اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+کامرس رپورٹر) سٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا ہے جس کے تحت پالیسی ریٹ میں 25 بی پی ایس اضافہ کر کے اسے 10.25 فیصد کر دیا ہے یہ اضافہ یکم فروری 2019ء سے نافذالعمل ہو گا،گورنر سٹیٹ بینک آ ف پاکستان کی صدارت میں زری کمیٹی کا اجلاس اسلام آباد میں ہو ا اور بعد ازان گورنر نے کمیٹی کے دیگر ارکان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں شرح سود میں اضافہ کا اعلان کیا ،گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان طارق باجوہ نے کہا کہ حکومت کے اقدامات کا اثر آیا ہے ،4.4 فیصد خسارہ کم ہوا،نان آئل درآمدات میں 23 فی صد کی کمی آئی ہے ،آئی ایم ایف کے تقاضے ہوتے ہیں ،جب بھی ان سے بات ہوتی ہے تو کچھ اپنی اور کچھ ان کی منواتے ہیں ،ڈو مور کا تقاضہ تو ہوتا ہی رہتا ہے ،انہوں نے کہا کہ اگر روپیہ کی قدر اوپر رکھیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ برامدات کو مہنگا اور درآمدات کو سستا کر دیں ،ہم نے سٹڈی کرائی تھی کہ روپیہ کی قدر کم کرنے سے 30 , فی صد مسابقت کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے ،انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاونٹ کا خسارہ تیرہ یا 14 ارب ڈالر رہنے کی توقع ہے ،یو اے اے سے 2 ارب ڈالر مل جائیں گے ، ملک کے سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 8.2 ارب ڈالر ہیں ،سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے معاملات طے ہو گئے ہیں،16 فروری کو ولی عہد سعودی عرب پاکستان آئیں گے ،اس وقت تمام معاملات سامنے آجائیں گے،16 فروری کے بعد تیل موخر ادائیگی پر ملنا شروع ہو جائے گا،سکوک بانڈ جاری کرنے کا فیصلہ خزانہ اور پاور منسٹری کا ہے ،اس وقت اسلامی بینکنگ کرنے والے اداروں کے پاس بہت پیسہ ہے ، انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کا عظیم دوست ہے ،اس نے پہلے بھی ڈیپازٹ اور کمر شل قرضے بھی دیئے ،سواپ بھی کیا اور آئندہ بھی کرئے گا،انہوں نے کہا کہ روپیہ کی قدر کے حوالے سے مارکیٹ میں غیر فطری مداخلت کے حق میں نہیں ہیں ،انہوں نے کہا سوئز حکومت کے ساتھ معاہدہ کی توثیق پاکستان نے کر دی ہے ،ان کی گورنر کی حیثیت سے تقرری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جائز قرار دیا ہے ،گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ نومبر 2018ء میں گذشتہ زری پالیسی بیان کے بعد جاری ہونے والے معاشی ڈیٹا سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ پچھلے بارہ مہینوں کے دوران معاشی استحکام کے حوالے سے کیے گئے اقدامات کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اہم ماہانہ اظہاریے ملکی طلب میں کمی کی نمایاں علامات کے عکاس ہیں۔ جاری کھاتے کا خسارہ کم ہے، اگرچہ ایسا بتدریج ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مالی رقوم کی برآمد میں اضافہ بھی ملک کے بیرونی کھاتوں پر دباو میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔ یہ پیش رفت حوصلہ افزا ہے اور معاشی بے یقینی میں کمی کا باعث بنی ہے۔ لیکن پاکستانی معیشت کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے معیشت پر دباؤ برقرار رہنے ان میںجاری کھاتے کا خسارہ بلند ، مالیاتی خسارہ اونچی سطح پر اور مہنگائی بھی بلند ہے۔ یہ صورت حال معاشی یکجائی کی مسلسل کوششوں کی متقاضی ہے۔مالی سال 19ء کی پہلی ششماہی میں اوسط عمومی صارف اشاریہ قیمت مہنگائی 6.0 فیصد پر ہے جو گذشتہ برس کی اسی مدت کے 3.8 فیصد کے مقابلے میں خاصی بلند ہے۔ گذشتہ دو مہینوں کے دوران سال بسال عمومی مہنگائی میں کچھ اعتدال آیا ہے، جس کا بنیادی سبب تلف پذیر غذائی اشیا کی قیمتوں کا تیزی سے گرنا اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہے۔ ان پیش رفتوں کے اثرات کو آئی بی اے اسٹیٹ بینک کے حالیہ اعتمادِ صارف سروے میں بھی شامل کیا گیا ہے، جس سے گھرانوں میں مہنگائی کی توقعات میں کچھ اعتدال کی نشاندہی ہوتی ہے۔ مذکورہ مثبت عوامل کے باوجود سی پی آئی باسکٹ میں شامل غیرغذائی غیر توانائی اجزا سے اخذ کی جانے والی کور مہنگائی میں بڑھ کر 8.4 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ مہنگائی میں اضافہ اور معاشی چیلنجوں کا تسلسل اقتصادی کارکردگی پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ سال کی پہلی ششماہی میں حقیقی معاشی سرگرمی میں نمایاں کمی دیکھنے میںآئی ہے۔ معیشت میں وسیع روابط کے حامل بڑے پیمانے کی اشیا سازی (LSM) کے شعبے میں مالی سال کے ابتدائی پانچ مہینوں کے دوران 0.9 فیصد کی خالص کمی ہوئی، جس کا اہم سبب ملکی طلب میں اعتدال اور بعض مخصوص شعبہ جاتی دشواریاں ہیں۔ خریف کی تمام اہم فصلوں کی پیداوار میں گذشتہ برس کی نسبت کمی آئی ہے۔ گندم کی فصل کا ابتدائی تخمینہ بھی حوصلہ افزا نہیں۔ اجناس کے پیداواری شعبوں میں تبدیلیوں کے خدمات کے شعبے پر براہ راست اور بالواسطہ اثرات کے باعث امکان ہے کہ مالی سال 19ء میں حقیقی جی ڈی پی کی نمو کم ہو کر تقریباً 4.0 فیصد پر رہے گی، جو 6.2 فیصد کے سالانہ ہدف اور گذشتہ برس ہونے والی 5.8 فیصد نمو کے مقابلے میں کافی کم ہے۔جولائی تا دسمبر مالی سال 19 ء میں نجی شعبے کے قرضوں میں 570.4 ارب روپے کی خالص توسیع ہوئی جو گذشتہ برس کی اسی مدت میں ہونے والے اضافے سے تقریباً دگنی تھی۔ اس نمو کو بڑی حد تک خام مال (کپاس، پیٹرولیم مصنوعات وغیرہ) کی بلند لاگت ، بجلی اور تعمیرات سے منسلک صنعتوں (خصوصاً سیمنٹ اور فولاد) کی پیداواری گنجائش میں مسلسل اضافے اور حکومت کی جانب سے کمرشل بینکوں سے لیے گئے قرضوں کی واپسی سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔مطلق لحاظ سے اسٹیٹ بینک سے خالص میزانی مالکاری یکم جولائی تا 18 جنوری مالی سال 19ء کے دوران 3,770.5 ارب روپے تک جا پہنچی، جو گذشتہ برس کی اسی مدت میں قرض لی گئی رقم کا 4.3 گنا بنتی ہے۔ اس قرضے کا نتیجہ مستقبل میں ممکنہ مہنگائی بڑھنے کی صورت میں نکلے گا۔ ان قرضوں کا بڑا حصہ کمرشل بینکوں سے حکومتی قرضے کی واپسی میں استعمال کیا گیا (خالص واپسی 3035.8 ارب روپے)۔ مختصر مدت میں حکومتی قرض گیری کی اسٹیٹ بینک سے کمرشل بینکوں کو اس بھاری منتقلی سے نجی شعبے کو قرض دینے (lending) کی ترغیب ملی ہے۔ مالی سال 19ء کی پہلی ششماہی میں امکان ہے کہ مالیاتی خسارہ گذشتہ برس کی اسی مدت سے زیادہ رہے گا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ایس ڈی پی اخراجات کی رقوم میں کٹوتی اور ٹیرف اور ڈیوٹیوں کو حقیقت پسندانہ بنانے کے باوجود مالیاتی یکجائی بدستور ایک چیلنج ہے۔ ایم پی سی نے اپنے پہلے موقف کا اعادہ کیا کہ مالیاتی پالیسی کو خسارے میں بتدریج نمایاں بہتری آئی ہے ، تاہم خسارے کی سطح بلند ہے (iii) حکومتی قرضوں کی جدولی بینکوں سے اسٹیٹ بینک کو منتقلی کے نمایاں رجحان کے باعث وسط مدت میں مہنگائی کا دباؤ بڑھنے ہونے کا خدشہ ہے یکجائی کے اقدامات کے معیشت پر بتدریج اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم مہنگائی کا مخفی دباؤ برقرار ہے۔ مذکورہ صورت حال اور تفصیلی غور و خوض کے بعد ۔فعال ہونا چاہیے اور معاشی استحکام اور پائیدار نمو کے لیے سازگار حالات کی تخلیق میں معاون کردار ادا کرنا چاہیے۔بیرونی محاذ پر سال کی پہلی ششماہی کے دوران جاری حسابات کاخسارہ 4.4 فیصد سال بسال کمی کے بعد 8.0 ارب ڈالر رہ گیا۔ اس بہتری کا بڑا سبب اشیا اور خدمات کی درآمد میں ہونے والی تیز رفتار کمی ہے۔ جاری حسابات کے خسارے کو محدود رکھنے میں برآمدات میں معمولی اضافے اور ترسیلاتِ زر میں معقول نمو سے بھی مدد ملی۔ تاہم جاری حسابات کے خسارے کی مالکاری (financing) دشوار رہی کیونکہ نجی (بیرونی براہ راست سرمایہ کاری اور نجی قرضے) اور سرکاری رقوم کی آمد خسارے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ چنانچہ جاری حسابات کے بیشتر خسارے کو ملک کے اپنے وسائل سے پورا کیا گیا، جس سے اسٹیٹ بینک کے خالص سیال زر مبادلہ کے ذخائر آخر دسمبر 2018ئ تک کم ہو کر 7.2 ارب ڈالر رہ گئے۔ تاہم گذشتہ چند دنوں کے دوران دو طرفہ سرکاری رقوم کے حصول نے اسٹیٹ بینک کے خالص سیال زر مبادلہ ذخائر کو بڑھا کر 8.2 ارب ڈالر کرنے میں مدد دی ہے ، جس سے ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر 25 جنوری 2019ء کو 14.8 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ اب تک کیے جانے والے استحکام کے اقداماچہ جاری حسات کے اثرات بتدریج ظاہر ہو رہے ہیں اور معاشی بے یقینی کمی کے باعث اعتماد بڑھ رہا لیکن پی ایس ڈی پی اخراجات میں کمی کے باوجود مالیاتی خسارے نے ابھی تک مجموعی یکجائی کی علامات ظاہر کرنی ہیں۔لاہور سے کامرس رپورٹر کے مطابق سعودی عرب اور یو اے ای سے ایک ایک ارب ڈالر سٹیٹ بینک کے اکاونٹ میں آنے کے بعد ہفتے کے دوران زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر تو ایک ارب 54 کروڑ ڈالر بڑھ گئے تاہم غیر ملکی قرضے میں دو ارب ڈالر کا مزید اضافہ ہو گیا۔ سعودی عرب اور امارات سے مجموعی طور پر 4 ارب ڈالر کے قرضوں کے باوجود رواں مالی سال سات ماہ کے دوران سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں حقیقی طور پر ایک ارب 63 کروڑ ڈالر کی کمی ہو چکی ہے۔