سانحہ ساہیوال پر بالاخر وہی کچھ ہو رہا ہے جس کے خدشات موجود تھے، خلیل اور ذیشان دونوں کے اہلخانہ نے جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ جے آئی ٹی ہمارے کیس کو خراب کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف فرانزک سائنس لیبارٹری کے ذرائع کے حوالے سے بھی مسلسل یہ خبر سامنے آ رہی ہے کہ انہیں تاحال وہ بندوقیں فراہم نہیں کی گئیں جو سانحہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کی طرف سے استعمال کی گئی ہیں۔ تاہم سانحہ ساہیوال پر اب تک عوام کے غم و غصے کے پیش نظر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس سے متعلقہ خبروں کو نمایاں طور پر شائع اور نشر کیا جا رہا ہے لیکن یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ کچھ حلقے اس واقعہ کے سرد خانے میں منتقل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بھی اسی کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ سانحہ ساہیوال کا کچھ نہیں بنے گا۔ سیاسی اور صحافتی تجزیہ نگار بلاشبہ حقائق اور وقائع نگاری کے اعتبار سے ہر سانحہ اور ایشو پر تجزیے اور تبصرے کرتے ہیں مگر ایک عوامی رائے ہوتی ہے اور معذرت کے ساتھ ہر ایسے سانحہ میں بالآخر عوامی رائے ہی درست ثابت ہوتی ہے۔ کیا اس وقت سانحہ ساہیوال پر وہ سب کچھ نہیں ہو رہا جو ماضی میں ہمیشہ ہوا اور بالاخر ایک روایتی جملہ کہ پولیس اپنے پیٹی بندھ بھائیوں کو بچا رہی ہے وہ درست ثابت ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں بھی پولیس کے ہاتھوں کئی بے گناہ قتل ہوئے اور کسی پولیس اہلکار کو سزا تک نہیں ہوئی۔ پچھلی دور حکومت میں صرف پونے دو سال قبل پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد کے ماڈل تھانے پیپلزکالونی کے ایس ایچ او نے اپنی پرائیویٹ گاڑی پر مٹرگشت کرتے ہوئے دو میٹرک کے طالب علموں کو کھلونا پستول سے سیلفی بناتے ہوئے فائرنگ کر کے ان میں سے ایک کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس واقعہ پر احتجاج اور آہ و فغاں بلند ہوا لیکن جیسے ہی اس وقت کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ خاں تعزیت کرنے متاثرہ خاندان کے گھر گئے تو مقدمہ بالاخر صلح میں تبدیل ہو گیا۔ یہ رسم بد ہمارے معاشرے میں سالہاسال سے چلی آ رہی ہے۔ آپ نے چند ماہ قبل سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے کراچی جیل کے دورے کے دوران شاہ رخ خان جتوئی قتل کیس کے ملزم کی جیل میں ٹھاٹ بھاٹ دیکھی ہو گی جس نے ثابت کیا کہ ہمارے معاشرے میں پیسے کی بہت طاقت ہے اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے قانون کو اپنے گھر کی لونڈی سے زیادہ کی اہمیت نہیں دیتے۔ شاہ رخ جتوئی قتل کیس کے ملزم کی اس ٹھاٹ بھاٹ پر چیف جسٹس نے سپرنٹنڈنٹ جیل کو معطل کیا تھا اور صرف 48گھنٹوں بعد وزیراعلیٰ سندھ نے انہیں بحال کر دیا تھا۔ اسے قانون کی حکمرانی کہا جائے، جمہوریت کی فتح قرار دیا جائے یا قانون کے نام پر قانون کے محافظوں کی قانون شکنی کی سربلندی کا نام دیا جائے اس کا فیصلہ کرنا قانون کے رکھوالے اور حکومت وقت کا کام ہے لیکن اس طرف وہ توجہ دینا گوارا نہیں کرتے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی خون ناحق بہے اسکی باقاعدہ ویڈیوز سامنے آئے تو پھر جے آٖئی ٹی ڈرامہ کس لئے۔ کیا ہمارے ملک میں قانون صرف ایک عام شہری کیلئے ہے جو کبھی ٹریفک وارڈن اور کبھی عام پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں چوکوں اور شاہراہوں پر ذلیل ہوتا ہے لیکن چور اچکے انکے کبھی ہاتھ نہیں آتے اور اگر آ بھی جاتے ہیں تو ان کو چند ٹکوں کے عوض چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ہمارا اس سے بھی زیادہ معاشرتی المیہ کیا ہو گا کہ ہمارے بہت سارے صحافی دوست بھی پولیس اور ایسے اداروں کے ٹاؤٹ بنے نظر آتے ہیں جن کا کام اپنے اداروں میں خبر شاـئع کرنے سے زیادہ خبر کو روکنا ہے۔ سانحہ ساہیوال کے بارے میں بار بار کہا گیا تھا کہ یہ تبدیلی سرکار عمران خان کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ کیا اسے ٹیسٹ کیس کا نام دیا جا سکتا ہے کہ ایک طرف متاثرین کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جس پر کوئی ایکشن حتیٰ کہ مذمتی بیان تک سامنے نہیں آتا۔ دوسری طرف وہ جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور اس پر کوئی حکومتی ذمہ دار بولنے تک کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ فرانزک سائنس لیب کو سی ٹی ڈی کی استعمال کی گئی بندوقیں فراہم نہیں کی جاتیں اور کوئی حکومتی وزیر شزیر ایکشن نہیں لیتا۔ کہاں گئے راجہ بشارت، کہاں ہیں فواد چوہدری اور کہاں ہے فیاض الحسن چوہان۔ عمران خان کدھر ہیں وہ انصاف کا وعدہ اور دعویٰ کہاں گیا جس کی بھڑکیں لگاتے وہ تھکتے نہیں تھے۔ چار افراد کو دن دیہاڑے سی ٹی ڈی اہلکاروں نے فائرنگ کر کے قتل کیا۔ وزیراعظم نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا دعویٰ کیا۔ پنجاب حکومت کے وزیرقانون راجہ بشارت میدان میں آئے۔ انہوں نے متاثرین کے برعکس سی ٹی ڈی کی ترجمانی کی۔ شوروغل برپا ہوا اور پھر بالاخر وہی روایتی ہتھکنڈے، وہی قانونی تقاضے پورے کرنے کے ڈرامے، وہی جے آئی ٹی تماشے، وہی کیس کو خراب کرنے کیلئے مختلف سقم پیدا کرنے کے ڈرامے، یہ سب کیا ہیں۔ اس کا سوال حکومت وقت دے یا نہ دے لیکن عام آدمی اس سارے تماشے کو ملاحظہ کر رہا ہے۔ کیا کسی حکومتی ذمہ دار کو نظر نہیں آتا کہ جے آئی ٹی کس طرح کیس کو خراب کر رہی ہے۔ کیوں اس بات کا نوٹس نہیں لیا گیا کہ متاثرہ خاندان آہ و فغاں کر رہے ہیں کہ انہیں سنگین دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اس بات کا نوٹس لینے کیلئے کیا پورے پاکستان میں کوئی دیدہ ور موجود نہیں۔ کیا یہ ملک پولیس سٹیٹ بن چکا ہے۔ کیا اس ملک میں کسی کو بھی کوئی بھی قانون نافذ کرنے والا ادارہ کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ قتل کر سکتا ہے اور انہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ماورائے عدالت قتل پر اتنی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ سانحہ ساہیوال پر نئے پاکستان میں پرانے تماشے قابل مذمت ہیں۔