”سکولز کی سیکورٹی اور سہمے بچے “

Feb 01, 2016

مسرت قیوم

کئی دنوںکے بعد سکول ”کھل “گئے ہیں ۔۔ آج ”پہلا دن “ہے سکول بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے حکومت کو اس کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے ۔پہلے موسم ”سرما “کی چھٹیاں تھیں اب سردی کا” بہانہ“ بنا کر پھر چھٹیاں دی گئی حالانکہ اصل مسئلہ” سیکورٹی“ کا تھا ۔۔۔اس طرح تو بچوں کے” اعصاب“ پر بھی دہشت گردوں کو سوار کیا جا رہا ہے بندوقوں کے” سایوں“میں بچے تعلیم کیسے حاصل کر سکیں گے؟؟ مائیں بچوں کو سکول بھیجتے وقت بھی” ڈر“ رہی ہوتی ہیں دعاﺅں کا” ورد“ کر کے اپنے لخت جگروں کو سکول کے لیے روانہ کرتی ہیں اور پھر ان کی واپسی تک ان کی” نگاہیں“ ٹی وی کی سکرین پر ہی ہوتی ہیں ۔ حکومت سکولز سے” ٹیکس“ وصول کرتی ہے تو سیکورٹی دینا بھی اسکی ذمہ داری ہے لیکن وہ سیکورٹی سے ”کنی کتراتی “ہے ۔۔۔ سکولز مالکان کی گرفتاریوں اور سیکورٹی نہ ملنے کے باعث پنجاب کے نجی اسکول مالکان نے یکم فروری سے سکول نہ کھولنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر حکومت نے” منتیں ترلے“ کر کے انھیں منا لیا، یہ حقیقت ہے کہ سکولوں میں سیکیورٹی نہ ہونے پر بچے اور ان کے والدین” عدم تحفظ“ کا شکار ہیں،وزیر تعلیم پنجاب رانا مشہود نے نجی سکول مالکان سے مذاکرات کیے تو اس دوران آپس میں”’ تلخ کلامی“ بھی ہوئی ۔حکومت نے تمام سکولوں کے لئے ” ایس او پی “جاری کیا تھا اور پنجاب حکومت اسکولز انتظامیہ کو تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی تھی لیکن تعاون کی بجائے انتظامیہ نے گرفتاریاں شروع کر دیں ،لاہور پولیس نے شہر بھر میں اے اور اے پلس کیٹیگری کے اسکولز گارڈزکوتربیت دینا شروع کردی ہے۔۔صوبائی حکومت صوبے بھر میں تعلیمی اداروں میں مکمل تعلیمی فضاءکے قیام کیلئے بنیادی اقدامات اٹھا ئے ۔ صوبے بھر میں پر امن ماحول اور پر امن تعلیمی سرگرمیاں شروع کرنے کیلئے کل وقتی پلان پر عمل درآمد شروع کیا جائے۔حکومتی انتظامی مشینری قانون نافذ کرنے والے اداروں،تعلیمی اداروں کے سربراہان والدین اورٹیچرزکے درمیان رابطے کا فقدان نہیں ہونا چاہیے۔صوبے میں 10,352 فی میل اور17967 میل سکول ہیں۔یوں سرکاری سکولوں کی مجموعی تعداد28319ہے جبکہ پرائیویٹ سکول8087ہے۔مجموعی طور پرنجی اور سرکاری سکولوں کی تعداد36606بنتے ہیں۔ان سکولوں میں طلبہ کی تعداد 5771303 بنتی ہے۔صوبے میں201 سرکاری اور310پرائیوٹ کالجز ہیں جس میں 2لاکھ طلباﺅ طالبات زیر تعلیم ہیں۔جبکہ صوبے میں 9 نجی ہیں اور19 سرکاری یونیورسٹیاں ہیں جن میں 70ہزار طلباﺅ طالبات زیر تعلیم ہیں۔صوبے کی طرف سے تعلیمی اداروں کی مکمل سیکورٹی پلان کے تحت پولیس کو تمام سکولوں کی لسٹ فراہم کی جائے۔سکولوں کی ”بونڈری وال“ مناسب سطح پر بنانے اور کھڑکیوں میں ”گریلنگ “بنائی جائیں ۔ سکولوں اور کالجوں میں کمیونٹی کی سطح پر کمیونٹی ”پولیسنگ واچ اینڈ وارڈ “متعارف کرایا جاجائے اگر کمیونٹی میں ریٹائرڈ ملازمین ہوں جن کے پاس اپنا اسلحہ ہو۔ان کو سرکار کی طرف سے اعزازیہ دیا جائے اس کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سکولوں کے بسوں میں بھی مسلح گارڈ ز بھی یقینی بنائی جائے ۔بونڈری وال کی تعمیر سیکورٹی کیلئے اسلحے کی فراہمی، گیٹ بلاکرز اورخاردار تاروں کو بھی یقینی بنایا جائیگا۔والدین ٹیچرز کمیٹی کو سکولوں کے سیکورٹی سے متعلق فعال بنایا جائے ۔ہائیر ایجوکیشن کے تحت جو تعلیمی ادارے ہیں ان میں سے سیکورٹی کو مربوط بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ والدین کے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے انتظامہ اور قانونی سطح پر ایکشن پلان بنایا جائے جس میں بونڈری وال کی تعمیر ، آرمڈ گارڈ، داخلہ اور خارجہ پوائنٹس کی نگرانی،کمیونٹی کی طرف سے” واچ اینڈ وارڈ“ کا اہتمام،بسوں میں سیکورٹی گارڈ اور سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے کل وقتی توجہ شامل ہے۔ایسے کمیونٹیز جہاں پر ایسے افراد جو آرمی سے باقاعدہ تربیت یافتہ اور ان کے بچے متعلقہ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہوں تو ان سے واچ اینڈ وارڈ کی ڈیوٹی لی جائے گی اور ان کو نہ صرف” اعزازیہ“ دیا جائے بلکہ ان کے بچوں کو مفت تعلیم بھی فراہم کی جائے۔غیر محفوظ تعلیمی اداروں میں پولیس تعینات کیا جائیگا۔ دفعہ 144سی آر پی سی کے ذریعے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی انتظامات کو یقینی بنایا جائیگا۔خیبر پی کے میں سرکاری سکولوں کی سیکورٹی کا معاملہ اساتذہ کے لئے” وبال جان“ بن گیا۔ محکمہ تعلیم او ر پولیس افسران نے سیکورٹی کی ذمہ داری سکول کے ہیڈ ماسٹر / پرنسپل پر تھوپ دی ہے۔محکمہ تعلیم نوشہرہ کے اے ڈی او نے ضلع بھر کے سکولوں کے ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل کو اپنی مد د آپ کے تحت سیکورٹی کے انتظامات کرنے کا”ٹاسک“ دے دیاہے۔ اکوڑہ خٹک سے ٹیکس کی مد میں تحصیل جہانگیرہ کو کڑوروں روپے کی آمدنی ہونے کے باوجود تحصیل جہانگیرہ میں اکوڑہ خٹک کے تمام سرکاری سکول سیکوئر نہیں۔سکول انچارج کو سکول کی سیکوٹری کے لئے اسلحہ اور CCTV کیمرے اپنی جیب سے خریدنے کا بھی کہا گیا ہے۔اساتذہ کو سرکاری سکولوں کی سیکورٹی انتظامات پر لگا دیا گیاہے سکولوں کو پہلے بند کر دیا، تعلیمی سال کے آخری مہینوں میں پڑھائی” انتہائی“ ضروری ہوتی ہے، لیکن اساتذہ سیکورٹی انتظامات کرنے لگے پولیس انتظامیہ اور متعلقہ محکموں کا کام ہے سیکورٹی انتظامات کے لیے اساتذہ کو کیا پتہ کہ سیکورٹی کیا ہوتی ہے، انتظامیہ کے” مضحکہ خیز “احکامات سرکاری سکولوں کی سیکورٹی انتظامات پولیس اور متعلقہ محکموں کا کام ہے نہ کہ سکول اساتذہ کا ہے۔ سانحہ چارسدہ کے بعد پنجاب حکومت نے سیکورٹی کے نام پر” افراتفری“ مچا رکھی ہے۔ سکول ٹیچرز کو سکولوں کی عمارتوں ،بیرئیر لگانے ”مورچے “بنانے کا” ٹاسک“ دیدیا گیا ہے اب جبکہ تعلیمی سال کے آخری مہینے میں طلباءو طالبات کے لیے انتہائی اہم دن ہیں۔ حکومت کے” پالیسی سازوں“ کو سمجھ نہیں آتی۔سرکاری سکولوں کی سیکورٹی انتظامات اگلے پانچ سال میں بھی مکمل نہیں ہو سکتے۔ اگر یہی صورتحال رہتی ہے تو پھر محکمہ تعلیم ہی بند کر دیا جائے۔ سیکورٹی انتظامات انتظامیہ، پولیس، خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے اور مورچے، بیرئیر، کیمرے اور دیگر آلات چار دیواریاں اونچی کرنا یہ محکمہ تعمیرات کی ذمہ داری ہے۔ لکیر کے فقیر اوپر گرم اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے افسران ایسے ایسے احکامات جاری کر رہے ہیں کہ ان پر ہنسی آتی ہے۔

مزیدخبریں