گوادر بندرگاہ اور چینلجز

Feb 01, 2018

رابعہ رحمن

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ دنوں گوادر میں پہلی صنعتی نمائش2018کا افتتاح کیا جس میں بہت سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں نے شرکت کی ۔گوادر بندر گاہ کی تعمیر اور CPECکی تکمیل کے سلسلے میں یہ ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے کیو نکہ یہ دونوں منصوبے اب ایک حقیقت ہیں۔پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال قدرت کا ایک حسین تحفہ ہے ۔دنیاکے بہت کم ممالک اس طرح کی نعمتوں سے آراستہ ہوں گے ۔ ان نعمتوں میںمعدنیات ، ہر قسم کے موسم ،زرخیز زمین ،قدرتی حسن ،محنت کش اور باصلاحیت افرادی قوت اور انتہائی اہم محلِ وقوع شامل ہیں ،ان نعمتوں کا صحیح استعمال اور قدر کرنا ہمارا اہم کام ہے جو بد قسمتی سے ابتک ہم نہیں کرسکے ۔ایک عام تاثر یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے لیکر آج تک تقریباََ 70سال میں ہم نے بحیثیت قوم اپنی صلاحیتوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا جو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہیں۔ اس کا صحیح استعمال کر کے ہم دنیا کیلئے ایک مثال بن سکتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کے بہت سارے شعبوں میں ہم نے شاندار کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں مگر اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ایسا نہ کر سکنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خلوص نیت کی کمی ،قیادت کی ناکامی اور دوراندیشی سے ماوراپالیسیز قراردی جاسکتی ہیں۔آج کے دورمیں معیشت کو اتنی اہمیت حاصل ہو چکی ہے کہ اسکی ترقی کے بغیر سلامتی کا تحفظ بھی ممکن نہیں رہا۔ معیشت کی بہتری کیلئے تجارت کا فروغ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ باہمی تجارت کے فروغ میں آبی گذرگاہیں اور انکا موثر استعمال ایک اہم عنصر ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہمیں صرف کراچی ہی ایک واحد بندرگاہ ملی اور ہم نے کوئی دوسری بندرگابنانے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ صوبہ بلوچستان کا اہم ساحلی شہر گوادر ایک ایسی جگہ ہے جسے developکر کے ایک باقاعدہ بندر گاہ بنایا جا سکتا ہے جو کہ نہ صرف کراچی کا نعم البدل ہے بلکہ استعمال کے لحاظ سے کراچی سے کہیں کارآمد اور سود مند بھی ہے۔ ماضی کی تمام حکومتوں نے دعوے، وعدے اور زبانی جمع خرچ تو بہت کیا مگر عملاََ کچھ بھی نہیں کیا نتیجتاً ہم آج بھی ایک دوسری بندرگاہ سے محروم ہیں۔ 2000کے عشرہ میں گوادر کی بندر گاہ کو developکرنے کیلئے ایک چینی کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا مگر بوجوہ کام بہت سست روی کا شکار رہا پھر2013کے اوائل میں گوادر کی بندرگاہ کا نظم و نسق ایک معاہدے کے ذریعے باقاعدہ چین کی ایک کمپنی کو دے دیا گیا جس سے یہ امید پیدا ہوئی کہ اب شاید گوادر کو ایک باقاعدہ بندر گاہ بنانے کا خواب پورا ہو سکے۔ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں گوادر کی بندر گاہ پہلے ہی اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبہ جس کی کل لاگت کا تخمینہ 46ارب ڈالر ہے ہمارے ملک کی تقدیر بدل دے گا۔ گوادر بندر گاہ کی تعمیر منصوبے کا سب سے اہم حصہ ہے ۔ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف ہماری معیشت میں انقلاب برپا ہو جائے گا بلکہ وسطی ایشیا اور خلیج میں چین کا عمل دخل بھی بڑھ جائیگا۔ ایک اندازے کے مطابق ان وسطی ایشائی ممالک میں تیل کے 200بلین بیرل سے زائد اور گیس کے 230ٹریلین مکعب فٹ سے زائد کے وسائل موجود ہیں جن کا استعمال ممکن ہو سکے گا۔ مزید برآں روس بھی اس راہداری سے مستفید ہو سکے گا۔ چونکہ اس ساری ترقی کا براہِ راست فائدہ پاکستان کو پہنچے گا جو کہ ہمارے دشمن قطعاً برداشت نہیں کر سکتے لہٰذا ان کی ہر وقت یہ کوشش ہے کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے کبھی پاکستان کے اندردہشت گردی کے ذریعے صورتحال کو غیر یقینی بنایا جاتا ہے تو کبھی بلوچستان کے حالات کو خراب کرنے کیلئے وہاں شورش کو ہوا دی جاتی ہے۔ اس تمام عمل میں ہندوستان کا بنیادی کردار ہے جبکہ اپنے مفادات کی خاطر ہمارے چند دوسرے ہمسائے ممالک بھی بلا واسطہ طور پر اس میں شامل ہیں۔ ایران کے ساتھ ہندوستان کا دفاعی معاہدہ ہے جبکہ ہندستان ایرانی بندر گاہوں چاہ بہادر اور بندر عباس کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔تاکہ بین الاقوامی پابندیاں اٹھنے کے بعد تیل و گیس کو خطے کے دوسرے ممالک اور پوری دنیا تک پہنچایا جائے،گوادر بندر گا ہ کی تعمیر اور قابل عمل ہونے کے بعد ان ایرانی بندرگاہ کی اہمیت کم ہو جائیگی، اسی طرح کے خدشات اور صورتحال عمان اور دوبئی کو بھی درپیش ہیں لہٰذا وہ بھی گوادر بندرگاہ کی تعمیر سے خوش نہیں، افغانستان میں بڑھتی ہوئی ہندوستانی مداخلت کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہمارے ہمسائے میں حالات اور جذبات کو ہمارے خلاف کیا جائے۔ اقتصادی راہداری اور گوادر بندرگاہ کی تعمیر سے چونکہ امریکہ کے معاشی اور تزویراتی مقاصد پر بھی اثر پڑتا ہے اس لئے وہ بھی درپردہ اس طرح کی تمام کاوشوں کو ہوا دیتا ہے جو خطے میں بالمعموم اور پاکستان میں بالخصوص صورتحال کو غیریقینی رکھیں۔ اس تمام تناظر میں بحیثیت قوم ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں ہمیں اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنے چاہئیں تاکہ نہ صرف خطرات کا ادراک کر سکیں بلکہ ان سے نمٹنے کیلئے بھرپور تیاری بھی کرسکیں، ہماری حکومت کی اولین ترجیح یہی ہونی چاہئے کہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ جلد سے جلد مکمل ہو اور گوادر بندرگاہ کو بلاتاخیر قابل عمل کیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنانے میں بہت سے دوسرے اقدامات کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حالات کا ٹھیک ہونا سب سے ضروری ہے کیونکہ ایسا کئے بغیر اقتصادی راہداری کا منصوبہ قابل عمل نہیں ہوسکتا۔ بلوچستان کے عوام کو ہر لحاظ سے مطمئن کرنا ضروری ہے کہ یہ منصوبہ ان کی زندگیاں بدل دیگا، ان کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر اورFunctionalہونے کے بعد مقامی آبادی کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے جوکہ بالکل حق اور حقیقت پر مبنی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس سلسلے میں مقامی قیادت اور عوام کو اعتماد میں لے کر فوری اقدامات کئے جائیں اور جہاں ضروری ہو قانون سازی بھی کی جائے تاکہ نہ صرف خدشات کم ہوں بلکہ عوامی اعتماد میں بھی اضافہ ہو۔ پاک فوج کی طرف سے اقتصادی راہداری منصوبے کی جلد از جلد تکمیل کیلئے حکومت کی ہرممکن مدد کے عزم کا مسلسل اظہار یقیناً بہت سے خدشات کو ختم کر دیگا۔حکومت کو بالخصوص اور پوری قوم کو بالعموم پوری یکسوئی کیساتھ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ دشمن کی تمام کوششوں کے باوجود گوادر بندرگاہ کو جلد از جلد مکمل کرکے قابل عمل بنایا جائے، یہ نہ صرف ہماری اقتصادی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی بلکہ قومی وحدت اور یکجہتی کی علامت بھی ہوگی۔ اب ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ زبانی دعوئوں سے زیادہ نیک نیتی سے عملی اقدامات کئے جائیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گوادر اور بلوچستان میں جاری دوسرے میگا پراجیکٹ اس وقت تک مکمل اور قابل عمل نہیں ہوسکتے جب تک ہر لحاظ سے اس صوبے کے حالات ٹھیک نہیں ہوتے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں بجاطور پر بلوچستان کی سیاسی قیادت کو اپنی ذمہ داریاں سجھنے اور سنبھالنے پر زور دیا ہے۔ حال ہی میں ہونے والی غیر معمولی سیاسی تبدیلی جیسے واقعات سے یقیناً عدم استحکام کو تقویت ملتی ہے لہٰذا تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنے سیاسی اور گروہی مفادات سے آگے بڑھ کر ملکی مفادات کیلئے سوچنا ہوگا۔ افواجِ پاکستان کا منشاء اور مقصد بھی اسی کوشش کو سراہنا ہے اور ان کے تعاون سے انشاء اللہ ہم جلد اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔

مزیدخبریں