فرانسیسی ناول نگار وکٹرہیوگو نے کہا تھا’’دنیا میں چھوٹا ملک نام کی کوئی چیز نہیں۔کسی قوم کی عظمت کا تعیّن اس کے افراد کی تعداد یا خطۂ زمین کے سائز سے نہیں کیا جاسکتا بالکل اسی طرح جیسے کسی انسان کی عظمت کا اندازہ اس کے وزن اور قدوقامت سے نہیں لگایا جاسکتا۔‘‘اگریہ نظریہ صحیح ہے(اور اس کی صداقت میں شک وشبہ کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی)تو نیپال (1988ئ کے مطابق)اپنی لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ کی آبادی اور55ہزار مربع میل رقبے کے سا تھ ایک عظیم ملک ہے۔یہ اپنے قدرتی حُسن،کیف آور موسم،جفاکش اور متواضع عوام،پُرامن ماحول،عظیم الشان تاریخی عمارتوں،پُرجلال پہاڑی سلسلوں اور پُررونق بازاروں کی بنا پر ایک عظیم ملک ہے۔نیپال برصغیر پاک وہند کی شمالی سرحد پر واقع ایک ہمالیائی ریاست ہے۔1988ئ میں اپنے ایک قریبی دوست(مرحوم جمیل الرحمن)کے ہمراہ مجھے اس جنت ارضی میں جانے کا اتفاق ہوا۔یہ ایک نجی اور تفریحی دورہ تھا جس کے لیے میںنے نیپال کے’’کرماچاری سنچایاکوش‘‘(’’کے ایس کے‘‘یاملازمین کے پراویڈنٹ فنڈ کا ادارہ)میں کام کرنے والے اپنے(اَن دیکھے)دوستوں کو پہلے سے مطلّع کردیا تھا۔یہ ادارہ’’بین الاقوامی سوشل سیکوریٹی ایسوسی ایشن ‘‘کارکن ہے۔ پاکستان کے سماجی تحفظ کے صوبائی ادارے بھی اس تنظیم کے رکن ہیں۔ راقم الحروف سندھ سوشل سیکیوریٹی سے وابستہ تھا۔یہ دُور ازکارقسم کا تعلق،تعارف کے لیے کافی ثابت ہوااورنیپالی دوستوں نے مہمان نوازی کا حق ادا کردیا۔اولاً تو ’’کے ایس کے‘‘کے چیرمین مسٹر ٹیک بہادر کھتری(جو اپنے ملک کے ایک آزمودہ کار اعلیٰ سرکاری افسر تھے)ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں ۔جن کی ایما پر ہمیں یہ تعاون میسر آیاپھران کی ڈپٹی مسنرسوائم سنگھ کے شفقت آمیزرویہ کی بدولت ہمارے لیے آسانیاں پیدا ہوئیں۔جوں ہی ہمارا طیارہ کٹھمنڈو کے تِری بھون ائیرپورٹ پر اترا اور ہم اس سے باہر آئے،فرحت بخش ٹھنڈی ہوا کے تیز جھونکوں نے ہماراخیر مقدم کیا۔کراچی کی جُھلسا دینے والی گرمی سے نکل کر ڈھائی گھنٹے بعد ہی ایک سرسبزوشاداب،یخ بستہ اور حسین وادی میں پہنچ جانا ایک خواب سالگا ۔کسٹمز اور امیگریشن کی کارروائی منٹوں میںمکمل ہوگئی۔ہمیں تجسّس تھا کہ ہماری پذیرائی اور رہنمائی کی غرض سے ’’کے ایس کے‘‘سے کوئی صاحب تشریف لائے ہیں یا نہیں۔ہم نے اپنے دوستوں کو لکھا تھا کہ ہم اپنے قومی لباس(قمیص شلوار) میں ملبوس ہوں گے اور خام سلک کی واسکٹ پہنے ہوں گے۔اب صورتِ حال یہ تھی کہ ہم لائونج میں چاروں طرف گھوم پھر کرفیشن شو کے انداز میں اپنی واسکٹ کی نمائش کررہے تھے مگروہاںکوئی بھی توجہ نہیں دے رہا تھا۔ہمارے دوست جمیل صاحب مایوس ہوگئے اور انھوں نے مشورہ دیا کہ اپنے طورپر کسی ہوٹل کا بندوبست کرلیناچاہیے۔اس دوران ہمارے گِرد ہوٹلوں کے دلالوں اور ٹیکسی ڈرائیوروں کی گورکھا پلٹن جمع ہوچکی تھی۔وہ سب ہم دونوں کو اپنی اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ بہرحال ہم اتنی جلدی حوصلہ ہارنے والے نہیں تھے۔ہم لوگ اپنا سامان سنبھال کرائیر پورٹ کی عمارت سے باہر نکلے۔اِدھرہم سڑک پر نمودار ہوئے اوراُدھرسامنے سے ایک ادھیڑ عمر،پستہ قد،چھریری جسامت، تیکھے نقوش اور گوری رنگت والے صاحب ہماری جانب لپکے۔انھوں نے انگریزی میں سوال کیا’’آپ پاکستان سے آئے ہیں؟‘‘ ’’جی ہاں‘‘ہم نے پُر جوش جواب دیا اور دل میں خدا کا شکرادا کیا کہ آخرکارکوئی پُرسانِ حال تو ملا۔انھوں نے دوسرا سوال براہِ راست ہم سے پوچھا’’آپ قریشی صاحب ہیں؟‘‘اب تو تردّد کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ گئی تھی۔ہم نے انھیں مطلّع کیا کہ جناب ہم ہی وہ وی آئی پیز ہیں جن کے پُرتپاک استقبال کے لیے آپ یہاں تشریف لائے ہیں۔اس پر وہ صاحب کھِل اٹھے اور بولے’’مجھے کافلے(Kaphle)کہتے ہیں۔پدماراج کافلے اورمیں’کے ایس کے‘میں ڈپٹی چیف آفیسر ہوں۔‘‘اس واجبی سے تعارف کے بعد کافلے جی(جنھیں آپ اردو کا’’قافلے‘‘ سمجھیں)ہمیںاپنی جِیپ میں بٹھا کر اُس ہوٹل کی طرف لے چلے جہاں انھوں نے ہماری بکنگ کروارکھی تھی۔راستے میں کھُل کر باتیں ہوئیں تو پتا چلا کہ موصوف ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ایک سرکاری افسر،ایک وکیل،ایک ادیب،ایک لکھائی اور انگلیوں کے نشانات کے ماہر__ ساری خصوصیات ان کے مختصر سر اپے میں مجتمع ہوگئی تھیں۔ان کے علم،مشاہدے اورلوگوں سے تعلقات کی بدولت ہمارا دورہ بے حد دلچسپ، معلوماتی اور یادگار ثابت ہوا۔تفریح کا آغاز دوسرے دن ایک پُر فضا اور سحر انگیزمقام نگرکوٹ سے ہوا۔یہ جگہ کٹھمنڈوسے ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر تقریباً سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور یہاں کے لیے ہمیںٹھٹھراتی ہوئی سردرات میںساڑھے تین بجے کے قریب تیار ہونا پڑا۔خوش قسمتی سے اس رات بارش نہیں ہوئی ورنہ ساراپروگرام چوپٹ ہوجاتا۔جہاں ہم جانے والے تھے،اُس جگہ کی خاص کشش ہمالیہ کی اوٹ سے طلوعِ آفتاب کا نظارہ تھا۔بقول کافلے صاحب،یہ خاص الخاص نظارہ کسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے۔بلندوبالا اور دیوہیکل پہاڑوں کے بیچ میں واقع یہ جگہ خود اپنے طور پر ایک تفریح گاہ سے کم نہیں جیسے ہمارے یہاں مری کی برف پوش وادیوں میں کشمیر پائنٹ ہے۔آدھی رات کے بعدکافلے صاحب ہوٹل پہنچ گئے اور ہمیں اپنے ساتھ لے لیا۔ جب ہماری جیپ صاف ستھری اور کشادہ سڑک پر دوڑ رہی تھی تو پورا شہر نیند کی وادی میں کھویا ہواتھا۔ہرطرف ہُوکاعالم تھا۔آدھے گھنٹے بعدجب پکی سڑک ختم ہوئی توایک کچی اور پتلی سڑک پر چڑھائی کاہولناک سفر شروع ہوا۔اب صورتِ حال یہ تھی کہ بائیں طرف دیوقامت پہاڑ اور دائیں طرف مہیب گھاٹیاں!ہرسُوگھپ اندھیرااور چڑھائی تھی کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ایک نظر ہم گاڑی سے باہر گھاٹیوں پر ڈالتے تو روح کانپ جاتی۔ہرگزرتے لمحے کے ساتھ یہ احساس کپکپادیتا کہ وہ زیادہ سے زیادہ گہری ہوتی جارہی تھیں۔ایک مرحلے پر جمیل صاحب نے ہمارے کان میں سرگوشی کی’’بھائی معین،اگرخدانخواستہ ہماری جیپ پھسل کر نیچے گرجائے تو کئی دن تک تو خبر بھی نہ بنے۔اس ویرانے میں کیا ہوا،کسے علم ہوگا۔‘‘ہم نے ان سے کہا ’’یارکیوں ہماری وحشت میں اضافہ کررہے ہو۔اب اتنے اُوپرآچکے ہیں کہ واپس نہیں جاسکتے۔سڑک اتنی تنگ ہے کہ گاڑی مڑ بھی نہیں سکتی۔اب صرف اﷲ سے لَو لگائو اور چہرے پر مصنوعی بے فکری کے تاثرات پیدا کرو۔جب کچھ نہیںکرسکتے،تو یہی کچھ کرتے ہیں۔‘‘جمیل صاحب ہمارا خطبۂ صداقت سن کرایسے چپ ہوئے کہ معلوم ہوتا تھا جیپ میں چار نہیں تین افراد ہیں۔ صبح پانچ بجے کے قریب ہم نگرکوٹ پہنچ گئے۔وہاں ایک بہت بڑا اور خوبصورت پارک تھا۔پہاڑ کی چوٹی پرپارک ہمارے لیے ایک انوکھا مشاہدہ تھا۔ہمارا خیال تھا کہ یہیں کسی بینچ پر بیٹھ کر ہم سورج کو طلوع ہوتے دیکھ لیں گے لیکن بتایاگیا کہ ایک سوفٹ بلندعمودی سیڑھیوں والے ٹاور (Stair-well) پر بھی چڑھناہوگاجو سورج مہارج کاسواگت کرنے والوں کے لیے وہاں بنایا گیاتھا۔یہ ہماری جسمانی ساخت اورصحت کے لیے ایک کھلاچیلنج تھا۔تاہم،وفورشوق میں ہم اپنی کمر کے درد کو نظر اندازکرکے آہستہ آہستہ ٹاور پرچڑھ گئے۔جمیل صاحب کو ایک سیڑھی نیچے رکھاتاکہ ہنگامی حالت میں ہماری داد رسی کرسکیں۔اُوپر ایک بڑاساچپوترا تھا جس کے چاروں طرف اسٹیل کا جنگلہ لگا ہواتھا۔ سردہوا کے جھکڑوں سے خون منجمد ہوتا محسوس ہورہاتھا۔سورج کے جلوہ گر ہونے میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا۔اب ہماری آنکھیں دُورہمالیہ کی چوٹیوںپر مرکوز تھیں اور زبان پر یہ شعر تھا ؎
مشتاق ہوں میں رشکِ قمر تیری دید کا
آسامنے کہ طالبِ دیدار آگئے
بالآخروہ لمحہ آیا جس کی کشش ہمیں یہاں کھینچ لائی تھی۔سورج نے ہمارے بالکل سامنے پہاڑکی چوٹی سے آہستہ آہستہ جھانکناشروع کیا۔ پہلے معلوم ہوا جیسے برف کے بہت بڑے گولے کے پیچھے زبردست آگ کی بھٹّی روشن ہوگئی ہے۔سفید بادلوں میں اس آگ کی سرخی نے ماحول پرمدہوشی طاری کردی تھی۔ہمیں اپنے دوست ثاقب انجانؔ کا یہ برمحل شعر یادآگیا ؎
سورج ہے برف پوش پہاڑوں کے درمیاں
یانقرئی فریم کے اندر جڑی ہے دھوپ
پھر جب دھوپ کی شعائوں نے بادلوں کو پھاڑ کرباہر نکلناچاہا تو یہ منظراتنا وجدآور تھا کہ خود ہمارا کپڑے پھاڑنے کو جی چاہا(شایداتنی سردی نہ ہوتی تو ہم بے خودی میںیہ حرکت کربیٹھتے)۔پھر اچانک سیاہ بادل کا ایک ٹکڑاسرخی پر حاوی ہوگیالیکن جہاں جہاں سے ایک کرن کو بھی باہر آنے کی جگہ ملتی،وہ قیامت ڈھادیتی تھی۔کچھ دیر سورج اور بادلوں کی یہ چھیڑخانی جاری رہی اور اس حسین واردات کے چشم دیدگواہ صرف دو پاکستانی تھے(قافلے جی نیچے ہی ٹھہرگئے تھے)۔چند لمحوں بعد مہاراج جیت گئے اور پہاڑ کی چوٹی سے دھیرے دھیرے اپنا درشن کرانے لگے۔ایک تو سفید بُراق برف کی چمک،اس پر سنہری دھوپ کا غلبہ!کہاں سے لائیںوہ الفاظ جو اس حسنِ فطرت کااحاطہ کرسکیں اَوربرف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کی اورسے صبح کی آمدکے منظر کو رقم سکیں۔ہم نے حضرتِ جوشؔ ملیح آبادی کا ایک شعر بہت عرصے پہلے پڑھا تھا،اس کی عملی تفسیر اپنی آنکھوں سے وہاں دیکھی۔آپ بھی سنیے ؎
ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
جوشؔ صاحب نے یہ شعرعام صبح کے لیے کہا تھا اگر وہ والی صبح دیکھ لیتے جو ہم نے دیکھی تھی تو ایک شعر کے بجائے پورا دیوان لکھ دیتے اور پھر بھی کہتے ع حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔کافلے صاحب نیچے ہمارے منتظر تھے لیکن اُس وقت ہمیں اپنا بھی ہوش نہ تھا۔اگر ٹھنڈہمارے لطف میں بھنڈنہ کرتی تو نہ جانے کب تک وہیں دم بخود کھڑے رہتے۔اُوپر کے کیف آور نظارے جاری تھے کہ اچانک نیچے پارک میں ایک ناچنے گانے والوں/والیوں کا طائفہ نظرآیا۔وہ سب اپنے ثقافتی لباس میں ملبوس تھے۔پھر ڈھول کی تھاپ پر نیپال کا روایتی رقص شروع ہوا۔ہم’’خوش ذوق‘‘واقع ہوئے ہیں۔اُوپر کھڑے کھڑے رقص و موسیقی سے لطف انداز ہورہے تھے۔جمیل صاحب بار بار پوچھ رہے تھے’’یار یہ گانے اور ٹھمکے لگانے والے کہاں سے آگئے؟‘‘ہم نے ان سے کہا’’آپ کو آم کھانے سے غرض ہے یا پیڑ گننے سے؟‘‘بعد میں معلوم ہوا کہ کبھی کبھار جب موسم سازگار ہوتا ہے تو یہ فنکار سیاحوں کی تفریح طبع کے لیے یہاں آکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اوراپنی لیے کچھ یافت کا بندوبست بھی کر لیتے ہیں۔پندرہ بیس منٹ بعد ہم آہستہ آہستہ نیچے اترے اور ان سب کی پرفارمنس کوقریب سے دیکھا۔ظاہر ہے،کچھ جیبیں بھی ہلکی ہوئیں لیکن پھر بھی سودا مہنگا نہ تھا۔قدرتی حسن میں رقص و موسیقی کا تڑکہ گویا سونے پہ سہاگا تھا۔اُس روز علامہ اقبال کا یہ شعربھی اچھی طرح سمجھ میں آگیا کہ ؎
حسنِ بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بَن؟
(جاری ہے...)