دمشق (این این آئی)شام کے شہر ادلب اور اس کے اطراف دیہی علاقوں میں مسلح شامی اپوزیشن کے اثر و نفوذ میں واضح حد تک کمی آنے کے بعد وہاں ہیئی تحریر الشام (سابق النصرہ فرنٹ) کا کنٹرول بڑھ گیا۔19 سالہ فوٹو جرنلسٹ عمّار العبدو نے النصرہ فرنٹ کے قید خانوں میں گزارے 100 دن کا احوال بتایاکہ شہریوں کو اغوا اور جیلوں میں شدید تشدد کیا جاتا ہے۔ بعض گرفتار شدگان کو مسلسل عقوبت اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اور صرف کھانے کے وقت وقفہ دیا جاتا تھا۔ اس پیش رفت کے نتیجے میں صحافیوں اور سرکاری شعبوں میں کام کرنے والوں کے لیے علاقے کو چھوڑ دینے یا نظروں سے اوجھل ہو جانے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔میڈیارپورٹس کے مطابق اس سلسلے میں 19 سالہ فوٹو جرنلسٹ عمّار العبدو نے ادلب کے دیہی علاقے میں جبل الزاویہ میں واقع النصرہ فرنٹ کے قید خانوں میں گزارے 100 دن کا احوال بتایا۔ العبدو نے، جو ان دنوں ترکی میں مقیم ہیں ،بتایا کہ جبل الزاویہ کے علاقے میں اس روز علی الصبح النصرہ کے متعدد نقاب پوش ارکان نے اس کے گھر پر بنا اطلاع کے چھاپا مارا اور اسے گرفتار کر لیا۔ ایک نقاب پوش نے العبدو کو بتایا کہ ان کا تعلق العقاب سکیورٹی برانچ سے ہے۔ العبدو کو زدوکوب کیا گیا اور پھر ایک گاڑی میں ڈال دیا گیا۔العقاب سکیورٹی ادلب اور اس کے نواحی دیہی علاقوں کے لوگوں کے لیے سب سے زیادہ دہشت کی حامل ہے۔ عمار العبدو کے مطابق اسے آنکھوں پر پٹی باندھ کر قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ اس کی کوٹھڑی چھوٹی اور انفرادی تھی جس کی اونچائی ، لمبائی اور چوڑائی سب 1.5 میٹر سے زیادہ نہ تھی۔ العبدو پوری طرح کھڑا بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ العبدو نے بتایا کہ وہاں عقوبت اور تشدد کے کئی ذرائع تھے۔ ان میں الماری میں ڈال کر بری طرح سے پیٹا جانا بھی شامل تھا۔ بعض گرفتار شدگان کو مسلسل عقوبت اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور صرف کھانے کے وقت وقفہ دیا جاتا تھا۔ قیدیوں پر عائد الزامات کے لحاظ سے ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ان الزامات میں مرتد ہونا، مسلمانوں کی صفوں میں پھوٹ ڈالنا، داعش تنظیم کے ساتھ ساز باز اور اسی طرح مسلح شامی اپوزیشن سے تعلق رکھنا شامل ہے۔ العقاب سکیورٹی کی برانچ میں زیر حراست رہنے والے ایک دوسرے قیدی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کو تیس روز تک حراست میں رکھا گیا۔ گھر پر چھاپے کے بعد اسے مذکورہ برانچ کے قید خانے پہنچا دیا گیا اور پھر بہت دیر تک گالیوں اور مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا۔ نجات پانے والے اس قیدی نے بتایا کہ وہ دوران حراست تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے بہت سے قیدیوں کی چیخ و پکار سنا کرتا تھا۔ تنظیم مسلح شامی اپوزیشن کے جنگجوؤں کو اغوا کرتی ہے اور پھر متعلقہ اپوزیشن گروپوں کی قیادت یا جنگجوؤں کے اہل خانہ کے سامنے شرط رکھتی ہے کہ وہ رہائی کے واسطے بھاری رقوم ادا کریں۔مقامی ذرائع نے انکشاف کیا کہ بشمول العقاب سکیورٹی برانچ النصرہ فرنٹ کی خفیہ جیلوں میں تشدد کی تاب نہ لا کر بعض جنگجو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
شام میں النصرہ کا کنٹرول بڑھ گیا شہریوں کا اغوا، جیلوں میں شدید تشدد
Feb 01, 2019