آدھا وقت گزر گیا 

لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ نصف دور حکومت گزار کر بھی پی ٹی آئی اس قابل نہیں ہو سکی کہ اپنی راہ کو صاف کرا سکے۔ ماضی کی حکومتوں کی کوتاہیاں گنوانے کا وقت گزر چکا‘ گردشی قرضے جون 2018ء کے آخر میں ایک ہزار ایک سو اڑتالیس ارب روپے تھی مگر ڈھائی سال میں یہ دو ہزار تین سو ساٹھ ارب تک کیوں پہنچ گئے۔ بجلی کی کسی تقسیم کار کمپنی میں بہتری کے آثار کیوں دکھائی نہ دیئے۔ بجلی کی مارکیٹ کو اوپن کیا جارہا ہے۔ اگلے دو تین سال میں صارف کے پاس چوائس ہوگی کہ وہ سرکاری کی بجائے کمپنیوں سے بھی بجلی خرید سکے گا۔ پٹرول بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ سے ہر شے کی قیمت میں اضافہ یقینی ہوتا ہے۔ اس وقت ملکی تاریخ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں سب سے زیادہ ہیں۔ اس سے پہلے 117 روپے فی لٹر تھیں‘ اس وقت عالمی منڈی میں تیل 147 ڈالر فی بیرل تھا جبکہ آج عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 50 ڈالر کے قریب ہے۔ بجلی استعمال کی جائے یا نہ کی جائے‘ بجلی پیدا کرنیوالوں کو 2023ء تک 1455 ارب روپے کی ادائیگی کرنی پڑیگی۔ ن لیگ کی حکمرانی کے بعد گردشی قرضوں میں 14 سو ارب روپے کا اضافہ کیسے ہوا۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی کی اوسط شرح میں 0.32 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ باربار بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات ہی پر نظر کیوں پڑتی ہے۔ ٹیکسوں کی آمدن بڑھانے کے اور طریقے بھی ہونگے۔ مکانوں‘ دکانوں کا کرایہ بڑھتا جارہا ہے‘ کرایہ داری میں اپنی زندگی کی تلخیوں کو سہ رہے ہیں۔ چیمبر آف کامرس پڑھے لکھے افراد کو روزگار کی فراہمی میں کس قدر مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ اگر نہیں تو کیوں نہیں ہو رہے۔ ہماری برآمدات کا ساٹھ فیصد تو صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کا مرہون منت رہا ہے۔ یہ ایشیاء کی آٹھویں بڑی برآمدی صنعت ہے۔ پاکستان میں کل قابل کاشت رقبہ پانچ کروڑ ایکڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس میں سے دو کروڑ تیس لاکھ ایکڑ کے قریب اراضی پر گندم کاشت ہوتی ہے‘ کپاس اسی لاکھ ایکڑ کے ساتھ دوسری بڑی فصل تھی جس سے روئی کی ایک کروڑ تیس لاکھ گانٹھیں حاصل ہوتی تھیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ڈیڑھ کرو گانٹھیں درکار ہوتی ہیں۔ بیس لاکھ گانٹھیں درآمد کی جاتی تھیں لیکن روئی کی پیداوار گھٹتے گھٹتے ساٹھ لاکھ گانٹھ تک گر گئی۔ اب 90 لاکھ گانٹھیں درآمد کرنا پڑی گی جس پر ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر خرچ ہونگے۔ کپاس کی پیداواری لاگت قیمت فروخت سے زیادہ ہے۔ فی ایکڑ پیداوار پہلے کی نسبت نصف بلکہ کئی علاقوں میں ایک تہائی رہ گئی ہے۔ اوسطً پیداوار محض بارہ سے تیرہ من فی ایکڑ رہ گئی ہے۔ زیرکاشت رقبہ صرف چالیس لاکھ ایکڑ رہ گیا ہے۔ ایک زرعی ملک میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ ایک ہی سیزن میں کپاس‘ گندم‘ چینی‘ دالیں اور خوردنی تیل درآمد کرنا پڑ رہا ہے۔ ارکان اسمبلی کے وزیراعظم کے سامنے گلے شکوے سامنے آئے ہیں۔ ارکان کے نزدیک مشیر‘ وزیر سبزباغ دکھا رہے ہیں۔ عوام کو کچھ مل رہا ہے نہ کام ہو رہے ہیں جس پر عمران خان نے اگلے مالی سال سے ارکان پارلیمنٹ کو پچاس پچاس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کا اعلان کیا۔ پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی میں ارکان کی وزیر خزانہ اور معاشی ٹیم پر تنقید سامنے آئی۔ کراچی پلان پر بھی مایوسی کا اظہار ہوا۔ وزراء کے احتساب کا مطالبہ بھی ہوا۔ ارکان اسمبلی کو فنڈز ماضی میں دیئے جاتے رہے جسے وہ اپنی مرضی سے اپنے حلقۂ انتخاب پر خرچ کرتے رہے۔ اسی طریقے سے ارکان حکومت سے مطمئن رہتے ہیں اور انکے ووٹرز بھی ان سے قدرے مطمئن ہوتے ہیں۔ پاکستان کو عالمی بنک سے بارہ ارب ڈالر قرضے کی فراہمی کا امکان ہے۔ یہ قرضہ 2022ء سے 2026ء تک کیلئے ہوگا۔ بنک نے تعلیم‘ صحت‘ ماحولیات‘ پیداواری عمل میں پیش رفت اور گڈگورننس کو اپنی ترجیحات قرار دیا ہے جبکہ پاکستان کا اصرار ہے کہ آئندہ پارٹنر شپ فریم ورک میں انسانی ترقی‘ تخفیف غربت‘ محصولات اور اقتصادی اصلاحات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 30 جون 2020ء تک پاکستان پر 77.9 ارب ڈالر کے غیرملکی قرضے واجب الادا تھے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں چھ فیصد زیادہ تھے۔ ان بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی بھی اربوں ڈالر میں ہے۔ غیرملکی قرضوں سے مستقلاً نجات کی صورت دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ 2020ء میں مہنگائی دس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔ بجلی کے کئی جھٹکے لگ چکے ہیں۔ حکومت نے احسان کیاکہ دو روپے 18 پیسے کا اضافہ کرنے کے بجائے ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کر دیا۔ ہزاروں میگاواٹ کے جو منصوبے بنائے گئے ان کا 54 فیصد دارومدار مہنگے ذرائع پر ہے جن میں فرنس آئل 16 فیصد‘ قدرتی گیس 12‘ ایل این جی سے 26 فیصد بجلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ ہائیڈرل پاور 27 فیصد‘ ہوا اور شمسی توانائی سے پانچ فیصد بجلی پیدا کررہے ہیں۔

 ہر مسئلے کا علاج نیب کے پاس نہیں۔ سرکاری ملازمتیں ختم کرنے کا نامناسب فیصلہ سامنے آیا ہے۔ وفاقی حکومت نے 70 ہزار خالی اسامیاں جبکہ 114 ادارے ختم اور ضم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پی ٹی آئی نے انتخابات میں عوام کو ایک کروڑ نوکریاں‘ پچاس لاکھ گھر اور وزیراعظم و گورنر ہائوسوں کو یونیورسٹیاں بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ملکی ترقی کی شرح نمو 2018ء میں 5.6 فیصد تھی‘ کم ہو کر منفی 0.5 فیصد تک گر چکی ہے۔ ریڈیو پاکستان اور سٹیل ملز کے ہزاروں ملازمین فارغ کئے جاچکے ہیں۔ وفاقی حکومت کے اداروں کی تعداد 441 سے کم کرکے 324 کی جارہی ہے۔ 

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن