مردِ اوّل

آصف علی زرداری جیل سے چھوٹے‘ حلف اٹھایا اور وزیر بن گئے‘ اس پر صحافی نے پوچھا: ’’کیسا لگ رہا ہے؟‘‘

وہ تقریب بڑی خاص الخاص تھی۔ مرکزی مقام پر شہزادہ سعود الفیصل‘ سردار محمد عبدالقیوم خان‘ اسلامی کانفرنس تنظیم کے سیکرٹری جنرل حامد الغابد اور دیگر معزز مہمانان گرامی تشریف فرما تھے‘ ان میں ایک آصف علی زرداری بھی تھے جو صوفے پر تقریباً نیم دراز تھے‘ میزبان اور مہمان دونوں نے ہی موقع کی مناسبت سے لباس زیب تن کر رکھے تھے لیکن آصف زرداری ان سب سے جدا دو گھوڑا بوسکی کے کرتے میں جچ رہے تھے۔ دوران گفتگو وہ اپنی سیدھی ٹانگوں کو حرکت دیتے تو ان کے پاؤں میں پڑا ہوا زری کھسہ نمایاں ہو جاتا۔ صحافی قریب آئے تو نیم باز آنکھوں سے انہوں نے صورت حال کا جائزہ لیا اور چہکنے لگے۔ ان سے اردو میں سوال کیا جاتا‘ وہ پنجابی میں جواب دیتے اور وہ بھی بہ زبان شاعری۔ جیل کے ایام و اسباب اسیری پر بات ہوئی تو انہوں نے پنجابی کے بے مثل شاعر میاں محمد بخش کے اس مصرعے کا سہارا لیا۔
کِکر تے انگور چڑھایا تے ہر گچھا زخمایا
جیل سے نکل کر سیدھے ایوان اقتدار میں جا پہنچنے کے بارے میں سوال ہوا تو وہ کھل اٹھے اور انہوں نے اپنے مخصوص جانے پہچانے انداز میں قہقہہ لگایا جس پر سردار قیوم جو قریب ہی بیٹھے سنجیدگی کے ساتھ مہمانوں سے بات چیت میں مصروف تھے‘ مزید سنجیدہ ہو گئے۔ شہزادہ سعود الفیصل سر جھکائے بیٹھے تھے‘ وہ بھی چونکے‘ نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا پھر نگاہیں جھکا لیں۔ ان مناظر سے بے نیاز آصف زرداری نے جواب کے لئے ایک مشہور فلمی گیت کا ٹکڑا منتخب کیا:
ویکھی جا مولا دے رنگ
ذات باری تعالیٰ کے رنگوں سے کسی کا کیا مقابلہ مگر زرداری صاحب کی اپنی شخصیت بڑی رنگا رنگ ہے۔ یہی تو وہ رنگ ہے جس کی چمک سے بے نظیر بھٹو کی آنکھیں خیرہ ہوئیں۔ محترمہ لندن میں ایک بار علیل ہو گئیں‘ پیپلز پارٹی کے رہنما اور جیالے آتے اور حال احوال پوچھ کر چلے جاتے۔ آصف زرداری ان سب سے مختلف نکلے‘ وہ آئے‘ بے نظیر کو کلائی سے پکڑا اور کہا:
’’چل بی بی‘ تجھے دوا دلوا لائیں‘‘۔
اور بے نظیر اٹھ کر تقریباً بھاگتی ہوئی انکے ساتھ گاڑی میں جا بیٹھیں۔ بے نظیر جیالوں کے دلوں پر راج کرتی تھیں لیکن انکے ساتھ بے تکلفی کی جرأت کوئی نہ کر سکتا تھا۔ یہ کام آصف زرداری نے کیا اور اس مشکل خاتون کا دل جیت لیا۔ یہ رشتہ کیسے جڑا؟ اسکے بارے میں بہت سی کہانیاں لوگوں کی زبان پر آئیں‘ سردار شیر باز خان مزاری نے ایک بار انتہائی خفگی کے ساتھ اس معاملے کا ذکر کیا اور اس ’’بے جوڑ‘‘ رشتے کی تمام تر ذمہ داری بیگم نصرت بھٹو پر ڈال دی‘ حالانکہ اس بارے میں ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے بے نظیر کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا تھا۔اس جوڑے کی نسبت طے ہو گئی تو ان دونوں کے درمیان ناز و انداز اور فرمائشوں کا سلسلہ بھی چلا۔ روایت ہے کہ کراچی میں آصف علی زرداری کے گھر میں ایک ڈانسنگ فلور تھا‘ بے نظیر کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے فرمائش کی کہ اسے منہدم کر دیا جائے۔ آصف نے اپنی منگیتر کی خواہش پوری کرنے میں دیر نہ لگائی‘ اخبار میں یہ خبر بڑے اہتمام سے شائع کرائی گئی۔بے نظیر جیسی طرح دار خاتون سے شادی آصف زرداری کی زندگی کی دو بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے لیکن اس شادی کے بعد انہوں نے زیادہ سکھ نہیں پایا‘ وزیراعظم کے شوہر کی حیثیت سے اگرچہ انہوں نے اقتدار کے خوب مزے لوٹے لیکن جیسے ہی وہ اقتدار سے محروم ہوتیں‘ بعض گفتنی اور ناگفتنی الزامات کی پاداش میں جیل ان کا ٹھکانا بنتی۔ ان کا بہترین زمانہ بے نظیر کی شہادت کے بعد شروع ہوتا ہے جب صدر مملکت کی حیثیت سے وہ اپنے سیاسی کیریئر کے عروج پر جا پہنچے۔
بے نظیر بھٹو کے چہلم کے موقع پر ساری دنیا کی نظریں نوڈیرو ہاؤس پر لگی ہوئی تھیں‘ چند ہفتے قبل جس کے اینٹوں والے وسیع فرش پر سیاہ پرچم تلے بیٹھ کر انہوں نے ’’پاکستان نہ کھپے‘‘ کا خواب دیکھنے والوں کو شٹ اپ کال دینے کے بعد پارٹی قیادت سنبھالی تھی۔ عام طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما کسی کے قابو میں ہوتے ہیں اور نہ کارکن لیکن قیادت جیسے ہی آصف علی زرداری کے ہاتھ میں آئی‘ صورت حال بدل گئی۔ صفدر عباسی اور ان ہی کے قد کاٹھ کے رہنماؤں کو ٹیلی ویژن پروگرام تک میں شرکت کے لئے ان سے اجازت لینی پڑتی۔ یہ ایک بالکل مختلف پیپلز پارٹی تھی جسے سمجھنے میں خود پیپلز پارٹی والوں کو کچھ وقت لگا لیکن جب ایک بار بات سمجھ میں آ گئی تو لوگوں کی اکثریت نے نئے دور کے نئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونے میں دیر نہ لگائی۔
مخدوم امین فہیم پیپلز پارٹی کے غلام مصطفی جتوئی تھے یعنی بھٹو خاندان جب جب عدم دستیاب ہوا‘ مخدوم صاحب جتوئی صاحب کی طرح مشکل وقت میں کام آئے اور مشکلات کے باوجود جبر ناروا سے انہوں نے کبھی مفاہمت نہیں کی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد لوگوں کا انداز فکر غلط نہ تھا کہ اب مخدوم صاحب کو اپنی محنت کا صلہ ملے گا۔ نوڈیرو سے گڑھی خدا بخش بھٹو جاتے ہوئے یہی بات میں نے محمد علی بھٹو سے پوچھی۔ محمد علی بھٹو نے ایک پیچیدہ موڑ مڑنے کے بعد مخالف سمت سے آنیوالی گاڑی سے اپنی گاڑی کو چابک دستی سے بچایا اور گاڑی کو اچانک بریک لگا دیئے پھر رخ پلٹ کر مسکراتے ہوئے کہا:
’’پھر ہم پنجاب کو مطمئن کیسے کریں گے؟‘‘
محمد علی بھٹو نے اتنا کہہ کر لب سی لئے۔ ان کی گفتگو سے اندازہ تو ہو گیا کہ مخدوم امین فہیم کا کیریئر ختم ہو چکا مگر آصف علی زرداری کی زنبیل سے یوسف رضا گیلانی نکلیں گے؟ اس کا اندازہ کسے تھا اور یہ کس کے خیال میں آ سکتا تھا کہ گیلانی کو وزیراعظم بنا کر وہ خود صدر مملکت بن جائیں گے؟ آصف علی زرداری کے قریب ترین لوگ بھی ان فیصلوں کی بھنک نہ پا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اپنے ارادوں کو خوفناک حد تک خفیہ رکھنے کی اہلیت پائی جاتی ہے۔ یار باشی اور گپ شپ کے شوقین ہونے کے باوجود انہیں اپنی گفتگو اور اقدامات پر بے پناہ قدرت حاصل ہے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ٹھٹھہ میں پیپلز پارٹی کا پہلا انتخابی جلسہ ہوا‘ زرداری صاحب اس جلسے میں شرکت کے لئے نوڈیرو سے روانہ ہوئے تو ہماری گاڑیاں آگے پیچھے تھیں۔ سہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی درگاہ تک ہم ساتھ ساتھ تھے۔ سہون شریف سے بھی ہم ایک ساتھ ہی نکلے اور مارا ماری کرتے ٹھٹھہ پہنچے جہاں بتایا گیا کہ زرداری صاحب پیپلز پارٹی کے کسی رہنما کے گھر آرام کرنے چلے گئے ہیں۔ زرداری صاحب ادھر آرام کرتے رہے اور دوسری طرف جلسے کے سٹیج سے اعلان کیا جاتا رہا کہ آصف علی زرداری جلسہ گاہ میں تشریف لایا ہی چاہتے ہیں۔ پنڈال رفتہ رفتہ بھرتا رہا۔ اس دوران میں مخدوم امین فہیم سے لیکر بابر اعوان تک پارٹی کے سبھی رہنما جلسہ گاہ میں آتے چلے گئے۔ نماز ظہر کے بعد ٹھٹھہ سپورٹس سٹیڈیم جب عوام سے کھچا کھچ بھر گیا اور پارٹی کے تمام چھوٹے بڑے رہنما سٹیج پر جمع ہو گئے تو گزشتہ کئی گھنٹے سے سٹیج سے پچاس ساٹھ گز کے فاصلے پر کھڑے ایک کنٹینر میں حرکت ہوئی اور وہ دھیمی رفتار سے سرکتا ہوا سٹیج سے جا لگا‘ دروازہ کھلا اور اس میں سے مسکراتے ہوئے آصف علی زرداری برآمد ہو گئے۔ جیالے جو اپنے رہنما کے پرجوش استقبال کیلئے کبھی مرکزی شاہ راہ کی طرف دیکھتے تھے اور کبھی مجمع کو دائیں بائیں تقسیم کر کے ان کیلئے راستہ بنانے کی ریہرسل کرتے تھے‘ ہکا بکا رہ گئے۔ حیرت کا یہ جھٹکا سٹیج پر موجود تمام چھوٹے بڑے رہنماؤں نے بھی محسوس کیا۔ یہاں تک کہ سٹیج سیکرٹری اعلان کرنا بھول گئے اور کچھ دیر تک سکتے کے عالم میں کھڑے رہے۔انتخاب میں کامیابی کے بعد بھی زرداری صاحب نے اپنے حلیفوں اور حریفوں کو اسی طرح حیرت کے جھٹکے دیئے۔ سیاست میں انکی پے در پے کامیابیوں کی ایک بڑی وجہ بھی شاید یہی تھی کہ وہ لوگوں کو سوچنے کا موقع دیئے بغیر اچانک ایک ایسا فیصلہ کر دیتے جسکے بعد فریق مخالف کیلئے جوابی حکمت عملی تیار کرنے کی گنجائش بہت کم رہ جاتی۔
صدر مملکت کی حیثیت سے آصف علی زرداری کا کردار تاریخ کا حصہ ہے جس پر ان کے حامی اور مخالفین اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کرنے میں آزاد ہیں لیکن سربراہ مملکت کی حیثیت سے انہوں نے ایک کام ایسا کیا جس کے لئے انہیں ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا رہے گا۔ اول‘ وہ جنرل مشرف کے زمانے میں حاصل صدر مملکت کے اختیارات سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہو گئے۔ دوم‘ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری کا مسئلہ مؤثر انداز میں حل کرنے کی کوشش کی جس سے مختلف آئینی پیچیدگیاں بہت حد تک دور ہو گئیں۔ اس طرح زرداری صاحب کا آئین اور قانون پسند سیاست دان کی حیثیت سے تاثر پختہ ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے سربراہ مملکت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے ہاتھ میں رکھی‘ اس طرح اپنے اختیارات سے دستبردار ہونے کے باوجود انہیں حکومت پر مکمل دسترس حاصل رہی کیونکہ آئین کی اسی ترمیم کے تحت ارکان پارلیمنٹ کی لگامیں پارٹی سربراہ کے ہاتھ میں رہتی ہیں۔ یوں وہ اختیارات سے محروم ہو کر بھی صاحب اختیار رہے‘ ایسی شاندار ڈیل کا تصور زرداری صاحب کے زرخیز ذہن میں ہی آ سکتا تھا۔
’’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘۔
یہ کہاوت زرداری صاحب کی سیاست میں مجسم نظر آتی ہے۔ ناہید خان‘ صفدر عباسی‘ بابراعوان حتیٰ کہ یوسف رضا گیلانی اور چودھری اعتزاز احسن جیسے قدآور سیاست دان دیکھتے ہی دیکھتے ان کی نظروں سے گر گئے یا ان کی ترجیحات سے نکل گئے۔ اس کے برعکس اپنے دوستوں اور پی ایس ایف کے ان نوجوانوں کے لئے ان کے دل میں محبت کے جذبات ہمیشہ موجزن رہے‘ بے نظیر سے شادی کے بعد جو ان کے ارد گرد رہے جن کے ساتھ بیٹھ کر انہوں نے گپیں ہانکیں یا جیل میں ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں تو زرداری صاحب بھی ان کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس منتقل ہو گئے اور پروٹوکول کے جھمیلوں کی وجہ سے زرداری صاحب تک ان نوجوانوں کی رسائی ممکن نہ رہی۔ ان نوجوانوں میں مالک نام کا ایک لڑکا بھی تھا‘ زمانۂ طالب علمی میں جس کا تعلق کبھی پی ایس ایف سے رہا تھا اور جیل میں اس نے زرداری صاحب کی کچھ خدمت بھی کی تھی۔ بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آ کر وہ ان سے ملنے اسلام آباد پہنچا تو بعض صحافیوں نے ایک تقریب کے دوران دھکم پیل کر کے اسے زرداری صاحب تک پہنچا دیا۔ اسے دیکھتے ہی زرداری صاحب کی آنکھوں میں چمک آ گئی اور انہوں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’ابے تو کدھر؟‘‘
زرداری صاحب کو آگے بڑھتے دیکھ کر سکیورٹی والے متحرک ہو گئے اور انہوں نے اسے راستے سے ہٹانا چاہا تو انہوں نے ڈپٹ کر کہا کہ اس کا راستہ نہ روکا جائے پھر آگے بڑھ کر اسے بازو سے پکڑا اور اس کے ہاتھ میں اپنی انگلیاں پھنسا کر اس سے باتیں کرتے ہوئے اپنی گاڑی تک جا پہنچے‘ انہوں نے عملے کو ہدایت کی کہ یہ لڑکا جب بھی انہیں ملنے کے لئے آئے‘ اسے احترام سے ان تک پہنچا دیا جائے‘ کچھ ہی دنوں بعد مالک کو اپائنمنٹ لیٹر مل چکا تھا۔
بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو آصف زرداری کو بہ طور طنز ’’مرد اول‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ انہیں یہ خطاب پسند آیا یا نہیں‘ اس کی خبر تو نہیں لیکن اپنے عمل سے انہوں نے یہ ثابت کر دکھایا کہ یہ خطاب کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔

ای پیپر دی نیشن