پاکستان دنیا کا واحد کاٹن پیدا کرنے والا ملک ہے جہاں گذشتہ پانچ سالوں سے کپاس کی فصل کم سے کم ہوتی جارہی ہے جس سے تین بنیادی نقصانات ہو رہے ہیں ہر سال اربوں ڈالرز کی کاٹن امپورٹ کرنا پڑ رہی ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے ہیں جس کا اثر ملکی معیشت پر پڑتاہے پاکستان میں 300ارب روپیے کی کاٹن جینگ انڈسٹری سے کپاس کی فصل کم ہونے سے یہ انڈسٹری سکڑ رہی ہے اور اربوں کی جینگ انڈسٹری کباڑ میں تبدیل ہو رہی ہے تیسرا نقصان یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری جو 13سے15ارب ڈالرز سالانہ ایکسپورٹ کر رہی ہے کاٹن اس کا اہم اور بڑا خام مال ہے جب کپاس کی فصل کم ہوتی ہے تو اس ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کاٹن امپورٹ کرنا پڑتی ہے جس کی وجہ سے ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری انٹرنیشنل مارکیٹ میں دیگر ممالک سے مقابلہ نہیں کر پاتی اور ملکی ایکسپورٹ اس سے کم ہوتی ہے پاکستان میں کاٹن کی پیداوار کم ہونے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں
(1)غیر معیاری کاٹن سیڈز
پاکستان میں ایک ہزار سے زائد سیڈ کمپنیاں ہیں جو کاشتکار کوسیڈ فراہم کر رہی ہیں ان سیڈ کمپنیوں کاسیڈ تیار کرنے کا طریقہ 1960کی دہائی کا ہے پوری دنیا میں کاٹن ریشہ کی لمبائی اور ریشہ کی طاقت کی بنیاد پر فروخت ہوتی ہے اور پوری دنیا میں کاٹن کی جو ورائٹی تیار ہوتی ہے اس کی بنیاد بھی کاٹن کے ریشے کی لمبائی اور طاقت ہوتی ہے دنیا کے ہر کاٹن اگانے والے ملک کی یہ کوشش ہے کہ وہ ایسی ورائٹی تیار کریں جس کا ریشہ لمبا اور مضبوط ہو جبکہ پاکستان میں 1960کی دہائی کی طرز پر جو کاٹن سیڈ تیار ہو رہے ہیں ان کی بنیاد صرف یہ ہے کہ کپاس میں سیڈ یعنی بنولہ کا وزن زیادہ ہو یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں 100کلو کپاس میں سے جینگ کے بعد اوسط 28کلو روئی نکلتی ہے جبکہ دنیا میں 100کلو میں سے 40سے50کلو روئی تیار ہوتی ہے کیونکہ پاکستان میں سیڈ کمپنیاں مسلسل ایسی سیڈ ز کی ورائٹیز ملٹی پلائی کر رہی ہیں جن میں کاٹن سیڈ کا وزن زیادہ ہے حکومت فوری طور پر دو کام کرے کہ 1ہر سیڈ کمپنی کو پاپند کرے کہ وہ اپنے سیڈ کے تھیلے کو جو وہ کاشتکار کو فروخت کر رہے ہیں اس پر سیڈ سے تیار ہونے والی کاٹن کے ریشہ کی لمبائی اور طاقت درج کرے 2کاٹن سیڈ بیگ پر یہ بھی درج ہوکہ جو سیڈ کاشتکار کو فراہم کیا جا رہاہے اس سے تیار کردہ کپاس میں کاٹن کی مقدار کتنی ہو گی اور کاٹن سیڈ کی مقدار کتنی ہو گی ۔
(2)کاٹن فیلڈکی زونگ ریسرچ کا نہ ہونا
پاکستان میں کاٹن کی فصل کم ہونے کی دوسری وجہ کاٹن اگانے والے علاقوں کی زونگ نہ ہونا ہے کاٹن پیدا کرنے والے تمام ممالک میں ہر علاقہ میں الگ سیڈ استعمال ہو تاہے امریکہ میں کیلی فورنیا اور ٹیکساس میں ایک سیڈ کی ورائٹی کاشت نہیں ہوتی امریکہ کیا پوری دنیا میں ہر علاقہ کیلئے ریسرچ کر کے الگ سیڈ لگایا جاتاہے لیکن پاکستان میں ایک ہی سیڈ ساہیوال سے لیکر میر پور خاص تک کوئی بھی کسان لگا سکتا ہے اس کا نقصان یہ ہو تاہے کہ جہاں یہ سیڈ کی ورائٹی موافق ہے وہاں فصل اچھی ہوتی ہے اور جہاں کا موسم ،زمین اس کا ساتھ نہیں دیتی وہاں فصل خراب ہو جاتی ہے اور کاشتکار کو ناقابل تلافی نقصان ہو تاہے بد قسمتی سے پاکستان میں کاٹن کے ریسرچ اداروں کو اس جانب نہ کوئی سوچ ہے اور نہ ریسرچ ،نہ ڈیتا نہ اس پر کسی نے غور کیا ۔
(3)پاکستان میں زرعی ادویات کے کارخانے نہ ہونا جس سے غیر معیاری زرعی ادویات کاشتکارکو ملتی ہیں
کپاس کی فصل متاثر ہونے کی تیسری وجہ زرعی ادویات ہیں پاکستان میں زرعی دوائی بنانے کا کوئی کارخانہ نہیں ہے تمام کی تمام زرعی ادویات چین اور دیگر ممالک سے امپورٹ ہو کر آتی ہیں اور پاکستان میں زرعی دوائی فروخت کرنے والی کمپنیاں بڑے ڈرموں سے چھوٹی پیکنگ میں کر کے فروخت کر دیتی ہیں اور زرعی دوائی کے حوالے سے کوئی ریسرچ بھی نہیں ہے گذشتہ تین سالوں سے سفید مکھی کپاس کی فصل کیلئے سب سے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے اندازہ ہے کہ سالانہ 30لاکھ کاٹن بیلز صرف یہ سفید مکھی کھا جاتی ہے اس کو کنٹرول کرنے کیلئے موثر زرعی ادویات نہیں ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ کپاس پر سفید مکھی کسی اور ملک میں نہیں ہوتی صرف پاکستان میں ہوتی ہے اب زرعی ادویات جن ممالک سے امپورٹ ہو کر آتی ہیں وہاں سفید مکھی کی زرعی دوائی بنتی ہی نہیں ہے اس کا حل یہ ہے کہ حکومت صنعت کاروں کو ملک میں سہولتیں فراہم کریں کہ وہ زرعی اودیات کا کارخانہ ملک میں لگائیں دوسرا زرعی ادویات پر سخت چیک انیڈ بیلنس ہو تاکہ کاشتکار کا نقصان نہ ہو ۔
(4)حکومت کی جانب سے کپاس کے سپورٹ پرائز کے اعلان کا نہ ہونا
چوتھی اہم اور بڑی وجہ پاکستان میں حکومت کپاس کا کوئی سپورٹ پرائز کا اعلان نہیں کرتی جس کی وجہ سے پاکستان میں کپاس کا نرخ نیو یارک کے سٹہ مارکیٹ سے جڑا ہوا ہے کاشتکاروں کی اکثریت نیو یارک کے سٹے کو بیس بنا کر کپاس فروخت کرتی ہے دنیا کے ہر کپاس پیدا کرنے والے ملک میں ایک بنیادی قیمت کا تعین حکومتی ادارے کرتے ہیں لیکن پاکستان میں کپاس کا نرخ نیویارک کے بعد مقامی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی سے جڑا ہوا ہے پاکستان میں کپاس کی قیمت تعین کرنے کا کوئی مقامی میکنزم نہیںہے حکومت ہر سال کپاس کے سپورٹ پرائز کا اعلان کرے جس طرح گندم اور گنا کا کیا جاتا ہے تاکہ کپاس پیدا کرنے والے کاشتکار کی حوصلہ افزائی ہو ۔
(5)کاٹن بیلٹ پر گنا اور مکئی کی کاشت
پانچویں اہم وجہ کاٹن بیلٹ پر گنا ،مکئی کی بے تحاشہ کاشت ہے جس سے کپاس کا ایریا مسلسل کم ہو رہاہے کاٹن بیلٹ پر کپاس کے علاوہ تمام فصلوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اب جن جن اضلاع میں گنا کی کاشت میں اضافہ ہوا ہے وہاں وہاں کاٹں کی فصل کم ہے ۔
کپاس کی کہانی "
Feb 01, 2021