ہمارے سیاستدان بہت خوش قسمت ہیں، وگرنہ مغل تاجداروں کو ہر کھانے میں پہلا لقمہ اپنے ولی عہد کو کھلانا پڑتا تھا (تاکہ کھانے میں زہر کا پتہ چل سکے)۔ شاہی محلوں میں کیا بے یقینی کا موسم رہتا کہ بادشاہ سلامت ہر دم اپنے کراﺅن پرنس سے جان کا خطرہ محسوس کرتے۔ ولی عہد کے پہلا لقمہ نگلنے کے کچھ دیر بعد ہی بادشاہ سلامت کا ہاتھ دستر خوان کی طرف بڑھتا تھا۔ اب یہ سچ ہے کہ یا ان کے کسی ڈی جی پی آر کے کمال فن کا شاہکار، بہرحال تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں اورنگزیب عالمگیر کے قرآن پاک کی کتابت اور ٹوپیاں سی سی کر گزراوقات کرنے میں۔ ادھر ہمارے عہد کا ابن انشاءیونہی ابن انشاءنہیں کہلواتا تھا۔ اس نے اپنی نثر میں وہ لفظ ہی نہیں برتے جنہیں اس نے اپنی شاعری کیلئے سنبھال رکھا تھا۔ اس کی نثر اور شاعری کا ذائقہ بھی ایک سا نہیں۔ دونوں ” وکھرے وکھرے“ خطوں اور موسموں کا حال بیان کرتے ہیں۔ ابن انشاءنے ایک جملے میں پورا عالمگیری عہد لکھ دیا۔ ” اورنگزیب نے نہ کوئی نماز چھوڑی اور نہ کوئی بھائی“۔ اورنگزیب عالمگیر کو تخت شاہی کے راستے میں کھڑے تین بھائیوں کو قتل کرنا پڑا۔ ان تین بھائیوں میں حضرت میاں میر کا مرید دارالشکوہ بھی شامل تھا۔ تصوف کی شاندار کتاب ” سکینتہ الاولیائ“ کا مصنف یہ شہزادہ درویش منش آدمی تھا۔ لیکن درویشی اور شاہی میں بھلا فرق ہی کتنے قدموں کا ہے؟ حکیم الامت نے جو راز بڑی دیر بعد آشکار کیا، اورنگزیب اس سے پہلے ہی آگاہ تھا۔
نہیں فقرو سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
یہ نگاہ کی تیغ بازی، وہ سپہ کی تیغ بازی
جب اورنگزیب اپنے بھائیوں سے تخت و تاج کی جنگ لڑ رہے تھے تو ان دنوں شیخ موسیٰ ملتان کے دیوان (گورنر) تھے۔ اورنگزیب اپنے بھائی دارالشکوہ کے تعاقب میں ملتان پہنچا تو دارالشکوہ اس کے پہنچنے سے پہلے ہی بھکر روانہ ہوچکا تھا۔ اورنگزیب نے شیخ موسیٰ سے پوچھا ” دارا بے شکوہ“ کہاںہے؟ شیخ موسیٰ نے جرا¿ت سے جواب دیا۔ ” داراباشکوہ“ اگر یہاں ہوتے تو میری داڑھی کو اپنے ہی خون سے سرخ ہوتی دیکھتے۔ مزاج شاہی کو یہ گستاخی گراں گزری۔ شیخ موسیٰ کو دیوان کے عہدے سے معزول کردیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی نے لکھا ” اسی دن سے آج تک حضرت پیران پیر موسیٰ پاک شہید کے سجادہ نشین نے نہ ہی کسی قسم کے دنیاوی عہدے کو قبول کیا اور نہ ہی سیاست میں آئے۔ شیخ موسیٰ، یوسف رضا گیلانی کے آباواجداد میں سے تھے۔ جب درویش کی گدڑی میں لالچ کا اکھوا پھوٹتا ہے، تب ہی یوسف رضا گیلانی جیسے لوگ دنیا میں اترتے ہیں۔ اس دیندار شہنشاہ نے اپنے باپ شاہجہاں کا احترام ملحوظ رکھا، اسے قتل نہیں کیا، صرف اسے قید خانے بھجوانے پر اکتفاءکرلیا۔ یہ جان بخشی خدا جانے شفقت پدری کے کس لمحے کی یاد تھی، ورنہ بادشاہ نہ کسی کا باپ ہوتا ہے اور نہ کسی کا بیٹا۔ وہ اول و آخر بادشاہ ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدان کتنے خوش قسمت ہیں۔ یہاں بھائی سگے بھائی ہیں، برادران یوسف نہیں۔ برادران عالمگیری بھی نہیں۔ یہ باہم سلوک اتفاق اور محبت سے شاہی کرتے ہیں۔ ایک بھائی صوبے کی وزارت اعلیٰ پر قانع و شاکر ہے۔ دوسرا بلا کھٹکے ملک کا وزیراعظم ہے۔ وہ بے دھڑک صوبائی دارالحکومت آتا ہے۔ چین سے سوتا ہے۔ دستر خوان پر پہلا لقمہ خود اُٹھاتا ہے۔ پھر دوسروں کی باری آتی ہے۔
قصیدوں اور ہجو کے زمانے لد گئے۔ اب یار لوگوں نے دونوں اصناف سخن کو رلا ملا کر ایک صنف بنالی ہے۔ اسے کالم نگاری کہتے ہیں۔ منصور حلاج نے ” طواسین“ میں لکھا ” لکھنا ایک اظہار ہے۔ اس اظہار کی توفیق اسے ہوتی ہے جو حقیقت کو پہچان لیتا ہے۔“ ادھر جو اصحاب لکھنے کی توفیق نہیں رکھتے، وہ زبانی کالم نگاری کرتے ہیں۔ یہ بعض اوقات لکھے سے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے۔ اس طرح ” علم دوست“ سیاستدان پڑھنے کے عذاب سے بھی بچ نکلتے ہیں۔ بہرحال صدارت، سفارت، وزارت کی طرف یہی ایک راستہ جاتا ہے۔ ان سیاسی درباروں میں کیا کیا منظر نامے دیکھنے میں آتے ہیں۔ ایک صاحب اپنے مارشل لاءکے خلاف لکھے ہوئے کالموں کا پلندہ لئے پھرتے تھے۔ ان کے بارے وہ یہ بتانا کبھی نہ بھولتے کہ کوئی اخبار انہیں شائع کرنے کی جرا¿ت نہیں رکھتا تھا۔ پھر اس نے قصیدہ یوں مکمل کیا۔ ” میں بتا نہیں سکتا کہ مارشل لاءمیں مجھے کتنی ذہنی اذیت برداشت کرنا پڑی“۔ صاحب فن سنگلاخ اور مشکل زمینوں سے کیسے کیسے گوہر معنی ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ اسی محفل میں ایک دوسرا حاضر باش مارشل لاءدور کا مراعات یافتہ تھا۔ جھٹ بولا ! ” آپ میری اس ذہنی اذیت کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے جو مجھے جنرل ضیاءسے کوئی رعایت لیتے ہوئے محسوس ہوتی تھی“ ۔ ہمارے سیاستدان عزت، احترام اور محبت اپنا حق سمجھتے ہیں۔ جب ایک جیالے نے بینظیر بھٹو کو اپنی قربانیاں گنوائیں تو ان کا جواب تھا کہ آپ کو پارٹی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ آپ کو ان خدمات اور قربانیاں پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔ ڈاکٹر غلام حسین ایک جید جیالے ہیں۔ انہیں سیاست میں وراثت سے انکار نہیں۔ لیکن وہ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی ترکہ کی وارث فاطمہ بھٹو کو سمجھتے ہیں۔ عالم، فاضل اور مدبر بشیر ریاض پیپلزپارٹی میں بھٹو کے وقت کی یادگار ہیں۔ نو عمر بلاول کے لاہور ہائیکورٹ خطاب پر وہ واری صدقے جارہے تھے۔ ان کے لفظوں کا مزہ لیں۔ ” وکلاءنے اس خطاب میں ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کی شخصیات اور انداز کو بولتے دیکھا۔ انہوں نے بلاول کے انداز خطابت کو ان کی یادوں کا اظہار قرار دیا۔ ایسے لگتا تھا جیسے ماضی بلاول کے پیکر کی شکل میں ان کے سامنے کھڑا ہے۔“ عاصمہ جیلانی کے والد ملک غلام جیلانی، ایوب دور میں قومی اسمبلی کے ممبر تھے۔ انہوں نے باسٹھ کے آئین پر بحث کرتے ہوئے کہا تھا کہ حضور! آئین شائین چھوڑیں۔ سیدھی طرح اپنی بادشاہت کا اعلان کردیں۔ اگر بادشاہ ظالم ہوگا تو ہم جنگل میں جاکر دعا کریں گے کہ یا اللہ بادشاہ کا عہد ہم رودھوکر گزار لیں گے۔ ہمیں ولی عہد رحم دل عطا کرنا۔ لیکن اب سیاستدانوں کو اپنی بادشاہت کے باقاعدہ اعلان کی ضرورت نہیں پڑتی۔ انہیں ولی عہد مقرر کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ان کے ووٹر جانتے ہیں کہ وہ بادشاہ سلامت ہیں اور ان کا ولی عہد کون ہے۔ تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف کتنے خوش قسمت ہیں کہ انہیں عمران خان کی اپوزیشن ملی اور عمران خان بھی کتنے خوش نصیب کہ عوام کے پاس اور کوئی متبادل ہی نہیں۔ ایک واقعہ رشید امجد نے اپنی خود نوشت، عاشقی صبر طلب میں لکھا ہے پشاور میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر ” انجمن حقوق نسواں“ بنائی گئی۔ اس انجمن کا پیٹرن بنانے کیلئے بیگم نسیم ولی خاں سے رابطہ کیا گیا۔ اس پر وہ غصہ میں آگئیں اور بولیں ” کیا تم نہیں جانتی کہ ہماری قبائلی روایات عورتوں کی آزادی کے خلاف ہیں؟ اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی“۔ انہیں بتایا گیا کہ آپ بھی تو لیڈر ہیں۔ اور کھلے بندوں پھرتی ہیں۔ اس پر انہیں اور غصہ چڑھ گیا اور کہنے لگیں ” میری بات مت کرو۔ میں خان زادی ہوں۔“