آج کل صحافت کے میدان میں بھونچال آیا ہوا ہے۔ صحافیوں میں واضح تقسیم نظر آ رہی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے عرصہ دراز سے پاکستان میں زرد صحافت، لفافہ صحافت اور کمرشل صحافت ہوتی چلی آ رہی ہے کہ اچانک ڈاکٹر شاہد مسعود نے قصور میں زینب کے قتل اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور شدید ہنگاموں اور مبینہ مجرم عمران علی کی گرفتاری نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا یقیناً پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ اس زیادتی کے مرتکب فرد یا افراد کو عبرت کا نمونہ بنا دیا جائے اگر یہ سیدھا سادا زیادتی اور قتل کا معاملہ ہوتا تو معاشرے میں یہ بھونچال نہ آتا اس سے پہلے بھی قصور میں200 بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ ان کی ویڈیو فلمیں بنائی گئیں لیکن ذمہ دار لوگوں کو قانون کے شکنجے میں نہیں لایا گیا چند روز شور مچا پھر معاملے کو رفع دفع کر دیا گیا۔ جو اس زیادتی کے ذمے دار تھے وہ آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں اگر اس وقت اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو قصور میں زینب اور دیگر 12 بچیوں کے ساتھ جو زیادتی اور ظلم ہوا وہ نہ ہوتا۔ شہر شہر سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ بچوں کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود سینئر تجزیہ نگار ہیں اور ان کے نشر کردہ پروگراموں میں معاشرتی اور سیاسی مسائل پر سنجیدگی سے گفتگو کی جاتی ہے۔ پچھلے دنوں وہ 10/15 روز کے لیے ملک سے باہر رہے لیکن ان کا پروگرام مسلسل نشر ہوتا رہا وہ کس مشن پر باہر گئے تھے اور کیا کچھ انہوں نے دیکھا اور سنا وہ سب انشاء اللہ JIT کے سامنے آ جائے گا۔ ابھی تو چند سوالات کا جواب بھی سامنے نہیں آیا ہے۔
1۔کہتے ہیںکہ زینب کے ساتھ چار لوگوں نے زیادتی کی جبکہ ابھی تک صرف ایک مبینہ عمران علی گرفت میں آیا ہے۔ اگر واقعی زیادتی کے مرتکب چار آدمی ہیں تو باقی تین کہاں ہیں؟
2۔یہ کیسے ممکن ہے کہ باقی تین کے بارے میں عمران کو پتہ تک نہیں؟ کیا وجہ ہے کہ پولیس نے ابھی تک سختی کے ساتھ پریس سے دور رکھا ہوا ہے؟
3۔کیا وجہ ہے کہ ملزم کو جلد از جلد پھانسی دینے کی جلدی ہے؟ وزیراعلیٰ نے پولیس کی اعلیٰ کارکردگی کو بنیاد بنا کر فوری طور پر انہیں ایک کروڑ روپیہ تقسیم کر دیا ہے۔ یہ جلدی سمجھ سے بالاتر ہے!
4۔اگر ایمان کا قاتل بھی یہی تھا تو جس جوان کو پولیس مقابلے میں مارا گیا اور فائل کا پیٹ بھر دیا گیا۔ اس کے ذمہ داروں کا کیا بنا۔ اس بے گناہ انسان اور اس کے خاندان کو کس جرم کی سزا ملی کہ محلہ والوں نے اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی۔
ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کے واپس آنے کے بعد انہوں نے اپنے ایک پروگرام میں زینب کے قاتل کے حوالے سے تہلکہ خیز انکشافات کئے اور پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب سے استدعا کی کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں اگلے ہی روز چیف جسٹس آف پاکستان نے اس معاملے کا نوٹس لے لیا لیکن دوسری طرف ڈاکٹر صاحب کے پروگرام کے نشر ہونے کے بعد مختلف اینکرز اور تجزیہ نگاروں نے ڈاکٹر صاحب کے خلاف ہنگامہ کھڑاکردیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے اٹھائے گئے سوالات پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی اب اسے مفادات کہیں یا حسد یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک سنگین مسئلے پر جو ذہنی طور پر قوم کے لیے عذاب بنا ہوا ہے صحافی برادری کے ایک سینئر تجزیہ نگار کو جھوٹا ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے اور اسے معافی مانگنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے تمام متعلقہ لوگوںکو اتوار کے روز لاہور رجسٹری میں طلب کیا اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے JIT بنانے کا دُرست فیصلہ کیا یقینی طور پر کوئی بھی محب وطن اس بات سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ جن سنگین الزامات کا ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں ذکر کیاہے انہیں سنجیدگی سے نہ لیا جائے ؟ جن عوامل کا ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا ہے اگر درست ہیں تو اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان کا تفصیلی جائزہ لیا جائے پاکستان کے موجودہ حالات میں ہر بات کو ہنسی مذاق میں اڑا کر سینئر تجزیہ نگار کی سنجیدہ گفتگو کو مذاق بنانے کا یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے ہم امید کرتے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ سینئر اور جونیئر صحافی حضرت اور اینکرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے عدالت اور JIT سے تعاون کریں اور چند روز صبرکر لیں، تحقیق کو مکمل ہونے دیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔