امریکہ کے محکمہ دفاع نے گوانتاناموبے کے قیدیوں کو عالمی وبا قرار دیے جانے والے کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگانے کا عمل روک دیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اہم ری پبلکن رہنماؤں اور نیویارک کے شہریوں کی جانب سے کی جانے والی شدید مخالفت ہے۔
گونتاناموبے کے قیدیوں میں خالد عمر شیخ بھی شامل ہے جس پر نائن الیون کے حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام ہے۔ نائن الیون کے حملوں کا بڑا نشانہ اس وقت نیویارک کے شہری بنے تھے۔امریکی محکمہ دفاع کے اسسٹنٹ سیکریٹری برائے عوامی امور جان کربی نے اس ضمن میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ فورس پروٹیکشن کے پروٹوکول پر نظر ثانی کرتے ہوئے ہم منصوبے کو آگے بڑھانے کا عمل روک رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے فوجیوں کی حفاظت کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے عزم پر کاربند ہیں۔
مؤقر امریکی اخبارات نے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ فوج نے 27 جنوری کو ایک حکمنامے پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ گونتانا موبے میں رہ جانے والے 40 قیدیوں کو رضاکارانہ طور پر کورونا ویکسین لگائی جائے گی۔ 40 قیدیوں میں چھ پاکستانی بھی شامل ہیں۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق جیسے ہی خبر منظر عام پر آئی تو ری پبلکن سمیت عوام الناس نے اس حوالے سے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکیوں سے پہلے انہیں ویکسین دینے کا انتظام کیا جا رہا ہے جن پر دہشت گردی کے الزامات ہیں۔
امریکی ایوان میں اقلیتی رہنما کیون میکارتھی نے اس حوالے سے اپنے ٹوئٹ پیغام میں کہا کہ صدر جوبائیڈن نے بتایا تھا کہ ان کے پاس وائرس کو شکست دینے کے لیے پہلے ہی دن منصوبہ ہوگا لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ یہ منصوبہ زیادہ تر امریکیوں سے پہلے دہشت گردوں کو ویکسین دینے کا ہو گا۔
امریکی فوج نے گزشتہ ماہ کی ابتدا میں گوانتاناموبے میں قیام پذیر چھ ہزار افراد کو ویکسین دینے کا عمل شروع کیا تھا۔ ان میں وہ 1500 فوجی بھی شامل تھے جو گوانتانا موبے میں حفاظتی فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
اخبارات کے مطابق مارچ 2020 میں پینٹاگون نے فوجی کمانڈروں کو کورونا وائرس کے نئے کیسوں کو پبلک کرنے سے روک دیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس کے بعد نہیں معلوم کہ کتنے افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں بھی انتظامیہ نے یہ بتانے سے انکارکردیا تھا کہ قیدیوں کو کورونا ویکسین دی جا رہی ہے یا نہیں؟
گوانتاناموبے جیسے حراستی مرکز پر سالانہ 44 کروڑ 50 لاکھ ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ گوانتاناموبے میں پہلے 700 قیدی تھے لیکن اب ان کی تعداد صرف 40 رہ گئی ہے۔ان قیدیوں میں وہ بھی شامل ہیں جنہیں کلیئر قرار دیا جا چکا ہے لیکن تاحال ان کی رہائی عمل میں نہیں آئی ہے۔