قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟

نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے ایک خصوصی

اجلاس میں کی جانے والی ایک تقریر۔

اب میَں اس موضوع کی طرف آتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کمرے میں جتنے بھی لوگ موجود ہوتے ہیں مجھے بغیر پوچھے ہوئے یہ علم ہے کہ نظریہ پاکستان کے حوالے سے بھی اور قائداعظم کے تصورِ پاکستان کے حوالے سے بھی اور ادارے کے حوالے سے یہاں آنے والے مہمانوں کی اور میزبانوں کی اور سب سے زیادہ سابق صدر پاکستان رفق تارڑ صاحب کی،جب یہ صدر نہیںبنے تھے میَں تب بھی انکے گھر میں بڑے پیار و محبت کے ساتھ جایا کرتا تھا۔ انہیںیاد ہوگا کہ یہ سپریم کورٹ سے ریٹائر ہو چکے تھے ہم ان کی باتیں سننے جاتے تھے۔ مجھے اب تک ان کا وہ گھر بھی یاد ہے۔ آپ سب مجھ سے زیادہ جانتے اور سمجھتے ہیں۔ لیکن ہر آدمی کا چیزوں کو جاننے اور سمجھنے کا ایک الگ طریقہ او رسلیقہ ہوتا ہے۔ جو میرا طریقہ اور سلیقہ ہے وہ یہ ہے۔ اتنی کثیر کتابیں اس موضوع پر لکھی جا چکی ہیں ابھی کچھ دن پہلے ہی محترم شاہدرشید صاحب نے مجھے دو کتابیں بھیجوائیں جس میں سرفرار مرزا صاحب کی ”تصورِ پاکستان “اور ایک مجید نظامی صاحب کی کتاب۔لیکن میَں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سارے واقعات اور اس سے بھی زیادہ آپ سب دوستوں کو معلوم ہیں۔میَں ایک خاص زاویئے سے اس پر روشنی ڈالنا چاہوں گا۔موٹی سی بات یہ ہے کہ جس وقت کہا جاتا تھا کہ برصغیر میں متحدہ ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔وہاں مسلمانوں کی ایک الگ ریاست بنانے کا خواب ،جس میں بہت سارے نام آتے ہیں جو کہ میَں نے بھی پڑھا ہے آپ نے بھی پڑھا ہوگا۔ جمال الدین افغانی کی تھیوری ہو، علامہ اقبال کا خطبہ الہٰ آباد ہو،خواہ چوہدری رحمت علی کی کتاب جو کہ انگریزی میں ہے ان کا پمفلٹ “Now or never”ہو۔ہر شخص نے کچھ نہ کچھ ضرور اس تصور میں حصہ ڈالا کہ ایک آزاد ریاست مسلمانوں کی بننی چاہئے۔ لیکن بنیادی طورپر سرسید احمد خان کی تحریک نے مسلمانوں میں خصوصی بیداری پیدا کی۔ میرے جیسا عام فہم رکھنے والا آدمی بھی یہ ضرور جان سکتا ہے کہ اس خواب کا تصور یہ تھا کہ مسلمانوں کی نہ صرف الگ ریاست قائم کی جائے بلکہ اس ریاست کو اسلامی فلاحی ریاست کا ایک ایسا ماڈل بنا کر دنیا کو پیش کرنا تھاکہ اگر ہمارے پا س حکومت آئے تو ہم نے کس طرح کا نظام حکومت قائم کرنا ہے۔اس میں گورنرننس کس طرح کرنی ہے اور اس میں کام کرنیوالے لوگ کس طرح کے ہوں گے؟ اسکے جج کس طرح کے ہونگے؟ اسکے آفیسرز کس طرح کے ہونگے؟ اسکے استاد کس طرح کے ہونگے؟ اس ریاست کا پولیس والا کس طرح کا ہو گا؟ اس ریاست کا تاجر کس طرح کا ہوگا؟ اس ریاست میں الیکشن کس طرح سے ہوا کریں گے؟ اصل بات یہ ہے کہ وہ تصور خواہ وہ جمہوریت کا ہو یا سیاست کا ہو۔ جس میں جی ایم سید جیسا شخص جو ایک زمانے میں تحریک پاکستان کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔ جب وہ قائداعظم کو یہ خط لکھتا ہے کہ ہماری اپنے مخالف امیدوار سے سودے بازی ہوچکی ہے۔ اسکے کچھ اخراجات ہوگئے ہیں۔ اگر وہ پیسے ہم اسے دے دیں۔جی۔ایم سید نے پیسوں کی وہ رقم بھی اپنے خط میں لکھی ہوئی ہے تو اس طرح ہم دوسرے امیدوار کے مقابلہ میں بڑی آسانی سے جیت سکتے ہیں۔کیونکہ اسکے ووٹ بھی ہمیں مل جائینگے۔تو اس کے جواب میںقائداعظم کا خط آج بھی موجود ہے ،دیکھا جاسکتا ہے۔ قائداعظم کا وہ خط انگریزی میں تھا جس کا ترجمہ یہ ہے: ”میَں یہ سیٹ ہارنا زیادہ پسند کروں گا۔ بہ نسبت اس کے کہ میَں یہ سیٹ خریدوں“یہ تھا قائداعظم کا جمہوریت کا تصور۔ اب اسکی روشنی میں جب سے پاکستان بنا ہے اتنے الیکشن ہوئے ہیں۔ ابھی حالیہ الیکشن 2013ءکا اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ موازنہ ہم خود کر سکتے ہیں۔ یہ سفر ہم نے کن مقاصد اور کن ارادوں کے تحت شروع کیا تھا۔ سفر ہم نے کہاں سے شروع کیا تھا اور پہنچے ہم کہاں ہیں؟ اس کا جائز ہ آپ از خود لگا سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے جب صرف پی ٹی وی ہی ہوا کرتا تھا اس وقت میَں نے ایک سال تک قائداعظم پر پروگرام کیا جو ایک سال تک دوپہر ایک بج کر پانچ سے ایک بج کر دس منٹ تک آن ایئر ہوتا رہا۔ پاکستان ٹیلی ویژن والوں سے بات کرکے پانچ منٹ تک کا وقت لیا اور یہ لکھ کر انہیں دیا کہ میَں بغیر کسی معاوضہ کے یہ پروگرام کروں گا۔میںاس پروگرام میں قائداعظم کی زندگی کا کوئی ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا کرتا تھا۔ ان پروگرامز کو اکٹھا کرکے میَں نے ایک نہایت خوبصورت کتاب مرتب کی کتاب کا نام ”قائداعظم کی زندگی کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات“ ہے۔ اس کتاب کے ہر واقعہ کے ساتھ حوالہ جات بھی درج ہیں۔کتاب کا تمام مواد مستند ہے۔ اس کتاب کی تیاری کے زمانے میں میَں نے بہت ساری کتابیں بھی پڑھیں۔ کسی تقریر میں قائداعظم کے الفاظ تھے جو ابھی میَں یہا ں دہرا دیتا ہوں۔ ”اگر میرے بنائے ہوئے پاکستان میں محروم کو چھت‘ غریب کو روٹی اور مظلوم کوانصاف نہیں ملتا تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے۔“
پچھلے دنوں میں ایک تقریب میں شریک تھا جو کہ C.P.N.E کی طر ف سے منعقد کی گئی تھی۔ جہاں تمام سیاسی جماعتوں کے ایک ایک فرد کو بلا کر اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں وہ پروگرام کروایا۔ اس کا اتفاقاً آج کل میَں صدر ہوں۔ ویسے تو ہرسال اس کے الیکشن ہوتے ہیں۔ پچھلے سال اسکے صدر مجیب الرحمنٰ شامی صاحب تھے۔ مجید نظامی صاحب بھی سی پی این ای کے صدر رہے۔ اس تقریب میں شکریہ کے الفاظ کے ساتھ میَں نے یہ کہا تھا کہ آپ جس بھی سیاسی جماعت سے ہیں۔ آپ کا جو بھی منشور ہے۔میَں نے قائداعظم کے یہ الفاظ دہرائے کیونکہ میرے پاس اس سے بڑی سند اور کوئی نہیں ہے۔ اور یہ کہا کہ آپ ایک بار چھوڑ کر دس بار الیکشن لڑیں۔ یہاں خاندانی بادشاہت اور جمہوریت کی بہت بحثیں ہوتی ہیں اس تقریب میں بھی یہی بحث ومباحثہ ہوا۔ میَں نے کہا کہ ایک جماعت جیتی ہے بسم اللہ آگے وہ سو سال جیتتی جائے۔ نہ میَں نے الیکشن لڑنا ہے نہ مجھے اس میں کوئی دلچپسی ہے اور نہ ہی میرا یہ فیلڈ ہے۔ لیکن میرا آپ سب سے یہ مطالبہ ہے کہ قائداعظم نے یہ جملے کہے تھے، یہاں آپ آٹھوں سیاسی جماعتوں کے آٹھ بہت معتبر لوگ موجود ہیں میَں آج آپ سب سے ایک شہری کی حیثیت سے یہ سوال کرتا ہوں کہ لا¶ مجھے وہ پاکستان دوجس کا قائداعظم نے وعدہ کیا تھا۔ میَں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی حوالے سے خواہ وہ قائداعظم کی کوئی بھی تقریر ہوجو انہوں نے اسمبلی میں کی ہو، خواہ وہ اپنی جماعت کے اراکین سے کی ہو، یا افسروں سے کی ہو، خواہ کسی جلسہ ِ عام سے کی ہو۔کسی بھی تقریر کا مسودہ پڑھ لیں۔ جناب عالی! قائداعظم نے زندگی کے ہر معاملے میں کچھ اصول متعین کرکے کچھ ہدایات دیں۔ ہم بدقسمت لوگ ہیں ،حتیٰ کہ کرنل قذافی جیسے بندے نے اپنے ہی ملک کےلئے گرین بک نکالی۔ یہ میَں اکثر سوچتا ہوں۔میَں کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہتا ،میَں تو اپنے آپ سے شروع کرتا ہوں کہ یہ میری جہالت ہے،یہ میری بد بختی ہے کہ میَں ایک ایسے ملک کا شہری ہوں جسکے نہ توطالب علموں کے پاس ایک ایسی بک ہے جس پر یہ لکھا ہو کہ قائداعظم نے طالب علموں کیلئے یہ فرمایا تھا کہ انہیں یہ کرنا چاہے‘ اور نہ کسی سرکاری دفتر میں کوئی ایسی گرین بک موجود ہے۔ جس میں یہ لکھا ہو کہ قائداعظم نے یہ فرمایا تھا کہ افسروں کو اس طرح سے کام کرنا چاہے۔ نہ ہی کسی اور شعبہ ِ زندگی میں قائداعظم کی تعلیمات موجود ہیں نہ ہی ہم نے انہیں کتابوں کی شکل میں محفوظ کیا۔ یہ ادارہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ غنیمت ہے جو مجھے گم اندھیروں میں روشنی کا ایک مینار نظر آتا ہے۔ اس ادارے کے تحت قائداعظم کی تعلیمات نئی نسل تک پہنچائی جارہی ہیں لیکن جب میَں اسلام آباد اس تقریب کے اختتام میں شکریہ ادا کر رہا تھا آٹھوں سیاسی جماعتوں کے رہنما¶ں کا‘ جو کہ بہت سینئر لوگ تھے۔ اس میں مولانا فضل الرحمان بھی موجود تھے۔ میَں نے ان سے یہ کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں اور جس طرح اقوام متحدہ کی بنائی ہوئی تجویز کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن مقبوضہ کشمیر بھیجا جائے جو آکر یہ بتائے کہ کیا واقعی وہاں ظلم ہو رہا ہے؟ کیا واقعتاً وہاں ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کا یہ کیا طرز ِ عمل ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اس کو کہتے ہیں جہاں کے حکمرانوں نے یہ کہا کہ ہم یہ فیکٹ فائنڈنگ کمیشن مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
مجھے مرحوم مجید نظامی صاحب کا ایک واقعہ یاد آگیا، جناب نواز شریف صاحب نے ایٹمی دھماکہ کرنے سے پہلے آخری میٹنگ ایڈیٹروں کے ساتھ ہی کی تھی۔اس میٹنگ میں آخری بات میَں نے کی تھی اور مجھ سے پہلے مجید نظامی صاحب نے کی تھی۔کیونکہ اسی ترتیب سے ہم بیٹھے ہوئے تھے۔جناب مجید نظامی صاحب نے بہت ہی شارٹ اور ٹو دی پوائنٹ وہ بات کی تھی۔انہوں نے کہا تھا کہ ”وزیراعظم صاحب اگر آپ نے دھماکہ نہ کیا تو یہ قوم آپ کا دھماکہ کردے گی۔“مجھے ان کے یہ الفاظ بھی یاد ہیں اسی میز پر بیٹھے ہوئے ایک دن مجید نظامی صاحب نے کہا تھا کہ میں پاکستان کے وزیراعظم سے بھی یہ کہتا ہوں اور پاکستان کے کمانڈر اِن چیف سے بھی۔ کہ آپ نے جو اتنی بڑی فوج بنائی ہوئی ہے۔وزیراعظم صاحب آپ نے اب ایٹمی دھماکہ بھی کرلیا ہے اور اب ایٹم بم بھی آپ کے پاس موجود ہے۔لیکن کشمیر پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے۔پھر انہوں نے پنجابی میں کہا مجھے اچھی طرح سے ان کے الفاط یا دہیں©: ” وزیراعظم صاحب تے کمانڈر اِن چیف صاحب سنو !ساڈا کشمیر لے کے دیو“ (ہمیں ہمارا کشمیر لے کر دو)”نہیں تے فیر ایویں کرو کہ میرے نال اک ایٹم بم بنھ کے مینوں اونا دے کسے ڈیم دے وچ سٹ دو۔“چونکہ انہوں نے ایک علامتی بات کی ،ایک استعارے میں بات کی،اونہاں نے ساڈاپانی وی بند کیتا ہویا وے تے او ڈیم وی بنائی جاندے پیئے نے“۔ میز کے اس سائیڈ پر مہ ناز رفیع صاحبہ بیٹھی ہوئیں تھیںاور بھی کچھ خواتین موجود تھیں۔اسی میز سے میَں نے کتنے لوگوں کے ہاتھ اٹھتے ہوئے دیکھے تھے۔جنہو ں نے ہاتھ ا±ٹھا کر یہ اظہار کیا اور کہا کہ ”جنا ب اسی وی تہاڈے نال جاواں گے۔“( ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں گے)۔
میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ اگر ہم ایٹمی طاقت بھی ہیں ابھی پچھلے دنوں مجھے ایک پروگرام اٹینڈ کرنے کا اتفاق ہوا۔جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب تھے انہوں نے ایک انٹرویو بھی دیا جو ایک اخبار میں شائع بھی ہوا۔کیونکہ ہم بھی ایٹمی طاقت ہیں اور بھارت بھی،اس لئے روس اور امریکہ کی طرح یہ لفظی بیان بازی ہوتی رہے گی یہ الفاظ جنا ب ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے تھے۔تب میَں نے ان سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب یہ تو بتائیں کہ چلیں بڑے پیمانے پر جنگ تو نہیں ہوگی۔لیکن کنٹرول لائن پر ہمارے معصوم بچے ،کھیتوں میں کام کرتے مزدور مر د وخواتین پرروزانہ انڈیا حملے کررہا ہے ،بڑی معذرت کے ساتھ ہمارے خواہ فوجی قائدین ہوں یا سیاسی ہوں۔یہی کہتے ہیں کہ بھارت نے حملہ کیا اتنے لوگ ہمارے شہید ہوگئے اور آخری جملہ یہ کہتے ہیں کہ پھر ہماری فوج نے مقابلہ کیا اور دشمن کو مار بھگایا۔یہ کس طرح کا مار بھگانا ہے کہ وہ تیسرے دن پھر سے آجاتے ہیں۔اور معاف کیجئے گا کہ اگر ہم واقعی ایٹمی قوت ہیں اور انڈیا کے مقابلے میں ہماری ماشاءاللہ ایٹمی ٹیکنالوجی اس سے بھی آگے ہے اور ہم کسی بھی اعتبا ر سے کمزور بھی نہیں ہیں۔پچھلے دنوں میرے ٹی وی پروگرام میںوزارتِ خارجہ کو لائن پر لیا ہوا تھا۔میرے وہ جاننے والے ہیں دوست ہیں میری ان سے کوئی ناراضگی نہیں ہے۔وہ ایک اچھے افسر ہیں۔لیکن میَں نے ان سے کہا انڈیا کے مقابلے میں ہماری وزارتِ خارجہ بڑی ڈھیلی سی بولتی ہے۔بالکل ایسے بات کرتی ہے جیسے کوئی معذرت خواہانہ انداز ہو۔میَں نے کہا کہ آپ ذرا تگڑے ہو کر بات کیا کریں۔میَں محترم سرتاج عزیز صاحب کی بڑی عزت کرتا ہوں۔جناب صدر محترم رفیق تارڑ صاحب جانتے ہوں گے کہ پاکستان موومنٹ میں انہوں نے بطور ایک ورکر کے بھی حصہ لیا تھا۔ٹی وی کے میرے اپنے ہی ایک پروگرام میںسرتاج عزیزصاحب سے اسی بات پر تلخ کلامی ہوئی۔میَں نے انہیں کہا کہ جی عمر سے کچھ نہیں ہوتا ہمت اور ارادے سے بات ہوتی ہے۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ کی عمر زیادہ ہے اس لئے آپ کو ہٹا دینا چاہئے میں اس سے بالکل متفق نہیں ہوں۔بات صرف یہ ہے کہ جذبہ جوان ہونا چاہے۔میَں نے کہا کہ سرتاج عزیز صاحب !آپ توجب بات بھی کرتے ہیں تو اتنے سہمے ہوئے پہلے سے ہی لگ رہے ہوتے ہیںکہ ہمار ااپنا حوصلہ ختم ہوجاتا ہے۔آپ تگڑے ہو کر بات کریں نہ تو ہم کمزور ہیں ‘نہ ہماری فوجی استطاعت کم ہے۔تو پھر ہم ان سے اتنے معذرت خواہانہ اندازمیں کیوں بات کرتے ہیں؟مجھے اس بات کا یقین ہے اور جناب رفیق تارڑ صاحب ،میَں پوری نیک نیتی کے ساتھ یہ بات کہتا ہوںآج اگر مجید نظامی صاحب زندہوتے تو آپ تصور کریں کہ پچھلے تین مہینوں میں ان کی سٹیٹ منٹس کیا ہوتیں۔اور وہ انہی حکمرانوں اور انہی وزارتِ خارجہ کے افسروں کو ،انہی سرتاج عزیز صاحب سے ،چونکہ ان کی سرتاج عزیز صاحب سے بہت دوستی تھی۔وہ کن الفاظ میں مخاطب ہوتے،میں بالکل اس کا تصور کرسکتا ہوں۔اور اگر آپ مجھے حکم دیں کہ جیسے کسی فلم کا سکرپٹ لکھتے ہیں اس طرح ایک سکرپٹ لکھ دو تو میَں ادھر ہی بیٹھ کر لکھ دو ںگا کہ مجیدنظامی صاحب سرتاج عزیز کو یہ کہہ رہے ہیں۔مجید نظامی صاحب سربراہ افواج ِ پاکستان سے کیا بات کررہے ہیں؟وزیراعظم صاحب سے کیا مطالبہ کررہے ہیں؟یہ ادارہ بہت اچھاکام کررہا ہے۔مجھے ایک چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے۔نظامی کی طرح کو ئی کڑک دار ،کوئی تگڑی کوئی ہمت والی،کوئی ان جیسی مضبوط آواز بھی یہاں سے اٹھنا چاہیے۔
میَں تو نظامی صاحب کا بہت معمولی سا شاگرد ہوں۔اس ادارے کا کام صرف اتنا ہی نہیں ہونا چاہے کہ ہم لوگوں کو تحریک پاکستان کے متعلق بتائیں۔ہمارا کام یہ بھی ہونا چاہے کہ ہم پاکستان کو انڈیا کے مقابلے میں جب بھی جس بھی جگہ خواہ وہ لفظی جنگ ہو،خواہ وہ ہتھیار کی جنگ ہو،خواہ بارڈر پر جنگ ہو،اور سب سے بڑی بات یہ ہے،ملیحہ لودھی وہ ہماری کولیگ ہیں جب وہ پہلی بار ”دی مسلم“ کی ایڈیٹر بنیں تو میَں وہ پہلا بندہ تھا جو انہیں مبارک باد دینے گیا آپ مشاہد کی جگہ ایڈیٹر بن گئی ہو بڑی خوشی کی بات ہے کہ انگریزی اخبار کی ایڈیٹر ایک خاتون بن گئی ہے۔بعد میں وہ امریکہ میں سفیر بھی رہیں۔ میَں ا ن سے ملتا بھی رہا۔لیکن یہ بات میَں بڑی درد مندی سے کہنا چاہتا ہوں کہ قائداعظم کے تصور پاکستان کو ہر ہر شعبے میں اس طرح سے دیکھنا پڑے گا کہ انہوں نے اس حوالہ سے کیا فرمایا تھا اور آج کیا پوزیشن ہے۔اگر ان دونو ں کو ہم آج آپس میں ملاتے نہیں ہیں تو جس طرح کی دو کتابیں میں کل لےکر گیا تھا جو کہ بہت اچھی کتابیں ہیں۔لیکن یوں تو کتابیں کتابوں میں رہیں گی اور کتابوں کے الفاظ کتابوں کے اندر ہی رہیں گے، ہماری حکومت یا ہمارا معاشرہ جس طرح سے سب کررہے ہیں۔ یہ سب اسی طرح کرتے رہیں گے۔آخر میں جس موضوع کی جانب میَں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔چونکہ مجھے خود اس بات کا شوق تھا کہ قائداعظم پر ایک اچھی فلم بنائی جائے۔ نظامی صاحب نے مجھے ہمیشہ کہا کہ آپ تیاری کرےںاور کوئی پلان بنائیں۔ چنانچہ میری آخری ملاقات ان سے ہوئی جب میَں انکے پاس فائل لے کر گیا۔انکے ارشادات کے مطابق میَں امجد اسلام امجد صاحب کے پاس گیا۔میں نے بہت سارے دوستوں سے مشورہ کرکے ان کا نام تجویز کیا ہے۔اور واقعات آپکے ادارے کے جو محققین ہیں انکی جانب سے فراہم کئے جائینگے۔اور سکرپٹ امجد اسلام امجد لکھیں گے۔اسکے بعد چار پانچ ماہرین سے ہم اس سکرپٹ کو دیکھنے کو کہیں گے تاکہ اس میں کوئی تاریخی غلطی نہ ہو۔نظامی صاحب نے مجھے بہت حوصلہ دلایا۔جب فلم ”جناح“ اکبر ایس احمد کی جو بنی تھی۔وہ ایک معذرت خواہانہ فلم تھی۔اس کا سٹائل یہ تھا کہ ایک اینجل یا کچھ بھی انہوں نے ششی کپور کی شکل میں بنایا ہوا تھا وہ آتا ہے اور وہ قائداعظم پر باری باری اعتراض کرتا ہے۔وہ یہ کہتا ہے کہ مسٹر جناح آپ کے اس ایک فیصلے کی وجہ سے کتنے لوگ نقل مکانی کرگئے۔اتنا خون بہا،اتنا فساد ہوا۔آپ اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟اب قائداعظم اس کاجواب دیتے ہیں۔وہ ساری فلم بی بی سی کے ایک رائٹر نے لکھی تھی۔وہ اکبر ایس احمد نے اپنی جانب سے مغرب کو جواب دینے کی کوشش کی تھی کہ آپکے جو اعتراضات ہم پر ہیں ہمارا لیڈر اسکے جواب دیتا ہے۔وہ یوں تھا معاف کیجئے گا معاف کیجئے گا معاف کیجئے گا۔حجازی صاحب ! آپ نے بھی یہ فلم دیکھی ہوگی اور رفیق تارڑ صاحب آپ ہمارے ملک کے صدر رہے ہیں۔ ....(جاری) .... (بشکریہ ضیاءشاہد)

ای پیپر دی نیشن