چودھری نثار نے بہت گہری بات کی ہے کہ ہم نے بندوق کی جنگ جیت لی ہے اور نفسیاتی جنگ ہار گئے ہیں۔ ایک دوست نے اسے سیدھا سیدھا سیاسی جنگ کا نام دیا ہے۔ چودھری نثار سیاسی قیادت اور عسکری قیادت کے درمیان ہمیشہ ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان پر نوازشریف اور راحیل شریف اعتماد کرتے ہیں۔ شرفا کا معاملہ تو چودھری صاحب نے سازگار کر لیا ہے مگر کچھ شرارتی سیاستدان ماحول کو خوشگوار نہیں بنانے دیتے۔
چودھری نثار ایک ہیں اور پیپلز پارٹی والے سارے ان کے مقابلے میں اتر آئے ہیں۔ وہ اندر سے دونوں شریفوں کے خلاف ہیں۔ یہ بات چوھری نثار کی سنیں کہ ’’اینٹ سے اینٹ بجانے والے مجھے کنکریاں مارے ہیں۔ یہ لوگ دہشت گردوں کو تقویت دے رہے ہیں۔ ’’اک زرداری سب پر بھاری‘‘ کا نعرہ لگا کے ناچنے والے اب تھک گئے ہیں۔ اب تو ایک چودھری نثار ان سے سنبھالا نہیں جا رہا ہے۔ میری ان سے گزارش ہے کہ وہ سنبھلی ہوئی شخصیت والے چودھری نثار سے جیت نہیں سکتے نہ انہیں ہرا سکتے ہیں۔ وہ وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھڑکا کر گمراہ نہیں کر سکتے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کیلئے کوئی حکمران نہیں بولتا۔ چودھری نثار کے جرأت مندانہ بیانات پر عوام خوش ہیں اور ان کیلئے پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ چودھری نثار ہر نازک اور اہم معاملے میں دل کھول کر بات کرتے ہیں۔
جیالے اپنے وزیر داخلہ رحمان ملک کے معاملات کے آئینے میں چودھری نثار کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر انہیں ابھی تک معلوم نہیں کہ یہ آئینہ ٹوٹ چکا ہے۔ اب اس کی کرچیاں ہر طرف بکھیری جا رہی ہیں۔ ہر کرچی میں چہرہ نظر آتا ہے مگر یہ لوگ کسی اور کا چہرہ ہر کرچی میں دیکھ رہے ہیں۔ رانا تنویر کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں بیٹھی بدروحوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ہو گا۔ یہ خود بخود کسی انجام تک پہنچیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ خورشید شاہ کا اختلاف چودھری نثار کے ساتھ ذاتی ہے۔ انہوں نے ’’ذاتی‘‘ کی وضاحت نہیں کی۔ چودھری صاحب نے خورشید شاہ کی طرف سے ’’مراعات‘‘ لینے کی بات کی تھی۔ رانا تنویر نے کہا کہ خورشید شاہ کے خلاف پہلی گواہی میری ہو گی۔ جب شاہ صاحب وزیر تھے تو بہت کرپشن ان کے محکمے میں ہوئی تھی۔ میں نے کئی کالموں میں کراچی کو کرچی کرچی کراچی کہا ہے۔ ان کرچیوں کو جوڑ کر رینجرز اور پاک فوج دوبارہ ایک مکمل آئینہ بنا رہی ہے۔
عمران خان بھی بولے ہیں کہ نوازشریف نے خورشید شاہ کو خرید رکھا ہے۔ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ چودھری نثار ایچی سن کالج میں میرے ساتھ تھا۔ وہ سچ بولتا ہے۔ کبھی مصلحت کا شکار نہیں ہوتا۔ اسے مصالحت میں بھی دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ چودھری صاحب نے عمران خان کی تحریک انصاف میں آنے کی دعوت بھی ٹھکرا دی تھی۔ شکر ہے کہ چودھری صاحب نے عمران خان کو مسلم لیگ ن جائن کرنے کی دعوت نہیں دے دی۔ ورنہ دعوت عداوت میں بدل جاتی۔ اب بھی کچھ جیالے چودھری صاحب کیلئے تحریک انصاف میں جانے کی سازشیں زخمی پرندوں کی طرح اڑائی جا رہی ہیں۔
خورشید شاہ قومی اسمبلی میں رسمی طور پر اپوزیشن لیڈر ہے۔ اپوزیشن لیڈر تو عمران خان ہے۔ وہ حکومت میں آنے کے بعد بھی اپوزیشن لیڈر ہی رہے گا۔ خورشید شاہ تو اپوزیشن میں بھی ’’پوزیشن لیڈر‘‘ ہے؟
چودھری نثار کبھی لوٹا نہیں بنا۔ وہ پکا مسلم لیگی ہے۔ غالباً سعید غنی نے انہیں نالائق وزیر کہنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ میری صرف دو تین بار ملاقات چودھری صاحب سے ہوئی ہے۔ وزیر شذیر لوگوں سے میرا رابطہ نہیں ہوتا کہ یہ تعلق اکثر ’’واسطہ‘‘ میں بدل جاتا ہے۔ وہ ایک طاقتور دانشمندوقار اور حیا والا ایک لائق آدمی ہے۔ ایک شخص پرانے تعلق کا آدمی پرویز رشید ہے مگر تعلق کو نئی شکل دینا میرے لئے مشکل ہوتا ہے۔ پرویز رشید گارڈن کالج پنڈی میں پڑھتا تھا‘ میں پڑھاتا تھا۔ اس کی محبت ہے کہ وہ مجھے Sir کہتا ہے۔ میں نے اس کیلئے دوستانہ باتیں لکھیں کبھی کوئی مزاحیہ تعریف بھی ہو جاتی ہے۔ وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے جبکہ وہ کسی سے ناراض نہیں ہوتا۔ وہ سیاستدانوں جیسا ہو گا مگر میں صحافیوں جیسا نہیں ہوں۔
خورشید شاہ کہتا ہے کہ مراعات لینا ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دیں گے۔ مراعات اور مفادات کیلئے چند ایک کو چھوڑ کر کون سیاستدان مبتلا نہیں ہے اور کیا آج تک کسی نے سیاست چھوڑی ہے؟ ایک بات مجھے پریشان کرتی ہے کہ وہ شخص جو پاکستان کا صدر تھا۔ صرف سندھ میں کیوں سکڑ کر بیٹھ گیا ہے اور اب دبئی میں کیوں چھپ گیا ہے۔ آج کل امریکہ میں کیوں ہے۔ بلاول کو کیوں بلا لیا ہے؟ جیالے 20 نکات کیلئے تنقید کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک کو بھی سارے 20 نکات یاد نہ ہوں گے۔
مولا بخش چانڈیو کو کیسے معلوم ہوا کہ مسلم لیگ ن طالبان کی حمایت سے جیتی ہے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی طالبان کی مخالفت سے نہیں ہاری۔ وہ خود ہاری ہے بلکہ خودبخود ہاری ہے۔ سندھ میں کیسے جیتی ہے مگر کراچی میں ہار گئی ہے؟ سندھ حکومت کا مرکز کراچی میں ہے۔ چانڈیو صاحب کہتے ہیں کہ ہم پیپلز پارٹی کے تقدس میں جان دیں گے۔ وہ تقدس کے پورے معانی جانتے ہوتے تو یہ بات نہ کہتے۔ جان تو وطن عزیز کے تقدس میں دی جاتی ہے مگر اب تقدس رہ کہاں گیا ہے۔ سندھ والے جیالے کہاں جائیں؟
سینئر صحافی برادرم نواز رضا اور سجاد ترین نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ صورتحال سنگین ہے مگر چودھری نثار کا پلڑا بھاری ہے۔ چودھری نثار کی ملاقات پہلی بار نوازشریف کے ساتھ کچھ زیادہ لمبی ہو گئی ہے۔ چودھری نثار کو مسلم لیگ کا مخدوم امین فہیم بتایا جا رہا ہے۔ چودھری صاحب کے ساتھ اپنی پارٹی کی طرف سے سوتیلی ماں کا سلوک کیا جا رہا ہے۔ کسی مسلم لیگی اہم آدمی نے چودھری صاحب کا ساتھ نہیں دیا۔ مگر وہ اکیلا جیالوں اور متوالوں پر بہت بھاری ہے۔ ’’یہ بھاری‘‘ زرداری والے ’’بھاری‘‘ سے بالکل مختلف ہے۔ نواز رضا کے بقول یہ محاذ آرائی وفاق اور سندھ میں بدلی جا رہی ہے تو یہ خطرناک ہے؟
چودھری نثار کی یہ بات دلچسپ اور معنی خیز ہے کہ خورشید شاہ کے نام کے ساتھ سید آتا ہے تو انہیں جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔ تقریباً ہم سب جھوٹ بول رہے ہیں اور جھوٹ برائیوں کی جڑ ہے۔ میرے آقا و مولا محسن انسانیت رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جھوٹ بولنا بند کر دو۔ تم سب برائیوں سے بچ جاؤ گے۔
لگتا ہے کہ چودھری نثار خورشید شاہ سے بہت واقف ہیں۔ دو آدمیوں کیلئے پوچھا گیا کہ ان میں اصلی سید کون ہے۔ اس نے جواب دیا اس کے بارے میں تو مجھے یقین ہے کہ یہ میرے سامنے سید بنا ہے۔