دیوان دیارام گدومل کا تعلق حیدر آباد )سندھ( کے معزز خاندان سے تھا۔ آپ بمبئی پرونشل سول سروس کے جج بنے اور ترقی کرتے ہوئے سیشن جج کے عہدے پر پہنچے۔ آپ کی ملازمت کا زیادہ عرصہ سندھ اور بمبئی )چونکہ اس زمانہ میں سندھ علیحدہ صوبہ نہ تھا، بمبئی سے ملحق تھا( کے اضلاع میں گزرا۔ آپ کے صاحبزادگان کا تعلق بھی وکالت کے پیشہ سے رہا۔ تقسیم ہندوپاک کے بعد بھی یہ خاندان موجودہ سندھ میں بڑا مقام رکھتا ہے۔ اس زمانہ میں تنخواہ ہزار روپے سے زیادہ تھی۔ عام لباس اور سادہ زندگی آپ کا شعار تھی۔ اپنی تنخواہ کا زیادہ حصہ اور جدی جائیداد کی آمدنی کا معقول حصہ غریبوں، یتیموں، محتاجوں اور بیوائوں کی خدمت میں صرف کرتے۔ دیوان دیا رام گدومل ملک کے بہت بڑے سوشل ریفارمر بھی تھے۔ آپ نے کئی سفری لائبریریاں اور بیوہ آشرم بھی بنائے ہوئے تھے۔ اس وقت کی مختلف کتابوں میں جو ایک سے زیادہ لکھاریوں کی لکھی ہیں میں بھی ان کا تذکرہ ہے۔ دیوان صاحب کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بھی بہت مشہور ہے۔ لارڈ ہارڈنگ وائسرائے کے قافلہ پر چاندنی چوک دہلی میں شاہی خاندان کے داخلہ کے دوران ایک بم پڑا ہوا ملا۔ گو قافلہ محفوظ رہا مگر پنجاب پولیس دن رات تفتیش میں مصروف تھی مگر بم پھینکنے والے کا کوئی پتا نہ چل رہا تھا۔ دیوان صاحب بمبئی سے کشمیر جا رہے تھے آپ نے سادھوں جیسا لباس پہن رکھا تھا۔ آپ نے لاہور ریلوے پلیٹ فارم پر کسی شخص سے انگریزی میں بات چیت کی۔ قریب سی آئی ڈی کا ایک شخص کھڑا یہ سن رہا تھا۔ سادھئوں کے لباس میں انگریزی! اسے کچھ شک ہوا، چنانچہ آپ کو گرفتار کر کے ریلوے اسٹیشن کی حوالات میں دے دیا گیا۔ رات بھر حوالات میں رہے، صبح پولیس نے تفتیش شروع کی۔ آپ نے پوچھا کہ کس الزام میں گرفتار کیا ہے، پولیس والے نے کہا کہ وائسرائے کے قافلہ پر بم رکھنے کے شبہ پر، دیوان صاحب مسکرا دئیے، پولیس افسر نے حسب نسب اور ضمانتی بارے پوچھا، جواباً دیوان صاحب نے کہا، لارڈ ہارڈنگ آپ کو جانتے ہیں۔ آفیسر نے پہلے مذاق سمجھا مگر سنجیدگی دیکھتے ہوئے اپنے افسران کو بتایا، انہوں نے وائسرائے کے پرائیویٹ سیکرٹری کو تار دیا اور ساتھ تفصیل لکھی۔ پرائیویٹ سیکرٹری نے لارڈ ہارڈنگ کو تار سے متعلق آگاہ کیا۔ وائسرائے نے جواب لکھوایا کہ مسٹر دیا رام گدومل ہندوستان کے چند نیک اصحاب میں سے ہیں، انارکسٹ نہیں اور وائسرائے کے ذاتی دوست ہیں۔ ان کو فوراً چھوڑ دیا جائے۔ دیوان دارام گدومل جب زندگی بھر غریبوں اور ضرورت مندوں کی خدمت انجام دیتے رہے تو آپ کو خیال آیا کہ اگر امیر طبقہ کے نوجوانوں میں غریبوں کی خدمت کی سپرٹ پیدا کی جائے تو امیر طبقہ کے نوجوان دوسرے ہزارہا لوگوں کے لیے مفید ہو سکتے ہیں، چنانچہ بمبئی میں آپ نے ایک اخلاقی آشرم کی بنیاد رکھی جس میں صرف امیر طبقہ کے کئی سو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہر روز دو گھنٹہ کے لیے آتے، ان لڑکے اور لڑکیوں کو لیکچروں کے ذریعہ بتایا جاتا کہ غریبوں کی خدمت کرنی چاہئیے۔ دوسروں کا دکھ اپنا دکھ سمجھنا انسان کا فرض ہے، روپیہ کا صحیح استعمال یہ ہے کہ وہ ضرورتمندوں کے کام آئے اور اس شخص کا زندہ رہنا لاحاصل ہے جو صرف اپنے لیے زندہ رہے اور دوسروں کے کام نہ آئے۔ اس زمانہ میں آپ کی سندھ میں عزت کا یہ عالم تھا کے لوگوں کو جب یہ علم ہوتا کہ دیوان صاحب فلاں بازار اور راستہ سے گزریں گے تو لوگ وقت سے پہلے انتظار میں کھڑے رہتے کہ آپ کو نمسکار )خوش آمدید) کہہ سکیں لوگ اس وقت ایسا سلوک گوروں، سنیاسیوں یا مہاتموں سے کرتے۔ اس آشرم کو جاری ہوئے کئی سال ہو چکے تھے کہ ایک روز ایک نوجوان لڑکی )جس کے والد بمبئی میں بہت بڑے عہدہ پر سرکاری ملازم تھے( دیوان صاحب کے پاس آئی اور تنہائی میں کہا ’’پتا جی میں بہت دکھی ہوں ! خاندان کی عزت کا سوال ہے، میں چاہتی ہوں
کہ خود کشی کر لوں تاکہ خاندان کا نام رسوا نہ ہو۔ آپ کی باپ کی طرح عزت کرتی ہوں اور آپ سے رائے لینا چاہتی ہوں‘‘ )آشرم کے تمام لڑکے لڑکیاں آپ کو پتا جی کہا کرتے تھے( دیوان صاحب نے جب یہ سنا تو سخت افسوس ہوا۔ آپ نے لڑکی کو رائے دی کہ جس لڑکے سے ناجائز تعلقات ہیں اس سے شادی کر لے۔ لڑکی نے بہت کوشش کی مگر لڑکا نہ مانا۔ درمیان میں براہمن اور بنیا خاندان کا مسئلہ بھی بن گیا۔ دیوان صاحب کو معلوم چلا تو انہوں نے بھی لڑکے کو بلا کر بہت سمجھایا۔ مگر لڑکے پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صرف یہی نہیں بلکہ لڑکے نے آشرم آنا اور لڑکی سے ملنا بالکل چھوڑ دیا۔ یہ لڑکی کئی روز تک دیوان صاحب سے مشورہ کرتی رہی۔ دیوان صاحب نے یہ بھی کوشش کی کہ کوئی اور نوجوان اس لڑکی سے شادی کر لے۔ مگر کامیابی نہ ہوئی۔ ویسے بھی کوئی اچھی حیثیت کا لڑکا لڑکی سے اس حالت میں شادی کے لیے تیار نہ ہو سکا۔ جوں جوں دن گزرتے گئے لڑکی کا خوف بڑھتا رہا، آخر ایک دن لڑکی دیوان صاحب سے ملی، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے دیوان صاحب کو کہا، پتا جی میں بہت دکھی ہوں۔ اس لڑکے یا کسی اور سے شادی کرنا چاہی ہوں مگرکامیابی نہ ہوئی، اب میرے اور خاندان کی ناموس کے لیے صرف ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ ہے خود کشی! لڑکی رو رہی تھی، سخت پریشان تھی، دیوان صاحب یہ سب مصیبت دیکھ رہے تھے مگر کچھ نہ کر سکتے تھے۔ دیوان صاحب اس لڑکی کو دیکھ رہے تھے۔ بے حد متفکر تھے کہ اس لڑکی کو مصیبت سے کیسے نجات ہو، بہت سوچ و بچار کے بعد لڑکی سے مخاطب ہوئے، ’’بیٹی! اگر دنیا میں پناہ دینے اور بے عزتی سے بچانے کے لیے کوئی تیار نہیں تو میں تمہیں پناہ دینے اور بے توقیری سے بچانے کے لیے تیار ہوں۔ میں تم سے شادی کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر دیوان صاحب بمبئی سے چند میل دور باندرہ گئے۔ وہاں آپ نے شہر سے ہٹ کر سمندر کے کنارے ایک کوٹھی کرایہ پر لی۔ واپس آ کر آشرم کے طلباء و طالبات کو بلایا کہ آج سے یہ آشرم بند کیا جاتا ہے۔ دیوان صاحب نے آشرم کو تالا لگا دیا۔ لڑکی کو لے کر سکھوں کے گوردوارہ گئے۔ وہاں کے قانون کے مطابق گرو گرنتھ نے سترہ سال کی لڑکی اور ستر سال کے بوڑھے کی شادی کرا دی۔ دیوان صاحب اپنی نوجوان ’’بیوی‘‘ کو لے کر باندرہ چلے گئے اور ایک نئی زندگی گزارنا شروع کر دی۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی۔ اخبارات میں طرح طرح خبریں لگیں ۔ صرف یہی نہیں، دیوان صاحب کو اپنی خاندانی جائیداد کی رجسٹری کرانے کے لیے حیدر آباد جانا پڑا تو راستے میں لوگوں نے پتھر برسائے اور گالیاں دیں۔ اس زمانہ کے ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر جو دیوان صاحب کے دوست تھے نے انہیں خط لکھ کر انتہائی سخت الفاظ میں سرزنش کی اور برا بھلا۔ جواب میں آپ نے صرف ان الفاظ پر اکتفا کیا، ’’میں نے اپنا فرض ادا کیا۔ آپ اپنا فرض ادا کریں‘‘۔ دیورام کی ’’بیوی‘‘ کے بطن سے بیٹی پیدا ہوئی۔ دیوان کا شادی کے بعد دنیا سے بالکل الگ رہے اور سمندر کے کنارے کوٹھی میں خاموشی سے زندگی گزارتے رہے۔ دس سال کاعرصہ گزر گیا۔ دنیا کو کچھ علم نہیں کہ کیا ہوا۔ شادی کے دس سال بعد ’’بیوی‘‘ کو تپ دق ہوا۔ ہر طرح کے علاج کے باوجود صحت روز بروز بگڑتی گئی۔ جب زندگی کی کوئی اُمید نہ رہی تو لڑکی کے والد اور والدہ بیٹی کی عیادت کے لیے باندرہ آئے۔ ایک دن بیٹی نے ماں کو تنہائی میں کہا۔ میں آپ کو ایک راز بتانا چاہتی ہوں تاکہ اس بوجھ کے ساتھ دنیا سے رخصت نہ ہوں۔ بیٹی نے ماں سے اصل بات بتائی اور پھرکہا کہ دیوان صاحب نے میری عزت بچانے کے لیے میرے سے شادی کی۔ انہوں نے اپنی آل انڈیا شہرت اور عزت میرے لیے قربان کر دی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ فرضی شادی تھی۔ وہ آج بھی میرے باپ کی طرح ہی اور میری بیٹی ان کی نواسی ہے۔ ساتھ ہی لڑکی دنیا سے رخصت ہو گئی۔ لڑکی کی ماں نے اپنے شوہر کو بھی بتایا۔ اس نے اپنے خاص دوستوں سے ذکر کیا۔ حتیٰ کہ یہ خبر ایک بار پھر جنگل میں آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی۔ اس اخبار کے ایڈیٹر سمیٹ ہندوستان کے ہر بڑے اور نامور شخصیت کی خواہش تھی کہ وہ دیوان صاحب کے پاس حاضر ہو کر ان کے قدموں کو چھولے۔ فیصلہ قارئین پر کہ اللہ والے کون اور کیسے ہوتے ہیں؟