کراچی میں امن کیلئے کابینہ ملٹری آپریشن پر غور کر رہی ہے: برطانوی اخبار

کراچی (نیٹ نیوز) برطانوی اخبار ”دی انڈیپنڈنٹ“ نذ۔ے کراچی کی مافیاز، گینگسٹرز اور ٹارگٹ کلنگ پر اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مافیا گروہوں اور غنڈہ عناصر نے سیاسی اور فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ کر دیا۔ قتل ہونے والوں کے کیس کی نہ تحقیق، نہ گرفتاری اور نہ اس کی ذمہ داری کا الزام کسی پر ڈالا جاتا ہے۔ کراچی میں سیاسی اور نسلی بنیادوں پر تشدد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 2012ءکراچی کی تاریخ کا خونریز سال ثابت ہوا۔ کراچی میں گزشتہ برس دو ہزار سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کابینہ امن کی بحالی کیلئے ملٹری آپریشن پر غور کر رہی ہے۔ اس سال پاکستان میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں، بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کراچی میں انتخابات کا انعقاد محفوظ ہو سکے گا۔ طالبان مضبوط اقتصادی مرکز میں اپنا مضبوط گڑھ بنانے کیلئے اس افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں تشدد کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز ہیں جو کراچی کے وسائل پر کنٹرول کے لئے تصادم کرتے ہیں۔ رپورٹ کی مصنفہ کا کہنا ہے کہ کراچی زیادہ دولت مند شہر ہے۔ شہر کے حجم اور صنعتی اور تجارتی مفادات کی وجہ سے کراچی میں کسی دوسری جگہ کے مقابلے میں سیاسی قوت کے لحاظ سے مفادات زیادہ ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر سیاسی جماعتوں کی تشکیل لسانی اور نسلی بنیادوں پر ہے۔ تاریخی طور پر کراچی میں سب سے اہم کشیدگی عوامی نیشنل پارٹی اور اردو بولنے والوں کے درمیان رہی جس کی نمائندگی متحدہ قومی موومنٹ کرتی ہے۔ حالیہ سالوں میں متحدہ اور پیپلز پارٹی کے درمیان کشیدگی کی وجہ شہر کے معاملات مزید پیچیدہ صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ کراچی میں لینڈ مافیا اور پانی مافیا جیسے مجرمانہ گروہ بھی سرگرم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں ایک ارب روپے بھتہ یومیہ لیا جاتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنے عسکری ونگوں سے انکاری ہیں۔ اخبار نے ایم کیو ایم ترجمان واسع جلیل کے حوالے سے لکھا کہ مجموعی طور پر یہ تاثر ابرا ہے کہ تشدد کی بڑی وجہ مافیاز کی آپس میں لڑائی ہے۔ اعلیٰ سطح پر سیاسی جماعتیں آپس میں تعاون کی بات کرتی ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن