لاہور (شہزادہ خالد) ملک بھر میں سالانہ 500 سے زائد افراد معمولی رنجش یا دیرینہ دشمنی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیںجن میں سے تین سے چار فیصد عدالتوں کے احاطے میں یاتاریخ پیشی پر آنے والوں یا جیل سے لائے جانے والے ملزموں کو راستے میں موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے۔گزشتہ روز لاہور کی سیشن کورٹ میں دو افراد کو قتل کیا گیا جو رواں برس کا پہلا واقعہ ہے جبکہ گذشتہ برس 594 افراد کو قتل کیا گیا جن میں سے 20 افراد کو عدالتوں کے احاطوں میں یا تاریخ پیشی پر جاتے یا واپس آتے ہوئے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔251 1افراد قاتلانہ حملے میںشدید زخمی ہوئے۔ قبل ازیں لاہور کی سیشن عدالت میں دو افراد کو کمرہ عدالت میں اور ایک کو جج کے چیمبر میں تعاقب کر کے قتل کیا گیا۔لاہور کی سیشن کورٹس اور ضلع کچہری کی عدالتوں میں تین سو سے زائد ایسے خطرناک مقدمات زیر سماعت ہیں جن میں اس طرح کے واقعات کا خدشہ ہے۔لاہور میںسیشن کورٹس کے علاوہ ضلع کچہری میں بھی فائرنگ اور قتل کے واقعات ہو چکے ہیں۔پاکستان گلوبل فورم کے چئیرمین امین خالد نے اس حوالے سے کہا ہے کہ سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد نہ ہونے سے مقتول پارٹی مخالفین سے خود بدلہ لینے کا ارادہ کرتے ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد عدالتوں کی جانب سے سزائے موت سنانے اور ان پر عمل درآمد کرنے سے قتل و غارت میں کمی آئی تھی لیکن دوبارہ متحارب پارٹیوں کی جانب سے مخالفین پر حملے تیزکر دئیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے سابق سیکرٹری راجہ جاوید اقبال نے کہا کہ جو لوگ سزائے موت کو ختم کرنے کا کہتے ہیں وہ ملک سے دشمنی کر رہے ہیں۔ سزائے موت ختم کرنے سے جرائم پیشہ افراد کو خوف نہیں ہو گا ، معاشرے کا امن تباہ ہو جائے گا۔ معروف قانون دان ولائت چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ سزائے موت پر عملدرآمد سے جرائم میں کمی آتی ہے۔ اگر مجرم فوری پکڑ کر تفتیش کا عمل بروقت مکمل کر لیا جائے تو معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہو گا۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل طارق عزیز نے کہا کہ سزائے موت پر عملدرآمد معطل یا اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ ندیم بٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے کہا کہ جب اللہ کے حکم کا معاملہ آ جاتا ہے تو اس کے بعد کوئی بھی جواز باقی نہیں رہتا۔ سزائے موت اللہ کا حکم ہے۔