29 جنوری کی سہ پہر وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر میاں محمد نوازشریف نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں طالبان سے چار رکنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کر کے جنگ کی حامی طاقتوں کی مذموم خواہشات پر اوس ڈال دی۔ وطن عزیز کو آگ و خون کے کھیل میں دھکیلنے والی ان قوتوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے ایک بار پھر بچا لیا۔ راقم بلاشرکت غیرے ببانگ دہل اعلان کرتا ہے کہ ڈاکٹر میاں محمد نوازشریف نے طالبان کو امن کیلئے آخری موقع دینے کیلئے مذاکرات کا اعلان کر کے ملک و قوم کیلئے اپنی سنجیدگی ظاہر کر دی ہے، اب طالبان کا بھی فرض ہے کہ وہ ہتھیار ڈال کر ڈاکٹر میاں محمد نوازشریف کے اس مثبت اور محب وطن اعلان کا نیک نیتی سے جواب دے کر اس خطے کا امن غارت کرنے والی قوتوں کو واضح پیغام دے دیں کہ طالبان اب مزید انکے ہاتھوں کھلونا نہیں بنیں گے۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ارض پاک میں امن و امان اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے معاملہ پر خطے میں عالمی طاقتوں کی ”پالیسیوں“ اور ”سرگرمیوں“ کے باعث غیر معمولی صورتحال ہے جس کی وجہ سے یہاں کئی برسوں سے خودکش حملوں اور دہشت گردی کے خوفناک اور دلسوز واقعات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ شروع شروع میں ان شرانگیز کارروائیوں کی داغ بیل ان عناصر نے ڈالی تھی جو افغانستان میں امریکی قیادت میں شروع کی جانیوالی دہشت گردی کی جنگ کے خلاف تھے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جب امریکہ نے افغانستان میں اپنے مذموم مقاصد کیلئے مہم جوئی کی اس وقت وطن عزیز میں ایک ڈکٹیٹر اور طالع آزما نے عنان مملکت پر اپنا قبضہ جما رکھا تھا، اسی ڈکٹیٹر نے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے دہشت گردی کیخلاف نام نہاد امریکی جنگ میں پاکستانی افواج کو بھی جھونک دیا اور خود کو امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی قرار دے ڈالا۔ مشرف نے دنیا کو بالخصوص اقتدار کے بھوکے ہمارے سیاستدانوں کو باور کرایا کہ نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت ناگزیر ہے تب پاکستان کی طرف سے بین الاقوامی تقاضوں کے باعث کئے جانیوالے تعاون سے طالبان ناخوش تھے، رفتہ رفتہ مشرف کی پے در پے زیادتیوں کے باعث طالبان مشرف حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے آئین و قانون کو مسترد کرتے چلے گئے۔ ظاہر ہے طالبان کی یہ سرکشی ناصرف حکومت بلکہ عوام، سیاسی و عسکری قیادت سمیت کسی کو بھی پسند نہیں تھی۔ حکومت نے متعدد بار طالبان پر واضح کیا کہ وہ آئین پاکستان کے تحت ہی ان سے مذاکرات کریگی اپنے سابق م¶قف پر قائم رہتے ہوئے 29 جنوری کو وزیراعظم ڈاکٹر میاں محمد نوازشریف نے ایک بار پھر طالبان کو آئین کے تحت مذاکرات کرنے کی دعوت دی ہے جس کے جواب میں طالبان نے اس بار آئین کے تحت مذاکرات نہ کرنے کی بات تو نہیں کی لیکن م¶قف اختیار کیا ہے کہ مذاکرات سے قبل حکومت اپنا اخلاص اور اختیارات ثابت کرے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ طالبان حکومت کے سات ماہ کے پیریڈ کے دوران ایک دن بھی جنگ بندی پر تیار نہیں ہوئے اور دہشت گردی کے پے در پے دردناک واقعات عوام کی جھولی میں ڈالے ہیں حتیٰ کہ مساجد، امام بارگاہوں اور معصوم بچوں و خواتین تک کو نہیں چھوڑا گیا۔ ان حالات میں حکومت کو چار سو طالبان کیخلاف آپریشن آپریشن کی آوازیں سنائی دی گئیں مگر ڈاکٹر میاں محمد نوازشریف بخوبی آگاہ تھے کہ طالبان کیخلاف آپریشن کرنے سے ملکی سالمیت کو دا¶ پر نہیں لگایا جا سکتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ مسلم لیگ کی حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کیلئے دبا¶ ڈال رہا ہے جس کے برعکس ڈاکٹر محمد نوازشریف مذاکرات پر زور دیتے چلے آئے ہیں۔ طالبان کی حالیہ کارروائیوں کے باعث عوامی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے بظاہر نوازشریف حکومت کے پاس آپریشن کے سوا دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ وزیراعظم نے مذاکرات مخالف سیاستدانوں پر باور کیا کہ طالبان بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔ انکی اصلاح ناگزیر ہے۔ اب طالبان پر لازم ہے کہ وہ امن کیلئے وزیراعظم کی کوششوں کو کوئی گزند نہ پہنچائیں اور ان عناصر کی خواہشات منہدم کر دیں جو ہمہ وقت مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے اور کھلے عام طالبان کیخلاف ایک اور جنگ میں ملک کو دھکیلنے کیلئے بے تاب تھے۔ ان حضرات کا م¶قف ہے کہ مذاکرات کے باعث دہشت گردی اور دہشت گردوں کیلئے خوشنما القاب استعمال کئے جائینگے، انہیں معاملے کا م¶قر فریق تسلیم کیا جائیگا۔ میں یہ کہنے میں ہر گز عار محسوس نہیں کروں گا کہ قومی اسمبلی میں اپنے خطاب سے قبل ڈاکٹر محمد نوازشریف کو اس امر کا بخوبی احساس تھا کہ عوامی جذبات اور خود ایوان میں بنی رائے دہشت گردوں کیخلاف آپریشن سے عبارت ہے تاہم حالات پر کڑی نگاہ رکھنے والے رہنما کی حیثیت سے انہوں نے عوامی اور ایوان کی رائے کے برعکس اپنی جس رائے کا اعلان کیا وہ انکی ژزف نگاہی کا ثبوت ہے جس آپریشن کے چرچے ہو رہے ہیں اس میں ناکامی کا امکان صفر بتایا جاتا ہے لیکن اس سے ناصرف تباہی زیادہ ہو گی بلکہ بعض ناگفتی نتائج کا بھی اندیشہ موجود ہے جبکہ ہر خوفناک جنگ کے بعد مذاکرات ہی وہ واحد ہتھیار ہے جو آخرکار کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ طالبان بھی اپنے اس بے لچک رویے کو ترک کر دیں جن کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے تھے جو گروپ حکومت سے بات چیت کیلئے تیار ہیں وہ ہتھیار ڈال کر مذاکراتی عمل میں شامل ہو جائیں تاکہ وطن عزیز کو ایک بار پھر گل و گلزار بنایا جا سکے اور وہ گروپ جو حکومتی مذاکراتی عمل کو کمزوری سمجھ رہے ہیں وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں وہ اس غلط فہمی کے ازالے کیلئے آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھتے ہوئے لچکدار پالیسی اپنائیں اور امن کیلئے وزیراعظم ڈاکٹر میاں محمد نوازشریف کی آخری کوششوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی تعمیر و ترقی کے عمل میں شامل ہو جائیں۔ یاد رکھیں جو دوسروں کو آگ میں جھونکتے ہیں ایک روز خود بھی بھسم ہو جاتے ہیں۔ طالبان کیلئے بھی راقم کی یہی سوچی سمجھی رائے ہے کہ وہ اب مذاکرات کی آڑ میں منفی و گھنا¶نی کارروائی سے باز رہیں ورنہ امن کا آخری موقع ہاتھ سے نکل جائیگا۔