یا رقم نہیں کہ بیل خریدیں۔ مزدور عورتیں ہل چلاتی ہیں‘ دو روز پہلے اس طرح کی ایک اور تصویر اسی انگریزی اخبار میں تھی جس میں گدھے‘ گھوڑے کی بجائے مزدور انسان ریڑا چلا رہے ہیں۔ 80% آبادی نچلی ذات کے ہندوﺅں اور مسلمانوں کی ہے جو غربت کا شکار ہیں۔
اس لحاظ سے ایک اکنامکس میگزین نے انکشاف کیا ہے کہ 32 انڈین ریاستیں ہیں‘ GDP بے حد کم ہو گیا ہے گویا 8 انڈین ریاستوں میں 2000-GDP امریکن ڈالرز ہے۔ شمال میں بہار‘ بھارت کا آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی 95.8 ملین ہے‘ اس کی ایک آدمی کی آمدنی 9/10 ڈالرز امریکی ہے۔ اسی طرح منی پور شرق میں ریاست ہے‘ غربت زیادہ ہے 1440-GDP امریکن ڈالر ہے‘ یہی حال مدہیہ پردیش کا ہے۔
اترپردیش کی آبادی 195.8 ملین ہے‘ اس کی اقتصادی حالت قابل رحم ہے‘ تاہم بھارت اپنے آپ کو ایشیا میں چین اور جاپان کے بعد اقتصادی لحاظ سے آگے سمجھتا ہے۔ ورلڈ بنک کا انکشاف ہے کہ 42% انڈین یعنی 455 ملین لوگ غربت کے نچلے حصہ میں 1.25 ڈالرز روز کما سکتے ہیں اور بے شمار ریاستوں کی حالت پتلی ہے۔ پونڈا چیری اور چندری گر جہاں غربت عام بات ہے اور گوا کی ریاست سب غربت کا شکار ہیں۔ اس طرح ملک بھارت کے مغربی حصہ کی ریاستیں ہریانہ‘ مہارسٹریا‘ پنجاب اور گجرات کا 4000-GDP امریکن ڈالرز ہے۔ گویا 15 ریاستوں کا 2000-4000GDP امریکن ڈالرز کے قریب اڑیسہ‘ راجستھان کے حالات بھی پیچھے نہیں۔ صرف دو بھارتی ریاستوں کا 100GDP بلین امریکن ڈالرز ہیں۔ اس کے برعکس چین کا 200 بلین امریکن ڈالرز ہے کچھ ریاستوں میں 500 بلین ڈالرز ہے۔
بین الاقوامی ڈینٹل کانفرنس مدراس گئے وہاں پر مسلمانوں کی حالت تو پتلی تھی عام لوگ ہمارے طرح خوشحالی کے دن نہیں گزارتے تھے جس کالج کے مسلمان پروفیسر نے ہمیں مدعو کیا ان کا ایک چھوٹا گھر تھا۔ سیکنڈ ہینڈ لوکل گاڑی سٹارٹ تھی‘ گھر میں چار مہینوں کیلئے کرسیاں کرایہ پر منگوائی گئیں۔ اسی کانفرنس میں آل انڈیا پوسٹ گریجویٹس انسٹیٹیوٹ کا سربراہ ایس ایس سندھو سکھ بھی تھا جس کا تعلق لاہور سے تھا۔ اس سارے انسٹیٹیوٹ میں ایک پروفیسر مسلمان تھے۔ ان سے تعارف کرایا گیا۔ میں نے پوچھا کہ پاس کونسی گاڑی ہے؟ پروفیسر صدیقی صاحب نے فرمایا ہمیں کار کی ضرورت نہیں ہوتی ہم بس پر آتے ہیں‘ یہ سٹینڈرڈ ہے جب دہلی بازار دیکھا‘ انسان رکشہ چلاتے ہیں‘ گائے کھلے عام بازاروں میں پھرتی ہیں اور انسان غلہ کمانے کیلئے رکشہ کے ذریعہ انسان کو سوار کرتے‘ اپنی ٹانگوں کی طاقت سے چلاتا ہے۔
حال ہی میں ہانگ کانگ تجزیاتی ادارے نے بھارت کی اقتصادی پوزیشن کی قلعی کھول دی بھارت دنیا میں سیاسی رشوت خوری کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہے اور بھارت میں کرپشن زوروں پر ہے۔ اس بڑے ملک میں لاکھوں افراد جھونپڑیوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور فاقہ کشی سے لاکھوں افراد اور بچے خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔
چند روز قبل ایک سنسنی خیز خبر آئی کہ سوئٹزرلینڈ میں رشوت اور بے اصول سرمایہ دنیا کے تمام ممالک سے بھارت کے لیڈرز کا ہے اور بھارتی اسمبلی کے 178 ممبران رشوت‘ دھوکہ دہی کی بنا پر مقدمات میں مبتلا ہیں۔ 2 مرکزی وزیر مستعفی رشوت کی وجہ سے ہوئے اور بھارت میں ہزارے 74 سالہ ہندو Hazaro نے رشوت کے خلاف جہاد کا آگاز کر دیا۔ منموہن سنگھ وزیر اعظم اور کانگریس پارٹی کو مشکلات آ رہی ہیں‘ جب رشوت ہو گئی حقدار کو حق نہیں ملے گا‘ غربت کا آغاز ہو گیا‘ مہنگائی ہو گئی‘ بے چینی بڑھ جائے گی‘ یہی وجہ ہے کہ بھارتی (دلت) چھوٹی ذات کا ہندو‘ مسلمان جن کی آبادی 80% ہے‘ غربت کا شکار ہیں۔ برہمن‘ پنڈت اونچی ذات والے امیر ہیں۔