عمران خاں کی عالمی ضمیر پر دستک؟

Feb 01, 2020

خالد کاشمیری

امر واقعہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس وقت تن تنہا کرۂ ارض پر بھارت کی اس سفاک حکومت کیخلاف اپنی تمام تر قوت گویائی کے ساتھ مصروف جہاد ہیں، جس بھارتی حکومت نے اپنے ان مسلمان شہریوں کو دیس نکالا دینے اور وادیٔ کشمیر میں ہزاروں برس سے بسنے والے کشمیری مسلمانوں کیلئے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ ایک طرف بھارت کی موجودہ حکمران ہندو حکومت تقسیم ہند کے اصولوں سے یکسر انحراف کرتے ہوئے آل انڈیا کانگریس کے بنیادی نظریہ سیکولرزم کو دفن کرنے پر ادھار کھائے بیٹھی ہے بلکہ آل انڈیا کانگریس کی طرف سے تصفیہ کشمیر کیلئے ادارہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ کرنے کا راستہ اپنا چکی ہے جبکہ ایسی تاریخی حقیقتوں اور تاریخ کے اوراق پر موجود تاریخ ساز فیصلوں کو فراموش کردینے کی مثال کہیں مل سکتی ہے نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ بھارت کی موجودہ ہندو حکومت میں ’’ہر ہر مہادیو‘‘ کا بھجن گانے والے چند سر پھرے اور اسلحہ کودیوتا مان کر ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے والے نریندر مودی کے چند چیلے چانٹوں سے ٹولے کے ارکان اپنے متعصبانہ نظریات کو بروئے کار لانے کی خاطر بھارت میں مقیم ان 20 کروڑ کے لگ بھگ مسلمانوں کو اپنی روایتی کمینگی اور اونچ نیچ کی بنیاد پر قائم ہندو معاشرے کے بے جان ڈھانچے میں جان ڈالنے کی ناکام کوششیں کر کے شودر سے بھی کم تر درجے کے شہری بنانے میں مصروف ہیں جنہوں نے بحیثیت قوم ہندوستان پر ایک ہزار برس تک نہ صرف اپنی عظمت و شان و شوکت کے پھریرے لہرائے۔ مودی اور انکے ان گنت تعصب زدہ ہندوئوں کو مسلمانوں کے برابر کے شہری حقوق سے نوازا اور حکومتی بڑے بڑے عہدوں پر بلاتمیز تعینات رکھا گیا۔ ایسے حقائق کے ہوتے ہوئے اگر ہندوستان (بھارت) کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنے کسی تاعاقبت اندیش قانونی فیصلے کی رو سے ماضی کے حکمرانوں کو کسی قانون کے تحت شہری …سے یکسر محروم کر دیگی تو اسکی خام خیالی ہو گی جس بنیاد پرتقسیم برصغیر ہوئی تھی۔ اس تقسیم کے اصولوں کو پس پشت ڈالنا بھارت کے حال اور مستقبل کیلئے تباہ کن ثابت ہو گا۔ تاریخ کی مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ جموں و کشمیر، پاکستان اور بھارت کے مابین ایک متنازعہ علاقہ ہے اور تقسیم برصغیر کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ بھارت کی طرف سے اس متنازعہ علاقہ کے بارے میں یکطرفہ فیصلہ پاکستان کے خلاف یقیناً ایک کھلی جنگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ستم باعثِ ستم یہ ہے کہ وادی کشمیر پوری کی پوری بھارتی فوج کے سفاکانہ محاصرے میں ہے، جہاں کے بسنے والے ایک کروڑ کے لگ بھگ مسلمان شدید کرب، اذیت اور سفاکانہ کارروائیوں کا شکار ہیں۔ انہی حالات میں دکھی دل کیساتھ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے برسرِعام والہانہ انداز میں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ عہد کیا کہ وہ انکے سفیر بن کر عالمی سطح پر انکے حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد کرینگے۔ اس وقت سے لے عمران خاں بھارت کی ہندو حکومت اور اسکے کشمیر میں روا رکھے جانیوالے بے رحمانہ اور انسانیت ظلم و تشدد کیخلاف کرۂ ارض کی تمام اقوام کو آگاہ کرنے اور انکے ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے شمشیر برہنہ بنے ہوتے ہیں۔ چند یوم پیشتر انہوں نے اسلام آباد میں غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران کشمیری مسلمانوں پر بھارتی مظالم ہی کو اولیت دی اور کہا کہ کشمیر بڑا مسئلہ ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمان کش پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم کے ایسے اقدامات عالم امن کیلئے سنگین خطرہ ہیں جبکہ بھارت کا غیر جمہوری اور تاریخ کے مسلمہ فیصلوں کے برعکس نظریہ خطے کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ بلاشبہ ہندوستان پر اس وقت ہندو انتہا پسندوں کا قبضہ ہے۔ عمران خان کا یہ کہنا بھی انتہائی بروقت اور برمحل ہے کہ بھارتی آرمی چیف کا کشمیر پر قبضہ کا بیان نامناسب اور اشتعال انگیز ہے۔ عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام لیکر کہا کہ صدر ٹرمپ اور اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کیلئے کردار ادا کریں۔حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ جب انکی طرف سے عالمی رہنمائوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے انداز میں یہ کہا جاتا ہے کہ نریندر مودی کا مسلم دشمن اور کشمیر کے مسلمانوں کو بہیمانہ اور انسانیت سوز سلوک سے تڑپانے کا سلسلہ بند نہ ہوا تو اس سے خطے کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے اور پھر اس سے عالمی امن کو بھی سنگین خطرہ ہو جائیگا کہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر بھارت کی ہندو حکومت کے اسلام اور مسلم دشمن اقدامات کے نتیجے میں کوئی معرکہ برپا ہو گیا تو پاکستان اپنی بقا اور سلامتی کے تحفظ کیلئے ہر اقدام اٹھانے پر مجبور ہوگا جو بالآخر بھارت کے موجودہ نقشے کی تبدیلی پر منتج بھی ہو سکتا ہے اور ایسا ہونے سے نہ صرف پاک بھارت کے اردگرد کے ممالک بلکہ کرہ ارض کے دیگر ممالک بھی بری طرح متاثر ہونگے۔ اسکے عمران خان بار بار بااثر عالمی رہنمائوں کو تصفیہ کشمیر کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی بار بار اپیل کرتے نظر آتے ہیں۔ عمران خان اس وقت ایک ایسے مقام پر نمایاں نظر آتے ہیں جہاں وہ عالمی امن کے خواہاں ممالک کے لیڈروں کی توجہ ایسے اہم ترین مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عملی اقدامات کی خاطر مؤثر کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے نظرآتے ہیں تاکہ کرہ ارض کا امن کسی المیے اور تباہ کن حالات سے دوچار نہ ہو جائے۔

مزیدخبریں