حالیہ دنوں میں‘اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی شہ سرخیوں کے حوالے سے یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔ ان شہ سرخیوں کے مطابق ’’مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمنٹ نے طالبان کیخلاف فوجی آپریشن کی شدیدخواہش کا اظہار کیا ہے۔‘‘مجھے یقین کامل ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ملکی یک جہتی اور سلامتی کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔پختونوں کی تاریخ اور 2004ء میں جنوبی وزیرستان میں کئے جانے والے فوجی آپریشن کے نتائج کا تقاضا ہے کہ مسئلے کا حل فوجی آپریشن نہیں بلکہ سیاسی افہام و تفہیم ہے ـڈیورنڈ لائن1893 ء میں ہندوستان کے برطانوی حکمران اور افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمن خان کے دور میں کھینچی گئی تھی۔ اس کا مقصد پختون قوم کو تقسیم کرنا تھا لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا کیونکہ افغانستان کے بادشاہ کو حکمرانی کیلئے ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف میں بسنے والے قبائل کی منظوری حاصل کرنا لازمی ہے۔1970ء کی دہائی میں سوویٹ روس نے کابل میں اپنی من پسند حکومت قائم کی جسے مجاہدین کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اورمجاہدین کے ساتوں قائدین کی مشترکہ جدوجہد سے اس حکومت اور روس کو ذلت آمیز شکست اٹھانا پڑی۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ مجاہدین کی کوششوں اور قربانیوں سے حاصل کی جانے والی فتح کے بعد انہیں کابل پر حکمرانی کا حق دیا جاتا لیکن انکے ساتھ دھوکا کیا گیا اور یوں افغانستان کو خانہ جنگی میں دھکیل دیا گیا۔اس خانہ جنگی کے دوران ملا عمر کی قیادت میںپختونوں کی مزاحمتی قوت ابھری جسے عرف عام میں ’طالبان‘ کہا جاتا ہے۔ اس قوت نے1996ء سے 2001ء تک کے عرصے میں افغانستان کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیاتھا اوریہی وہ وقت تھا جب امریکہ اور اسکے اتحادیوںنے افغانستان پر حملہ کیا اوراپنا تسلط قائم کر لیا۔2003 ء میں جلال الدین حقانی پاکستان کے دورے پر آئے تھے ۔ مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ دوران ملاقات انہوں نے مجھے بتایا کہ طالبان اور مجاہدین باہمی اتحاد سے قابض فوجوں کیخلاف مشترکہ جنگ کیلئے آمادہ ہو چکے ہیں۔ میں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ افغانستان میں قیام امن اور جمہوریت کے قیام کیلئے انہیں امریکی ایجنڈے کو قبول کر لینا چاہیئے کیونکہ افغانستان میں پختونوں کو اکثریت حاصل ہے جسے اس جمہوری نظام میں اقتدار اور حکمرانی کا حق مل جائیگا اور جنگ کی تباہ کاری کے بغیر مقاصد حاصل ہوں گے۔اس پر انہوں نے کوئی تبصرہ نہ کیا لیکن وعدہ کیا کہ وہ ملا عمر سے بات کر کے اس کا جواب دیں گے۔دو ماہ بعد مجھے ان کی جانب سے یہ جواب موصول ہوا: ’’ہم نے اپنی آزادی کے حصول کی خاطر آخری لمحے تک جنگ کا عزم کر رکھا ہے۔ قابض فوجوںکا ایجنڈا قبول کرناہماری روایات ‘ قومی اقدار اور نظریے کے خلاف ہے۔اگر اللہ نے چاہا تو ہم اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک کہ ہم اپنی آزادی حاصل نہ کر لیں‘ چاہے پاکستان ہمارا ساتھ نہ بھی دے۔‘‘طالبان منظم ہوئے اور بارہ سال کی جنگ کے بعد ملا عمر کی زیر قیادت طالبان نے دنیا کی عظیم ترین طاقت کے خلاف جنگ جیت لی ہے اور جارح قوتیں پسپاہو چکی ہیں۔ اب کابل میں حکومت بنانے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ شمالی اتحاد اور کرزئی بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائینگے ۔ اس طرح طالبان کی یہ حکومت 1996-2001میں قائم ہونیوالی حکومت سے کہیںزیادہ مستحکم اور پر اعتماد ہوگی کیونکہ مجاہدین کی پہلی حکومت سات جماعتوںکے اتحاد پر مشتمل تھی جو سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے زیر سایہ کام کر رہے تھے لیکن اب وہاں صرف ایک لیڈر ملا عمرہے۔ جو انکے کمانڈربھی ہیںاور لیڈر بھی۔اسکے علاوہ ایک اور بھی نمایاں فرق ہے کہ طالبان کے حریت پسندوں کی اکثریت ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جو گذشتہ تین دہائیوں میں جنگ و جدل کے سائے میں پلے بڑھے ہیں اور انہیں زندگی کی کوئی آسائش میسر نہیںرہی ہے۔وہ صرف لڑنا جانتے ہیں جس کا انہیں کئی دہائیوں کا تجربہ ہے اور یہی نوجوان اس تحریک کے روح رواں ہیں۔طالبان کو افغانستان کے تقریباً 90 فیصد علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے جہان انہوں نے اپنی عملداری قائم کر رکھی ہے اور ان کااپنا قانون رائج ہے۔پاکستان میں بسنے والے پچیس ملین پختونوں اور افغانستان کے سترہ ملین پختونوں کی اقدار و روایات مشترک ہیں۔افغانستان میں کسی بھی حکمران کیلئے ان دونوں فریقین کی رضامندی کے بغیر حکومت قائم کرنا ناممکن ہے۔اب ان کا اثرورسوخ اسلام آباد تک پھیل چکا ہے جو ایک اہم تذویراتی تبدیلی ہے۔جنرل مشرف کو امریکیوں نے وزیرستان کے جال میں پھنسایا تھا۔انہیں بتایا گیا تھا کہ راولپنڈی میں ان پر کئے جانیوالے قاتلانہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ جنوبی وزیرستان میں ہے۔ یوں بلا سوچے سمجھے جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی منظوری دے دی گئی جس کے سبب ہزاروں قبائلی قتل ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہا ں سے ہجرت کر کے ملک کے مختلف علاقوں میں پناہ گزیں ہو گئے۔یہ عمل ابھی تک جاری ہے ۔ان اندرون ملک بے گھر کئے جانے والوں کی صفوں میں مسلح دہشت گرد بھی شامل ہو کر کراچی‘ پشاور‘ کوئٹہ اور لاہور میں پناہ گزیں ہو گئے ہیں اور دہشت گردی کی مختلف کاروائیوں میں ملوث ہیں۔حالیہ دنوں میں شمالی وزیرستان میں کی جانیوالی فوجی کاروائی کے بعد بھی تقریباً پندرہ سو خاندان وہاں سے ہجرت کر کے خیبر پختون خواہ کے شہروں اور قصبوں میں پناہ گزیں ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں اگرشمالی وزیرستان میںبھرپور فوجی آپریشن کیا گیا توبے گھر ہونے والوں کا سیلاب آئے گا اور امن وامان کی صورت حال انتہائی بگڑ جائے گی جسے سنبھالنا ناممکن ہوگا۔عام طور پر یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان قابل اعتبار نہیںلیکن حقیقت اسکے برعکس ہے کیونکہ انکے ساتھ متعدد مواقع پر دھوکا کیا گیا۔ 2004ء میں جب کہ معاہدہ طے پا چکا تھا تو دوسرے ہی دن مولوی نیک محمد کو ڈرون حملے میں مار دیا گیا۔ایسی ہی کاروائی تین مرتبہ دہرائی گئی اور بیت اللہ محسود‘ حکیم اللہ محسود اورولی الرحمن کو قتل کر کے مفاہمتی عمل کو سبوتاژ کیا گیا۔فوجی قیدیوں کے تبادلے اور معاوضے کی ادائیگی کا بھی ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں300 فوجی قیدی تو رہا کرا لئے گئے لیکن معاوضے کی ادائیگی نہیں کی گئی۔اس کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے خیبر پختون خواہ کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل اورکزئی نے استعفی دے دیا تھا۔تین اور مواقع پر قیدیوں کے تبادلوں کے معاہدے طے پائے تھے جن کے تحت طالبان نے ہمارے قیدیوں کو رہا کردیا تھا لیکن بدلے میں طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کیا گیا ۔ایک پیچیدگی لوگوں کے ذہن میں اور بھی ہے ۔ وہ افغان طالبان کی قوت کو تحریک طالبان پاکستان کا پشت پناہ سمجھ رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ افغان طالبان ایک اور ہی قوت کے نمائندے ہیں جس نے اب تک دنیا کی بڑی قوتوں کو شکست دی ہے۔ یہ قوت پختون قوت ہے جوکوہ ہندو کش سے لیکر کراچی تک پھیلی ہوئی ہے ۔جب امریکہ ‘ افغانستان سے نکلے گا تو یہ قوت امت مسلمہ کا ہراول دستہ ہوگی۔ اسلام کے دشمن اس قوت سے خوف زدہ ہیں اور اسے ایک دوسری قوت‘ شیعہ قوت سے لڑانا چاہتے ہیں جو ایران ‘ عراق‘ شام‘ بحرین کے علاوہ سعودی عرب‘ خلیجی ممالک اور پاکستان میں اقلیت کی صورت میں موجود ہے۔ اسلام دشمن ہر جگہ فرقہ وارانہ تصادم دیکھنا چاہتا ہے۔پاکستان میں بھی اسی فرقہ وارانہ تصادم کو ہوا دی جا رہی ہے۔ جہاں فرقہ وارانہ تصادم کا حربہ کام نہیں آتا وہاں نسلی عصبیت کو ہوا دی جاتی ہے۔ امریکہ ایک ایسے موقع پر جب وہ افغانستان سے شکست کھا کر نکل رہا ہے تو اس کی خواہش ہے کہ اس خطے میں بد امنی رہے اور یوں وہ اپنی شکست کا بدلہ لے سکے۔پاکستان کو انتہائی مشکل مسائل کا سامنا ہے ‘ ان مسائل کے باوجو د ایک نیا محاذ کھولنا کسی طور دانشمندی نہیں ہوگی۔بہتر یہی ہوگا کہ قیام امن کی خاطر بات چیت کے عمل میں خیبر پختون خواہ کی حکومت کو بھی شامل کیا جائے۔طالبان کی جانب سے قیام امن کیلئے مذاکرات پر آمادگی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے باہمی اعتماد پر مبنی فضا قائم کی جائے تاکہ قیام امن کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں۔قیام امن کی خاطرحکومت کی جانب سے چار رکنی ٹیم کا اعلان نہایت خوش آئند ہے۔ اس ٹیم کے اراکین قابل اعتماد اور اہل شخصیات ہیں۔لازم ہے کہ مسائل کو پرامن طور پر حل کرنے کی راہ اپنائی جائے جس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس جنگ سے علیحدہ کر لیں جو ایک سازش اورسفارتکاری کے منفی ہتھکنڈوں کو استعمال کر کے ہم پر تھونپی گئی ہے۔اس جنگ سے نجات حاصل کرنے کیلئے ہمارے پاس قائد اعظم کی اس منطق کی جانب واپس آنے کے علاوہ اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے کہ: ’’افغانستان کیساتھ ملحق ہماری سرحدوں کی حفاظت وہاں کے قبائل کی اپنی ذمہ داری ہے۔یہ ذمہ داری انہیں کو سونپ دو۔‘‘