برطانوی وزیراعظم ٹریزامے کی بریگزٹ بل کی ہائوس آف کامن میں توثیق میں ناکامی کے خدشے کے بارے میں بریگزٹ پر لکھے اپنے گزشتہ سے پیوستہ کالم میں ، میں نے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ شدت سے بدلتے سیاسی حالات کے پیش نظر وزیراعظم ٹریزاآئندہ چند ہفتوں میں مزید سیاسی بحران سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ میری اس پرڈکشن کا سب سے بڑا ’’سورس‘‘ بی بی سی کا وہ ’’سروے پول تھا جس میں عوامی رائے کا نقطہ نظر جانتے ہوئے یہ آگاہ کر دیا گیا تھا کہ دارالعلوم میں پیش کئے گئے بریگزٹ بل کے حق میں 200 اور مخالفت میں ڈبل ووٹ ڈالے جانے کا قومی امکان موجود ہے۔
اس طرح برطانوی خفیہ ایجنسی M16 کے سابق ربراہ اور برطانوی افواج کے سابق چیف ’’سررچرڈ ڈیرلو‘‘ اور فیلڈ مارشل لارڈ گتھری،، نے ٹوری پارٹی چیئرمینوں کو روانہ کئے اپنے مراسلے میں ٹریزامے کے فیصلے کو برا معاہدہ قرار دیتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا بھی کیا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کی کثیر تعداد وزیراعظم کیخلاف ووٹ کو ہر حال میں یقینی بنائے تاکہ ٹریزامے کی بے کار اور بے عمل تجویز کو ناکام بنایا جا سکے۔ چنانچہ ارکان پارلیمنٹ کی بھاری تعداد نے بریگزٹ معاہدے کو مسترد کر دیا۔ بل کے حق میں 202 اور مخالفت میں 432 ووٹ ڈالے گئے اور یوں ٹریزامے اس شکست کے بعد مزید سیاسی بحران سے دوچار ہو گئی بل پر ہونے والی اس شکست کو لیبر پارٹی کے رہنما جیری کوبن نے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے بغیر وقت ضائع کئے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی مگر یہاں انہیں کامیابی نہیں ہو سکی۔ ٹریزامے کی حمایت میں 325 جبکہ مخالفت میں 306 ووٹ ڈالے گئے اور یوں انکی وزارت عظمیٰ کے سلسلہ میں پیدا ہونے والا بڑا سیاسی بحران وقتی طور پر ٹل گیا ہے۔ لیبر پارٹی کے رہنما خیری کوبن تحریک اعتماد میں اگر کامیاب ہو جائے تو 14 دن کے کائونٹ ڈائون کا آغاز ہونا تھا جبکہ برطانیہ میں قانون کے مطابق یکٹ 2011 کے تحت انتخابات چونکہ ہر 5 برس بعد کروائے جاتے ہیں اس لئے تحریک عدم اعتماد کی صورت میں وزیرداخلہ کے امیدوار کے ردوبدل کے کی شق موجود ہے۔ شیڈول کے حوالہ سے برطانوی انتخابات کا سال اب 2022ء ہوگا۔ ٹریزامے کیلئے بظاہرتو یہ سیاسی بحران ٹل گیاہے مگر کنروویٹو پارٹی کے رہنمائوں کو 2022 ء تک اپنی حکومت برقرار رکھنے کیلئے نئی پالیسی ترتیب دینا ہو گا؟؟؟
Brexit کا معاملہ ہے کیا؟ افسوس برطانوی لوگوںکی 60 فیصد تعداد کو اس بارے میں آج بھی درست معلومات حاصل نہیں؟ انتہائی مختصر اور سادے الفاظ میں بریگزٹ کا مفہوم یہ کہ یورپی یونین کے 28 ممالک کو برطایہ کا خیرباد کہہ کر اپنی معیشت کو مزید استحکام بخشنے کیلئے علیحدگی کی پالیسی اپنانے کا یہ وہ فیصلہ تھا جو عوام سے اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بذریعہ ریفرنڈم حاصل کیا۔ نئی نسل کو ’’بریگزٹ‘‘ پر ضرور مکمل عبور حاصل نہ تھا اس لئے عمر رسیدہ افراد نے برطانیہ کا شاندارماضی دیکھتے ہوئے یورپ سے علیحدگی کا ووٹ دیدیا حالانکہ ڈیوڈ کیمرون بھی اس حق میں نہ تھا مگر انہوں نے آئین کی روشنی میں اپنا حق استعمال کیا اور یوں انہیں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
سابق ہوم سیکرٹری بورس جانسن اور موجودہ رکن یورپی پارلیمنٹ نائیجل فرچ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے برطانیہ کے یورپ سے انخلاء کیلئے تحریک چلائی اور جب یہ معلوم ہوا کہ برطانیہ کو یورپ سے نکلنے پر معاشی اور اقتصادی عدم استحکام سے دوچار ہونا پڑے گا تو عوام سے معذرت کرلی۔ برطانیہ‘ یورپی یونین کو سالانہ 13 بلین پونڈ کی کثیر رقم دینے کا بھی چونکہ پابند تھا اس لئے مذکورہ دونوں شخصیات نے اتنی کثیر رقم کو برطانوی قوم‘ تعلیم اور صحت پر لگانے کا عندیہ دیکر ووٹ دینے پر قائل کر لیا جبکہ امیگریشن مسائل کی وجہ بھی یورپی یونین بتائی گئی۔ چنانچہ نوجوان دھوکہ کھا گئے اور یوں برطانیہ کو یورپی یونین سے نکلنا پڑا ہے۔نو ڈیل کے حتمی فیصلے کی تاریخ کے بعد برطانوی معیشت پر جو برے اثرات مرتب ہوتے جارہے ہیں‘ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت نے ابھی سے اپنی ہنگامی سٹرٹیجی تیارکر لی ہے‘ تاہم یورپی یونین ممالک سے روزمرہ کی بنیادوں پر برطانیہ لائے گئے مال اور تجارت میں اب زیادہ تحقیق اورسختی نمایاں ہوگی۔ اس سلسلہ میں Douer کی بندرگاہ پر امیگزیشن حکام اور دیگر سکیورٹی اداروں نے مکمل چھان بین کیلئے اضافی وقت کی ریہرسل کا آغاز کر دیا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق برطانیہ داخل ہونے والے مال بردار ٹرکوں کو قطار 17 میل تک ہوسکے گی۔اسی طرح روزمرہ اشیاء انتہائی مہنگی اور بعض اشیاء اب نایاب ہونگی۔ نوکریوں اور بالخصوص نوجوانوں کی ملازمتوں کے مواقع بری طرح متاثر ہونگے۔ مستقبل قریب میں یورپی ممالک کیلئے مبینہ طورپر ویزا سسٹم اور برطانیہ داخل ہونے کے قوانین کو مزید سخت بنائے جانے کا بھی امکان ہے۔برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کا سب سے افسوسناک ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ’’نوڈیل‘‘ حوالہ سے شمائی آئرلینڈ اور ری پبلک آف آئرلینڈ کے بارڈر کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ جائے گا جبکہ یورپی ممالک میں کام کرنے والے 13 لاکھ برطانوی شہریوں اور برطانیہ میں کام کرنے والے 37 لاکھ یورپی لوگوں کامستقبل بھی دائو پر لگاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ برس ستمبر میں 1 لاکھ 30 ہزار یورپی شہری برطانیہ چھوڑ چکے ہیں۔
بریگزٹ بحران پر جرمنی کا حتمی فیصلہ
Feb 01, 2019