بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے2014ء کے عام انتخابات کے دوران اپنی انتخابی مہم میں عوام کو ایک نعرہ دیا تھا کہ ’’اچھے دن آئنگے ‘‘۔ گزشتہ حکومت میں کانگر یس جماعت نے معیشت کا بیٹرا غرق کر رکھا تھا جسکی وجہ سے انتہاء پسند ہندوئوں کے علاوہ عام بھارتیوںنے بھی مودی کے جھانسے میں آکر اسکے حق میں ووٹ ڈال کر اسے کامیاب کیا۔ لیکن جلد ہی مودی کے جھوٹے وعدوں کی قلعی کھل گئی لیکن2019ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر ایک نیا نعرہ ایجاد کیا ’’ نیا ہندوستان2022ء بھارت کے بھولے عوام ’’ اچھے دن آئنگے‘‘ کے وعدے کو بھول کر نیا ہندوستان 2022ء کے خواب دیکھنے لگے۔ 2019ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنی ہی عوام کو بے وقوف بنانے کی خاطر مودی کو نیا نعرہ سوجھا جس میں سہانے خواب دکھائے گئے کہ بھارتی دولت جوباہر محفوظ ہے اسے واپس لایا جائے گا۔ اس نعرے کا عنوان ہے۔’’پانچ کھرب 2024ئ‘‘ یعنی Five Trillions 2024 رہیں۔
2019ء میں عام انتخابات میں کامیابی کے بعد مودی نے جو قابل ذکر کا رنامہ انجام دیا ہے وہ ہے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کر کے بھارت میں ضم کردیا جسکے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر گزشتہ چھ ماہ سے کرفیو میں جکڑا ہوا ہے ۔ وہاں کی عوام ظلم وبربریت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔ خوراک، ادویات اور دوسری ضروریات زندگی کی شدید قلت ہے جبکہ انٹرنیٹ کی سہولیات بلاک کردی گئی ہیں۔ مودی کو خطرہ ہے کہ اگر کر فیو اٹھالیا گیا تو کشمیری عوام احتجاجی ریلیاں نکالیں گے۔ ابتداء میں پاکستان ،ترکی اور ملایشیاء کے علاوہ کسی نے بھی احتجاجی صدا ء بلند نہ کی لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ،یورپی اور امریکی پارلیمان میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی
اس شدید پامالی پرقرار دادیں منظور کرائی جا رہی ہیں جنکے باعث مودی سرکار پر سفارتی دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔مقبوضہ کشمیر پہ ناجائز قبضہ کرنے کے چار ماہ بعد نریندرمودی کی انتہا ء پسند طبیعت دوبارہ گدگدائی اور اس نے مسلمانوں پہ ایک اور وار کیا۔ دو کالے قانون منظور کئے گئے کمیونٹی ایمنڈ مینٹ ایکٹCommunity Amendment Act اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس National Register of Citizens دونوں کا مقصد بھارت کے مسلمانوں کو انکی شہریت سے محروم کرنا تھا۔
مودی کا اندازہ تھا کہ ان قوانین کا بھارت کی اکثریت ہندو آبادی خیر مقدم کر ے گی جبکہ مسلمانوں کے احتجاج کو دبادیا جائیگا۔ چونکہ بھارتی معیشت مودی کی غیر حقیقت مندانہ پالیسیوں کے باعث ڈوبتی جارہی ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے، بھارتی جامعات کے طلباء اپنی ہی حکومت کے رائج کردہ کالے قوانین کے خلاف احتجاج میں سڑکوں پہ باہر نکل آئے۔ انکا اصل غصہ خراب معیشت اور بے روزگاری کے خلاف تھا۔مودی کے غنڈوں نے احتجاجی ریلیاں نکالنے والے طلباء کو منتشر کرنے کی خاطر طاقت کااستعمال کیا جسکے باعث پورے بھارت میں اضطراب پھیل گیا اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
نتیجے کے طورپر 19ممالک نے بھارت سفر کرنے کے خلاف اپنے شہریوں کو ممانعت کردی ہے۔ان ممالک میں امریکہ ،کناڈا ، برطانیہ، جرمنی ،فرانس وغیرہ شامل ہیں۔ بھارت سیاحت کی غرض سے آنے والے مسافروں میں60فیصد کمی ہوئی ہے جس کے باعث اسکی گرتی ہوئی معیشت کو مزید نقصان پہنچا ہے اور غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں بھی شدید کمی واقع ہوئی ہے جس نے صورتحال کو مزید گمبھیر کردیا ہے۔عالمی سطح پر بہت سے دانشوروں نے بھارت کی اس مخدوش حقیقت کا نوٹس لیا ہے ۔ معروف امریکی ماہر تعلیم نوم چومسکی نے کہا ہے کہ مودی کی حکومت نئے سرے سے فاشزم بپا کر رہی ہے اور مسلمانوں کے حقوق پامال کر رہی ہے۔ معروف بھارتی اداکار نصیرالدین شاہ نے بیان دیا ہے کہ ’’ 70برس کے بعد مجھے احساس دلایا جا رہا ہے کہ مسلمان کی حیثیت سے میں بھارت میں رہائش برقرار نہیں رکھ سکتا‘‘۔ کناڈا کے شہر ٹورنٹورمیں بسنے والے راشد حسین سیّد جو بی بی سی، ٹورنٹو اسٹار ، گلوب ، میل اور ڈان کے مبصر ہیں، کا کہنا ہے کہ دنیا کو ایک نئی حقیقت آشکار ہو رہی ہے۔’’ ایک ناروادار، ہندو انتہاء پسند بھارت جہاں غنڈوں کا راج ہے۔ یہ بھارت کے بانیوں کے تصور سے مختلف ہے ،مودی کی انتہاپسندی نے محمد علی جناح ؒ کے دو قومی نظر ئے کو تقویت دی ہے۔‘‘افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان ، ملائیشیاء اور ترکی کے علاوہ بیشتر اسلامی ممالک بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات اور اپنے نجی مفادات کی خاطر بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کے خلاف ایک آدھ رسمی کلمہ بھی ادا نہ کیا۔ اسکے برعکس بھارتی مصنف اور انسانی حقوق کی علمبردار اورندھتی رائے کا کہناہے کہ ’’ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی خاموش احتجاج کی آواز زور وشور سے محسوس کی جاسکتی ہے۔‘‘
پریا مواڈا گوپال جو کیمرج یونیورسٹی میں انگریزی کے معلّم ہیں وہ کہتے ہیں کہ دہلی کی جواہر لعل یونیوسٹی میں بھارتی کالے قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے طلباء پر تشدّد نے اس حقیقت کو اجا گر کیا ہے کہ بھارت میں نظریاتی جنگ نے پُرتشدّد موڑلے لیا ہے۔‘‘ راشد حسین سید کہتے ہیں کہ ’’ نام نہاد اسلامی دنیا جس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، بھارتی مسلمانوں کی حالت زار کو نظر انداز کر رہے ہی۔ او آئی سی خواب غفلت کی نیند سورہی ہے، جبکہ بھارتی مسلمانوں اور مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کی نسل کشی عالمی ضمیر کے لئے سوالیہ نشان ہے ۔یہ صورتحال کب تک جارہی ہے گی ؟ بالآخر دنیا کو اپنی آواز بلند کرنی پڑے گی، کشمیر، یوپی، بہار ، آسام اور بقیہ بھارت میں مسلمانوں پہ ڈھائے جانے والے ظلم کے خلاف ،تاریخ حالات کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔مجھے ڈرہے کہ مودی کے غنڈے بھارت کے ٹکڑے پختے ادھیڑدیں گے۔‘‘
’’30برس میں چین ایک امیر ملک بن چکا ہے ۔مزید دس برس میں چین ایک اعلیٰ درجے کی عالمی طاقت بن جائے گا جسکی راہ پہ وہ گامزن ہے ۔بھارت اسکے برعکس پستی کی جانب رواں ہے‘‘ یہ الفاظ خالد المعینہ کے ہیں جو سعودی روزنامے عرب نیوز اور سعودی گیزیٹ کے سابق مدیر اعلیٰ ہیں۔مودی سرکار کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف کالے قوانین نافذ کرنے کے خلاف احتجاج میں پہلی مرتبہ وہاں کی فلمی صنعت بھی شامل ہوچکی ہے گوکہ مسلمان ایکڑوں کی آواز ماسوائے نصیرالد ین شاہ کے جنکا ذکر اوپر آچکا ہے،کسی اور بڑے مسلمان مثلاً شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان ،سیف علی خان سب خاموش ہیں۔ لیکن بقیہ فلم انڈسڑی سراپا احتجاج ہے۔یونین منسٹر پایوش گوپال نے بی جے پی کی جانب سے ممبئی کے ایک اعلیٰ ہوٹل میں فلم انڈسٹری کے مایہ ناز ارکان کو دعوت پہ موعو کیا لیکن سب نے شرکت سے انکار کیا اسکے بجائے کا ر ٹر روڈ بنڈرا پہ ایک احتجاجی ریلی میں شریک ہوئے ۔ ورون گروور نے کالے قوانین کے خلاف ایک نظم تشکیل دی جسکا عنوان تھا: ’’ ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘‘ ومثال بھر دواج نے نریندرمودی پہ چوٹ کرتے ہوئے نظم سنائی ہم ناامید نہیں کہ تم ( مودی) نے ایسا ہی کیا جسکی تم سے امید تھی۔ ہم حیران نہیں کہ تم اس ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہو کہ تمہارا سچ بھی ہمیں جھوٹ محسوس ہوتا ہے ممبئی فلم انڈسڑی کی احتجاجی ریلی میں مسلمان کم اور ہندو زیادہ شریک تھے۔ معروف اداکارہ دیپکا پڈوکون جو پٹی باندھے ایشے گھوش کے برابر کھڑی تھیں، امید دلارہی تھیں کہ نریندرمودی کے خلاف احتجاج کا میاب ہے۔یہ غیر متوقع ہے کیونکہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے1975 ء تا1977ء 18ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ کی تھی توان کے آمرانہ اقدام کے خلاف ممبئی انڈسٹری سے صرف دیو آنند اور انکے بھائی نے صدائے احتجاج بلند کی تھی۔ لیکن اب ممبئی فلم انڈسٹری سراپا احتجاج ہے۔
نریندرمودی سے کوئی پوچھے کہ ’’ اچھے دن‘‘ کہاں گئے ؟ وہ اب بھی ہوش کے ناخن لے ورنہ پورا بھارت پاش پاش ہوجائے گا۔ اسکی داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔