بھوٹان پر بھارت میں دراندازی کے الزامات

بھارت خود کو ایک کامیاب جمہوری ریاست قرار دیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ شاندار جموریہ آج کل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بھارت میں اس وقت 67 علیحدگی کی تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ جن میں 17بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں ہیں اور ان تحریکوں نے دہشت گردی کے تربیتی کیمپ بھی قائم کر رکھے ہیں۔ صرف آسام میں 34دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ 162 اضلاع پر انتہا پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے جبکہ نکسل باڑی تحریک نے خطرناک شکل اختیار کرلی ہے۔
بھارت میں چلنے والی آزادی اور علیحدگی کی تحریکوں میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا ، مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، کارگورکھا ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ شامل ہیں۔ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائینارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی، کوکی ڈیفنس فورس، ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل، تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس ، تری پورہ آرمڈ ٹرائیبل والنٹیرز فورس ، تری پور مکتی کمانڈوز، بنگالی رجمنٹ ، مینرو رام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ، پنجاب میں ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈو فورس، بھنڈرانوالہ ٹائیگر فورس، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی ہیں۔ اس کے علاوہ گوہاٹی میں رات کے وقت سڑکوں پر گوریلوں کا راج ہوتا ہے اس لیے غروب آفتاب کے بعد لوگ گھروں باہر نہیں نکل سکتے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی پنجاب، ناگا لینڈ, بہار, مغربی بنگال, مقبوضہ کشمیر اور آزادی پسند ریاستوں کے تقریباً 66فیصد عوام بھارت سے اکتا چکے ہیں۔
تاحال بھارت میں ناگالینڈ ، مینرورام ، منی پوراور آسام میں یہ تحریکیں عروج پر ہیں۔جبکہ بھارتی پنجاب میں خالصتان کی تحریک نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کردی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک عروج پر ہے۔ چین لداخ اور ارونا چل پردیش پر نظریں گاڑھے بیٹھا ہے اور نہ صرف کشمیر بلکہ اروناچل پردیش کے شہریوں کو چین کے ویزا سے مستثنٰی قرار دے چکا ہے۔ بھارت مسلسل الزام لگارہا ہے کہ چین اروناچل پردیش اور لداخ میں مداخلت کرکے بھارت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ان تحریکوں نے بھارت کے دیگر حصوں بہار،آندھرا پردیش، مغربی بنگال پر بھی اثرڈالا ہے۔
کچھ علیحدگی پسند تنظیمیں بھارت، بھوٹان سرحد پر چل رہی ہیں۔ بھارت اور بھوٹان کے درمیان بھی گداز سرحد ہے جو کہ کمزور کمان کے درمیان دوڑ رہی ہے۔ بھارت کئی مرتبہ بھوٹان پر الزام لگا چکا ہے کہ اس نے اپنی سرزمین پر تخریب کاروں کو تربیت دینے کے لیے کیمپ کھول رکھے ہیں جو کہ ہندوستان میں کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ بوڈو قبائل کے لوگوںنے آسام کے اندر ایک اور گروہ منظم کر رکھا ہے جسے نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ گروہ بھی برہمن کی جان لیوا آزاریوں سے تنگ آکر اپنے علاقے بوڈو لینڈ کی مکمل خود مختیاری کی جنگ لڑ رہا ہے۔ 3 اکتوبر1965 کو اوڈلا خاصی بائی کے مقام پر اس گروہ کی باقاعدہ تشکیل عمل میں لائی گئی۔ اسے بوڈو سیکورٹی فورس کے نام سے بھی مقامی علاقوں میں یاد کیا جاتا ہے۔ بھارت اور بھوٹان کے سرحدی علاقوں میں اس عسکری گروہ آزادی کے تربیتی کیمپس قائم ہیں۔ دسمبر 2003 میں بھارتی اور بھوٹانی افواج نے مشترکہ آپریشن کے ذریعے ان تربیتی کیمپوں کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن جن تحریکوں کو عوامی حمایت حاصل ہو انہیں کوئی بڑی سے بڑی قوت بھی کیونکر دبا سکتی ہے۔ 24 مئی 2005 کو بھارتی حکومت نے اس گروہ کے ساتھ معاہدہ صلح کیا لیکن بھارتی حکومت نے اسے جلد ہی بھلا دیا۔
نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ کے وائس چیئرمین جی بدائی اور اس کے ساتھ 20 لوگوں کا کلیدی گروہ آج کل بھارتی فورسز کیلئے درد سر بنا ہوا ہے۔ بھارتی فورسز ان کو روکنے اور ایک علاقہ تک مخصوص کرنے میں بری طرح ناکام ہو رہی ہیں۔ علاقے میں پے در پے آپریشن کئے جارہے ہیں لیکن نتائج کچھ بھی نہیں۔ آپریشن طویل ہونے اور کوئی نتیجہ نہ نکلنے پر اب فورسز پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ (این ڈی ایف بی) کے اسلحہ بردار لوگوں نے کوکڑا جھار ضلع میں بس سے شیلانگ جا رہے آٹھ ہندی بولنے والوں کا قتل کر دیا۔ آسام میں شمالی ہند کے لوگوں کو ایسے وقت میں نشانہ بنایا گیا ہے، جب حکومت ہند اور علیحدگی پسندوں کے درمیان امن مذاکرات چل رہے تھے۔ این ڈی ایف بی (ایس) کے کمانڈر اِن چیف سنگ وجت پر آسام پولیس نے دس لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کر رکھا ہے۔ آسام میں تشدد کی حمایت کرنے والے سنگ وجت کا کہنا ہے کہ فوج ریاست کے اندر لوگوں کو کچلنے کا کام کر رہی ہے، اس لیے ان کے کیڈر ہندی بولنے والوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
بھارت میں جاری یہ علیحدگی کی خواہاں تحریکیں اس کے لیے دردِ سربنی ہوئی ہیں۔مودی سرکار نے بھارت کے اندر سے اٹھنے والی تحریکوں کو دبانے کے لیے شمشیر کا خوب استعمال کیا۔ حقوق کے مطالبے کے جرم کی پاداش میں انہیں خوب سزا دی۔ اگر صرف کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کاجائزہ لیں تو بھارت نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بزورِ شمشیر دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ انہیں بے دردی سے قتل بھی کیا اور بدنامِ زمانہ پیلٹ گنوں کے دہانے کشمیریوں پر کھول دیے جس سے ان کی آنکھیں ضائع ہو گئیں ، جسم چھلنی ہو گئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے اور بھارت سے علیحدگی کے علاوہ کوئی بھی سکیم قبول کرنے کو تیار نہیں۔علیحدگی پسندوں کی یہ تحریکیں بھارت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن