چیئرمین تحریک انصاف اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل بڑے بڑے’’ بلند و با لا‘‘ دعوے کیے تھے ۔ 2013 سے 2018 کے دوران اپوزیشن میں رہتے ہوئے ہاتھ سے کوئی موقع ’’ضائع ‘‘کیے بغیر پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کی’’ شاہ خرچیوں ‘‘پر تنقید کرتے رہے۔ نواز شریف کے غیر ملکی دوروں کی تعداد اور ان پر آنیوالے اخراجات پر ’’شور مچایا‘‘جاتا تو کبھی سرکاری املاک اور ان پر صرف کی جانیوالی رقم پر’’ تنقید‘‘ کی۔بالاخر الیکشن میں کامیابی کے بعد جب عمران خان نے اگست2018 میں وزارت عظمی کا حلف اٹھایا تو قوم سے اپنے پہلے خطاب میں انھوں نے ملک کی’’ بگڑتی‘‘ ہوئی اقتصادی حالت کی بات کی اور وعدہ کیا کہ وہ سرکاری خرچے کم کر کے مثال قائم کرینگے تاکہ ملکی اخراجات میں پیسے غیر ضروری مقاصد کیلئے ضائع نہ ہوں۔اس موقع پر یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ غیر ملکی دورے نہیں کرینگے لیکن و زیر اعظم عمران خان نے صرف پہلے 100 دنوں میں چھ غیر ملکی دورے کیے ۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے اور اخراجات کم کرنے کیلئے وہاں کے عملے میں بھی کمی لائینگے۔ لیکن ابھی تک وہ وعدہ بھی ایفا نہیں ہوا ۔کفایت شعاری سے کاکام لینے کا نعرہ بلندکیا تھا ۔جس کیلئے گاڑیا ں بھی’’ نیلام ‘‘کی گئیں ۔لیکن وہ کفایت شعاری بھی ہمیں نظر نہیں آرہی ۔لیکن سب سے بڑا وعدہ پروٹوکول نہ لینے کا تھا ۔جس ایک جھلک ہمیں حلف اٹھانے سے قبل نظر آئی تھی جب انتظامیہ کی جانب سے وی وی آئی پی پروٹوکول دیے جانے پر ’’ برہم‘‘ ہو گئے تھے۔ بنی گالا سے ہوٹل جاتے ہوئے عمران خان کے پروٹوکول میں 10 گاڑیاں تھیں جبکہ ہوٹل سے واپسی پر 7 گاڑیاں ساتھ آئیں جن میں وزیراعظم کے اسکواڈ کی جیمر والی گاڑی بھی شامل تھی۔تب ترجمان تحریک انصاف نعیم الحق کا کہنا تھا کہ عمران خان کی سیکیورٹی خدشات کے باعث صرف 4 گاڑیاں استعمال کرینگے۔ صدر مملکت عارف علوی کی لاہور ایئرپورٹ آمد پر سیکیورٹی پروٹوکول میں 32 گاڑیاں منگوائی گئی تھیں، لیکن علم ہونے پر انھو ں نے کہا کہ جب تک اضافی سیکیورٹی کو واپس نہیں بھیج دیا جاتا میں ایئر پورٹ پر ہی انتظار کروں گا۔یہاں تک کہ صدر مملکت کی جانب سے اظہار برہمی پر اضافی گاڑیوں کو واپس بھیج دیا گیا۔ صدر پانچ گاڑیوں کے قافلے کیساتھ گورنر ہاؤس پہنچے تھے لیکن بعد میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سیالکوٹ میں پروٹوکول نہ ملنے پر ڈی پی او سیالکوٹ کو معطل اور ڈی سی او کو او ایس ڈی بنانے کا حکم دے دیاجبکہ حال ہی میںعمران خان نے عثمان بزدار کی تعریف کی تو انھوں نے پھر ایک بار اپنے قائد کے اصول کو توڑتے ہوئے پروٹوکول لیا ۔ادھر صوبائی وزیر تعلیم مراد راس نے وزیر اعظم کے وی آئی پی کلچر ختم کرنے کے دعوے ہوا میں اڑا دیئے۔ جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے دورے دوران انھوں نے بھی وی آئی پی پروٹوکول کا مطالبہ کر دیاتھا،بلکہ انھوں نے تو باقاعدہ کمشنر کو خط لکھ کر ایلیٹ فورس اور ٹریفک پولیس کا اسکواڈ مانگ لیا۔آخر یہ کیسی تبدیلی ہے کچھ عوام کو بھی اس بارے آگاہ کیا جائے ۔
’’ٹیکس ‘‘
وزیراعظم نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ہدایت کی ہے کہ وہ ٹیکس نادہندگان سے ٹیکس وصولی اور ٹیکس کا د ائرہ وسیع کرنے پر توجہ دے۔اسکے بعد ایف بی آر پہلے سے ٹیکس دینے والے افراد کے گرد گھیرا تنگ کر ے گا ۔پاکستان میں عوام مختلف اشکال میں70قسم کے ٹیکس جس میں سیلز اور دو سو لڈنگ ٹیکس ادا کر رہے ہیں جن میں سے زیادہ کی وصولی وفاقی سطح پر کی جاتی ہے جسکا فریضہ ایف بی آر ادا کرتا ہے جبکہ صوبائی حکومتیں بھی کچھ بلدیاتی اور مقامی ٹیکسز وصول کرتی ہیں مگر انکے محصولات وصول کرنیوالے ادروں میں ٹیکس ریکوری کی صلاحیتیں محدود ہیں ۔پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام نافذ ہے جس میں غریب اپنی آمدنی کے تناسب سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ زیادہ آمدنی والے کہیں کم تناسب سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں، ایف بی آر کے مطابق2015میں صرف گیارہ لاکھ افراد نے ٹیکس گوشوارے داخل کئے ہیں، 2011میں یہ تعداد 144314 اور جبکہ7/2006میں اکیس لاکھ تھی۔ یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ اس عرصہ میں10لاکھ گوشوارے کم ہو گئے ہیں مگر ہمارا ایف بی آر اور وزیر خزانہ اپنی کارکردگی کو بہتر ظاہر کر رہا ہے کیونکہ بالواسطہ ٹیکس وصولی میں اضافہ ہوا جبکہ نیٹ ورک میں شامل افراد کی تعداد میں کمی ہوئی ہے پاکستان میں کمیونیکشن اتھارٹی کیمطابق دسمبر2016میں موبائل استعمال کرنیوالے 136489014 تھے جبکہ بائو میٹرک تصدیق سے قبل انکی تعداد14002516جنکے استعمال کرنیوالوں میں کمی آئی ہے۔ ہمارے محنت کش دنیا میں دسویں نمبر پر ہیں جنکی تعداد61 ملین ہے جس سے50.7مختلف ملازمتوں اور شعبوں سے منسلک ہیں سب سے زیادہ لیبر زرعی شعبہ سے تعلق رکھتی ہے، اور دیہات میں رہائش پذیر ہے لیبر فورس کی42.3فیصد کی آمدنی بہت کم ہے اور وہ کوئی ٹیکس نہیں ادا کرتی ہے۔ سوائے سیلز ٹیکس سے جو کہ اسکو اشیائے خوراک اور ضروریات کی خریداری پر دینا پڑتا ہے۔ باقی تمام اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر پاکستان میں ایک کروڑ ٹیکس گزار ہو سکتے ہیں جبکہ حکومت موبائل فونز کی صورت میں50لاکھ لوگوں سے انکم اور ودہولڈ نگ ٹیکس وصول کر رہی ہے پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ امیر اور با اختیار لوگ ٹیکس نہیں کر رہے حالانکہ وہ کروڑوں کا کاروبار کرتے اور منافع کماتے ہیں ۔