علاﺅالدین خلجی اوربھارتی سینما

Feb 01, 2017

پڑوسی ملک بھارت سے ،پاکستا ن سمیت دنیا بھر کے فلم بینوں تک، یہ خبر پہنچی ہے کہ معروف بھارتی فلم سازاورہدایت کار ”سنجے لیلا بھنسالی“بھی ،انتہاپسندی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔اس خبر میں مثبت پہلو یہ ہے کہ صرف درگت بنی ہے،اوم پوری کی طرح جان سے نہیں گئے۔سنجے لیلابھنسالی ایک منجھے ہوئے فلم ساز ہیں،برصغیر کی تاریخ ،ان کا پسندیدہ موضوع ہے،لیکن کیا کیاجائے،وہاں کی اکثریت تاریخ سے نالاں ہے،کیونکہ مغل دور ان کی آنکھوں کو کھٹکتاہے۔اس تمام فضا کے باوجود ،سنجے تاریخ کے موضوع پر فلمیں بناتے رہتے ہیں،جن سے ان کو خاص مالی فائدہ بھی نہیں ہوتا،مگر وہ اپنے شوق کی تکمیل میں سرگرداں رہتے ہیں۔پوری دنیا میں،فلمی صنعت کے سنجیدہ حلقے بھی ان کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔ناپسندیدہ فلم بین اور انتہاپسند قوتیں بھی ،ان کی فلموں کو پسند نہ کریں ،مگر خاموش رہتی ہیں،مگر اس بار،بھارت کے شہر جے پور میں ،فلم کی عکس بندی کے دوران،سنجے پر ہونے والے حملے نے خاموشی روایت کو توڑ دیا،سنجے کے زخموں سے بہنے والے خون میں برصغیر اوربالخصوص مغل دور سے لگاﺅکی تڑپ بھی شامل ہے،جس کی وجہ سے وہ اس موضوع پر تواتر سے کام کرتے رہتے ہیں،لیکن اس بار بھارتی انتہاپسند قوتوں نے فلم مکمل ہونے سے پہلے ہی ، ان کو سبق سکھانے کا عزم کیا۔یہ حملہ درحقیقت سنجے پر نہیں ،اس موضوع پرتھا،جس پر فلم بنائی جارہی ہے۔اس فلم کا نام”پدماوتی“ ہے اورمرکزی کردار معروف تاریخی حکمراں اوردہلی پر راج پر کرنے والے”علاﺅالدین خلجی“کاہے۔یہ فلم ابھی عکس بند ہورہی ہے،کہانی سے بھی کسی کوپوری طرح واقفیت نہیں ،لیکن بھارتی انتہاپسندوں کے دل میں چور،انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا،وہ ایک طویل عرصے سے ،سنجے کے تاریخی شعور سے پریشان،موقع کی تلاش میں تھے،کیونکہ اس سے پہلے بھی سنجے برصغیر کی تاریخ کواپنی فلموں کاموضوع بناچکے ہیں،جس میں آخری کامیاب فلم”باجی راﺅ مستانی“ تھی۔اس کے علاوہ ہم دل دے چکے صنم،دیوداس سمیت کئی مقبول فلمیں بناچکے ہیں،جبکہ بلیک ،گزارش،خاموشی کی جیسی آرٹ سینما کے لوازمات کی حامل فلمیں بھی ان کے تخلیقی تسلسل کا منظرنامہ ہیں۔ظاہر ہے یہ پہلی مرتبہ نہیں ہواکہ کسی فلم ساز کواس کے کام سے روکاجائے،انتہاپسند قوتیں جہاں بھی ہوں،وہ سچ کا گلاگھونٹنے میں دیر نہیں لگاتیں ،تخلیق کاروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔یہ صورتحال صرف پاکستان یا بھارت تک محدود نہیں ،دنیابھرمیں تخلیق کار اس طرح کے رویوں کوسہتے ہیں۔امریکا جیسا ملک،جس کوجمہوری ملک ہونے کادعویٰ عظیم ہے،اس کے ہاں فلموں پر پابندی کی روایت بہت پرانی اورطویل ہے۔1915میں پہلی مرتبہ ”دی برتھ آف نیشن“نامی فلم پر پابندی لگائی،عہدموجود تک دودرجن سے بھی زائد فلمیں ہالی ووڈ کی اس روایت کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ان فلموںمیں 2008میں بننے والی ڈاکیومنٹری نما فلم”ہیلری“بھی شامل ہے،جس کو ڈی وی ڈی اورکیبلز نیٹ ورک پر ریلیز کیاجانا تھا، مگر اس فلم کی نمائش تاحال نہ ہوسکی۔2014کوہالی ووڈ میں بننے والی ایک”دی انٹرویو“کوشمالی کوریا نے اپنے ہاں ریلیز نہیں ہونے دیا،بلکہ وہاں کی سرکار نے فلم دیکھنے والے کو موت کی سزاکاعندیہ بھی سنایا،کیونکہ اس فلم میں شمالی کوریا میں رائج فوجی آمریت کی اندورنی کہانیوں کو انتہائی مہارت سے فلمایاگیاہے۔2012کوہالی ووڈ کی فلم”آرگو“کوایران میں ریلیز کی اجازت نہ ملی،مگروہ ڈی وی ڈی کی شکل میں لاتعداد فروخت ہوئی،اس فلم کاموضوع ،ایران میں انقلاب آنے کے تناظر میں مقید ہوجانے والے امریکی سفارت کاروں کے حقیقی واقعات ہیں۔اس فلم پر ایرانی حکومت نے سرکاری سطح پر بھی اپناردعمل دیا۔بھارت میں بھی متعدد فلموں کو پابندی کاسامناکرنا پڑا،ان فلموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔اکثر وہ فلمیں پابندی کاشکار ہوئیں،جن کوآرٹ فلمیں کہاجاتاہے،کئی ایک فلموں کو اپنے تاریخی موضوعات کی وجہ سے بھی پابندی کاسامنا کرنا پڑا۔انتہاپسند قوتیں کہیں کی بھی ہوں،صرف اپنی مرضی کاسچ سننا چاہتی ہیں۔بھارت میں ”جودھااکبر“جیسی فلم کو بھی کئی ریاستوں میں پابندی کاسامناہوا۔پاکستان میں گزشتہ برس”مالک“فلم بھی پابندی کاشکار ہوئی،بعد


میں عدالتی فیصلے کے ذریعے اس کی نمائش کوبحال کردیاگیا۔ماضی میں معروف پاکستانی فلمساز”جمیل دہلوی“جن کی بین الاقوامی شہرت بھی ہے،ان کی بنائی ہوئی کئی فلمیں پاکستان میں نمائش کے لیے پیش نہیں ہوسکیں،وجہ متنازعہ موضوعات تھے۔بھارت میں اوم پوری کی موت کے بعد بالی ووڈ میں سناٹا رہا،اکادکاآوازیں سنائی دیں،مگر سنجے لیلابھنسالی کے معاملے پر سب بلبلااٹھے ہیں۔یہ بالی ووڈ کی منافقت کا اعلیٰ درجہ ہے۔بے شک سنجے جیسے باصلاحیت فلم ساز کے ساتھ ایسا رویہ نہیں ہوناچاہیے تھا،ان کے تاریخی ادراک کے قائل ،دونوں ممالک کے فلم بین ہیں،مگربھارت کی انتہاپسند قوتیں سنجے کے تاریخی شعور پر وارکرنا چاہتی ہیں،اب نہ جانے ان پر حملے کے بعدعلاﺅالدین خلجی کے کردار اوردور پر بننے والی اس فلم”پدماوتی“کی صورت وہی رہے گی،جو تاریخ میں ہے،یااس کو مسخ کردیاجائے گا۔اب یہ امتحان سنجے لیلابھنسالی کاہے،وہ تمام نظریںان پر لگی ہوئی ہیں،جن کو سنجے کے تاریخی شعور کاادراک ہے،ان کافلم سازی سے سچا لگاﺅ اورانصاف سے کام کرنے کی خوبی مجسم ہے۔مستقبل قریب میں دیکھنا ہوگا، وہ انتہاپسندوں کی منشاکے ساتھ ہوں گے یاتاریخ کے ہمراہ۔پاکستان ہو یابھارت ،سچے فلم بینوں کواس فلم کی نمائش کاانتظاررہے گااوراس فیصلے کابھی،بھارت میں ہونے والی اس ثقافتی انتہاپسندی کی جنگ میں کون جیتا،سنجے لیلابھنسالی یا انتہاپسند قوتیں۔۔۔۔۔۔

مزیدخبریں