علامہ منیر احمد یوسفی
اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے۔ اُس نے علوم و حکمتیں لوگوں تک پہنچانے کے لئے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار اَنبیاء کرامؑ کو دُنیا میں مبعوث فرمایا۔ سب سے آخر میں اِمام الانبیائ‘ ختم المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کو مبعوث فرمایا۔ آپ ؐکو جو کتاب عطا فرمائی گئی ہے وہ کتاب آخری کتاب ہے اور آپؐ کی اُمّت بھی آخری اُمّت ہے۔ پہلے تمام اَنبیاء ؑ خاص اپنی قوموں کی طرف بھیجے جاتے تھے جیسا کہ جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے: ’’نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے‘‘۔ جابر بن عبداللہ انصاریؓ ہی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا: ’’میں سارے اِنسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں‘‘۔ قرآن مجید میں ہے:- ’’اور ہم نے آپؐ کو نہیں بھیجا مگر سارے اِنسانوں کے لئے خوشخبری سنانے والے‘ ڈر نے والے کافی ہیں اَب کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں۔ (سبا:۲۸) آپ ؐقیامت تک کے لوگوں کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے: آپ ؐنے فرمایا: ’’میں ساری مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں اور مجھ پر نبوت ختم فرما دی گئی ہے‘‘۔ کوئی کلمہ پڑھنے والا اِس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر سچا مومن نہیں ہو سکتا کہ جس کا اللہ رب ہے‘ حضور ؐاُس کے نبی ؐہیں اور اللہ رب العالمین ہے اور حضور ؐرحمۃ للعالمین ہیں۔ سورئہ ابراہیم میں اللہ کا اِرشادِ مبارک ہے:- ’’اور ہم نے ہر رسول اُن کی قوم کی ہی زبان میں بھیجا‘‘۔ جس میں وہ رسول مبعوث ہوتے خواہ اُن کی دعوت عام ہو اور دوسری قوموں اور دوسرے ملکوں پر بھی اُس کا اِتباع لازم ہو۔ جیسا کہ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ؐجن کی رسالت تمام آدمیوں جنوں بلکہ ساری خلق کی طرف ہے اور آپؐ سب کے نبی ؐہیں جیسا کہ قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے: ’’جو سارے جہان کو ڈر سنانے والے ہیں‘‘۔
رسول اللہ ؐمُعلمِ اِنسانیت کا تاج پہنا کر بھیجے گئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے‘ : ایک دن رسول اللہ ؐاپنے کسی مقدّس حجرے سے مسجد میں تشریف لائے تو مسجد میں دو حلقے دیکھے ایک حلقہ والے تلاوتِ قرآنِ مجید کرتے تھے اور اللہ سے دُعا کرتے تھے اور دوسرے حلقہ والے علم سیکھتے اور سکھاتے تھے۔ آپ ؐنے فرمایا: دونوں گروہ نیکی کے کام میں ہیں لیکن وہ جو قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور اللہ سے دُعا کرتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ چاہے اُنہیں عطا فرمائے یا عطا نہ فرمائے اور یہ جو لوگ سیکھتے اور سکھاتے ہیں یہ بھی نیکی کے کام میں ہے:- ’’اور میں بھی علم سکھانے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔ سو آپ اُنہیں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ (ابن ماجہ کنز العمال )
اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکی بعثت کے مقاصد میں بڑا مقصد سورۂ آل عمران کی آیت مقدسہ نمبر ۱۶۴ میں بیان فرمایا ہے:- ’’بے شک اللہ کا بڑا اِحسان ہوا اِیمان والوں پر کہ اُن میں سے ایک رسول ؐکو مبعوث فرمایا جو اُن پر اُس کی آیاتِ مقدّسہ پڑھتے ہیں اور اُنہیں پاک فرماتے ہیں اور اُنہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایک طرف تو رسول اللہ ؐکے فرائض میں تلاوتِ آیاتِ مبارکہ کو ایک مستقل فرض قرار دیا اور دوسری طرف تعلیم کو جداگانہ فرض قرار دیا ہے کیونکہ رسول اللہؐ کی تعلیم کے ذریعے ہی کتاب اِلٰہی کا صحیح علم حاصل ہو سکتا ہے۔ دوسرے علوم و فنون کے مقابلہ میں کتاب اِلٰہی کی تعلیم و تفہیم کے لئے عظیم الشّان معلّم کی زیادہ ضرورت ہے۔ علوم قرآنِ مجید کا عظیم الشان معلم وہی ذات ہو سکتی ہے جس کو اللہ سے بذریعہ وحی شرف ہمکلامی حاصل ہو۔ جس کو اِسلام کی اِصطلاح میں نبی اور رسول کہا جاتا ہے اور وہ ہمارے نبی آخر الزماں ؐ ہیں اللہ نے ہمارے آقا و مولیٰ ؐکو فرمایا ہے:- ’’اور اے محبوبؐ! ہم نے آپؐ کی طرف یہ ذکر (قرآنِ مجید) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ ؐلوگوں سے واضح طور پر بیان فرمائیں جو (اَحکام) اُن کی طرف نازل ہوئے ہیں۔ جیسے آپ ؐ کا مقصدِ وجود معلم ہونا ہے تو آپ ؐ کی اُمّت کا مقصدِ وجود متعلم اور طالب علم ہونا لازم ہو گیا۔
آپ ؐکی تعلیم نہ تو محدودتھی اور نہ ہی کسی خاص موضوع پر تھی بلکہ آپ ؐکی تعلیم ہمہ جہت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے اِنسانوں کے تعلقِ بندگی کو جوڑنے کے لئے پوری زندگی کے نظام کی درستگی عالم دُنیا‘ عالم برزخ اور عالم آخرت کی تعلیم و تربیت کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں رہنے دیا۔ دین اِسلام اور علم کا ازلی تعلق ہے اِنسانیت کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی‘ دُنیا اور آخرت میں کامیابی کے لئے اِعلانِ نبوت سے قبل اور اِعلانِ نبوت اور دُنیا سے پردہ فرمانے تک آپ ؐنے اللہ کی مخلوق کی بھلائی اور خیر خواہی کے لئے شب و روز اِتنی محنت‘ مشقت فرمائی کہ خالقِ کائنات نے محبوبِ کائنات ؐ کو فرمایا: ’’اے محبوبؐ! ہم نے یہ قرآنِ مجید آپ ؐپر اِس لئے نہیں اُتارا کہ آپ مشقت میں پڑیں‘ ہاں البتہ یہ اُس کے لئے نصیحت ہے جو ڈر رکھتا ہے‘‘۔ (طٰہٰ:۲-۳) آپ ؐلوگوں کے کفر اور اُن کے اِیمان سے محروم رہنے پر بہت زیادہ اَفسردہ رہتے تھے آپ کی خاطرِ مبارک پر اِس وجہ سے رنج و ملال رہتا تھا۔ آپ ؐلوگوں کو دَورِ جاہلیت سے نکال کر نورِ اِیمان اور نورِ علم سے منور کرنے میں بہت فکر مند تھے۔
اللہ اور معلم اِنسانیت ؐ کے نزدیک علم کی کیا اَہمیت ہے۔ اِس کا اَندازہ قرآنِ مجید اور اَحادیثِ سے پتا چلتا ہے۔ اللہ نے آپ ؐکو وہ لاثانی اور بے مثال کتابِ لاریب عطا فرمائی ہے جس کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے: ’’اور ہم نے آپ ؐپر اَیسی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہر شے کا روشن بیان ہے‘ ہدایت‘ رحمت اور مسلمانوں کے لئے خوش خبری ہے‘‘۔ (النحل:۸۹) دُنیا میں بڑے بڑے معلِّم گذرے ہیں مگر دُنیا کے آخری معلم اِنسانیت ؐ کے برابر کسی کا مقام نہیں۔ آپ ؐکی نورانی تعلیم میں حکم خداوندی اور عقلی دقیقہ رسی‘ فرمانِ الٰہی‘ اَخلاقی نکتہ وری‘ اَمْرِ ربّانی اور حکم فطرت‘ کتاب اور حکمت سب کی آمیزش ہے۔
اِس لئے آپ ؐ خود کامل ہیں اور ناقصوں کو بھی کامل بناتے ہیں خود پاک ہیں اور ناپاکوں کو دھو کر پاک و صاف فرماتے ہیں۔ گنہگاروں کو نیک‘ اَندھوں کو بینا اور تاریک دِلوں کو روشن دِل بناتے ہیں۔ چنانچہ جس وقت آپ ؐ نے دُنیا سے پردہ فرمایا اُس وقت ایک لاکھ سے زیادہ اِنسان آپ ؐکی تعلیم سے بہرہ مند ہو چکے تھے۔ اور وہ عرب جو علمی طور پر پست ترین نقطہ پر تھے وہ اَوج و کمال تک پہنچ گئے جس اَوج و کمال پر کوئی ستارہ آج تک نہ پہنچ سکا۔
محمد رسول اللہؐ کی علمی درس گاہِ اعظم میں اِنسانی علوم و فنون نشوونما پا رہے ہیں۔ خود بے مثال معلم اعظم کی نوری ذات ایک پوری اور عظیم یونیورسٹی ہے جس کے اَندر علم و فن کا ہر شعبہ اپنی جگہ پر قائم ہے ہر جنس اور ہر ذوق کے طالب علم آتے ہیں اور اپنے ذوق اور اِستعداد کے مطابق کمال حاصل کر رہے ہیں۔
تمام اِنسانی طبقے دوست‘ تاجر‘ شوہر‘ باپ‘ خانہ دار‘ اَفسر‘ حاکم‘ قاضی‘ سپہ سالار‘ بادشاہ‘ اُستاد‘ واعظ‘ مرشد‘ زاہد و عابد وغیرہم آپ ؐکے سامنے آکر زانوئے اَدب تہ کرتے ہیں اور اپنے پیشہ و فن کے مطابق آپ ؐکی تعلیمات سے بہرہ اَندوز ہوتے ہیں۔
مدینۃ النبی ؐکی اِس عظیم درسگاہ کو غور سے دیکھیں اِس کے الگ الگ گوشوں میں اِنسانی جماعتوں کے اَلگ اَلگ درجے کھلے ہیں کہیں خلفائے راشدین جیسے فرمانروا زیرِ تعلیم ہیں‘ کہیں حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت سعید بن جبیرؓ جیسے اَربابِ رائے و تدبیر ہیں‘ کہیں حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ، حضرت خالد بن ولیدِؓحضرت سعد بن ابی وقاصؓ جیسے سپہ سالار ہیں‘ کہیں وہ ہے جو بعد میں صوبوں کے حکمران‘ عدالتوں کے قاضی اور قانون کے مقنِّن بنے۔ کہیں حضرت ابو ذؓر،‘ حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت ابو دردائؓ جیسے وہ خرقہ پوش ہیں جو مسیحِ اِسلام کہلاتے ہیں۔ کہیں صُفہ والے طالب علم ہیں جیسے حضرت ابو ہریرہؓ کہیں امیر المؤمنین حضرت علیؓ، اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہؓ ،حضرت ابن عباسؓ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ جیسے فقیہ و محدث ہیں جن کا کام علم کی خدمت اور اِشاعت تھا۔ اِن میں ظاہری عزت اور دُنیاوی اِعزاز کی کوئی تفریق نہیں پائی جاتی۔ سب سے وابستگی ایک سطح پر اور صداقت کی ایک ہی بے مثال شمع کے گِرد پروانہ وار جمع ہیں سب پر توحید اور عشق مصطفیٰؐ کا یکساں غلبہ ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے: رسول اللہؐ ؐنے فرمایا:- ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور مسلمان عورت پر فرض ہے۔
آپ ؐنے نور علم ضیا پاشوں سے فیض یاب ہونے کے لئے اللہ کے بندوں کے دِلوں میں شوق پیدا فرمانے کے لئے خوشخبریوں سے نوازا۔ گذشتہ خطاؤں اور گناہوں سے پاک ہونے کے لئے نور علم حاصل کرنے کی ترغیب فرمائی عالم دین کو چودھویں کا چاند قرار دیا اور علماء کو انبیاء ؑکا وارث قرار دیا۔ اسی سلسلے میں ہر سال چائنہ اسکیم لاہور میں معلم انسانیت کانفرنس کی جاتی ہے۔ 3 فروری بروز اتوار صبح 9 بجے سے 3:30 بجے تک ہونے والی تعلیم و تربیت والی 13 ویں سالانہ معلم اِنسانیت کانفرنس میں جامع مسجد ابو بکر صدیق بلاک C-I چائنہ سکیم لاہور میں شرکت کریں اور دین سیکھ کر لوگوں کو سکھانے کی نعمت حاصل کریں اور رسول اللہ ؐکے اِس ارشاد ہم عمل پیرا ہوں کہ علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ۔