ڈاکٹر نسیم حسن شاہ! اس وقت محض وکیل تھے لیکن ان کی دورس نگاہیں سُرخ اینٹوں سے بنی ہوئی اس عمارت پر جمی تھیں جس پر ترازو کا نشان بنا ہوا ہے۔ شاہ صاحب گئے تو وکلا کے پینل کی طرف سے ٗ لیکن جب انہوں نے اپنی گنجلک ٗ ذومعنی تقریر کا اختتام کیا تو پتہ چلاکہ وہ صدارتی نظام کو سپورٹ کر گئے ہیں۔ اس پر وکلاء کی طرف سے وہ شور اُٹھاکہ عمارت کے دروبام لرزنے لگے۔ منحرف گواہ! شاہ صاحب تابڑ توڑ سوالوں کی تابنہ لاکر زچ ہو کر پنجابی زبان میں بولے ’’اوئے۔ گل سنو! نظام کوئی بھی ہووے ٗ جتنا تے چوہدری محمد حسین نے ہے گا۔‘‘محفل کشتِ زعفران بن گئی۔
اس تقریب کے ثمرات سب کو ملے۔ شاہ صاحب مال روڈ پر بنی ہوئی سرخ اینٹوں والی عمارت کے اندر چلے گئے۔ ڈاکٹر بشیر شعبہ سیاسیات کے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ بنا دیئے گئے اور ہم نے بھی ایم اے کی ڈگری سمیٹ لی۔ ایوب خان کو باور کرایا گیا کہ اس ایک تقریب نے رائے عامہ کو صدارتی نظام کے حق میں ہموار کر دیا ہے۔ چنانچہ صدر صاحب نے اپنے ایک گوہر یکتا (الطاف گوہر) کو حکم دیا کہ ایسا آئین بنایا جائے جس میں صدر لائلپور کے گھنٹہ گھر کی طرح ہر طرف سے نظر آئے۔ آئین بن گیا۔ صدر کو عملاً وہ اختیار بھی مل گئے جو امریکی صدور کو حاصل ہیں۔ وہاں تو سینٹ کی صورت میں پھر تھوڑی بہت قدغن ہے۔ ایوب خان نے اپنے آئین میں وہ اڑچن بھی ختم کر ڈالی۔ چنانچہ قصر صدارت سے الیکشن کا اعلان ہوا۔ اس کیلئے 80 ہزار یونین کونس ممبران کا الیکٹرول کالج بنایا گیا۔ Basic Democracies جواز یہ پیش کیا گیا کہ ہم لوگ ہنوز جمہوریت کی رفت و بود سے آگے نہیں بڑھ پائے۔
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز!
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
ایوب خان نے صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ اسے یقین دلایا گیاکہ اپوزیشن پارٹیوں میں کوئی شخص بھی اتنے وسائل نہیں رکھتا کہ وہ سارے ملک میں الیکشن کمپین چلا سکے۔ یہ ایک قسم کا ’’واک اوور‘‘ ہوگا۔ اسکے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ جس استخوانی ہاتھ سے اس نے پنجہ آزمائی کی ہے‘ اسکی گرفت میکانکی انداز میں سخت ہوتی جائیگی۔ نوابزدہ نصراللہ خان نے قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن لڑنے کیلئے راضی کر لیا۔ تمام قوم نے یہ خبر ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ سنی۔ ایک ہلچل سی مچ گئی۔ ملک میں وہی فضا قائم ہونے لگی جو تحریک پاکستان کے وقت تھی۔ کسی کو بھی اسکا اندازہ نہ تھا۔ گھبراہٹ میں خان نے اپنے مشیروں کو ہر وہ گالی دی جو اس نے غلام محمد سے سنی تھیں Volly of abuses چنانچہ ’’جھرلو‘‘ کا استعمال ناگزیر ہو گیا۔ انتظامیہ کو خصوصی ہدایات دی گئیں۔ بالفرض نہ بھی دی جاتیںتو ہماری ’’ہمہ چوکس‘‘ بیورو کریسی اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہر وقت تیار رہتی ہے۔ چیف سیکرٹری نے کمشنروں‘ کمشنرز نے ڈی سی صاحبان کو خصوصی ہدایات دیں۔ سلسلہ وہیں پر ختم نہ ہوا اور معاملہ پٹواریوں تک جا پہنچا۔ ویسے تو نوکر شاہی کے ہر کل پرزے نے حسب توفیق کمک پہنچائی‘ لیکن حکمران کے ناظم (ایسی ) اس آرٹ کو سائنس کے زمرے میں لے آئے۔ انہوں نے الیکشن سے ایک روز قبل تمام بی ڈی ممبران کو کھانے پر مدعو کیا۔ دعوت کسی ایرے غیرے کی نہیں بلکہ حاکم وقت کی تھی اس لئے تمام ممبران اپنے وسوسوں کے ساتھ شریک ہوئے۔ کھانا مزیدار تھا۔ کہدا صاحب کا وقار بھی حلم اور ہنسی مزاح میں ڈھل رہا تھا۔ کھانے کے بعد میٹھا سرو ہوا پھر پھل آئے۔ اسکے بعد غالباً سرور آنا تھا‘ لیکن کہدا صاحب نے اچانک حساب کا ایک ایسا سوال پوچھ لیا جس نے مٹھاس میں ترشی پیدا کر دی۔ بولے۔ یہ بتائیں کہ سال میں کتنے دن ہوتے ہیں؟ 365 ممبران دنوں کو مہینوں پر ضرب دے کر بولے تو پھر سوچ لیں۔ سال میں 364 دن میرے ہیں اور ایک دن آپکا۔ کسی نے ایوب خان کو ووٹ دینے میں کوتاہی کی تو پھر‘‘! پھر کیا ہوگا؟ کچھ ممبران نے استفسار کیا۔’’تو پھر آپکو احساس ہوگا کہ نار جہنم صرف اس دنیا میں نہیں دہکتی‘ اس جہان میں بھی اسکی تپش محسوس کی جا سکتی ہے/ یہی حال کم و بیش سارے ملک کا تھا۔ضیاء الحق نے تو حدی ہی کردی۔ ریفرنڈم میں ایسا سوال پوچھا جس کے دو جواب ہو ہی نہیں سکتے تھے۔ کیا آپ ایک خدا‘ رسول اور کتاب پر یقین رکھتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میںہے تو میں صدر ہوں! صدارتی نظام میں کئی خوبیاں ہونگی۔ لیکن سب چیزوں کو نمایاں مقصدیت کے ساتھ نہیں دیکھا جا سکتا۔ جو لوگ کالاباغ ڈیم پر متفق نہیں ہو پا رہے وہ ایک ایسے نظام پر کیسے اکٹھے ہونگے جسے آزمایا اور ٹھکرایا جا چکا ہے۔ 1973ء کا آئین بننا ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ یہ اتفاق رائے اس لئے پیدا ہو کیونکہ ملک ایک بہت بڑے سانحے سے گزر چکا تھا۔ ملک کے دولخت ہونے سے وقتی طورپر ہی سہی‘ ایک قسم کا ’’کیتھارسس‘‘ پیدا ہو گیا تھا۔ تمام عصبیتیں درد کے بوجھ تلے دب گئی تھیں۔ اس وقت یہ محسوس کیا گیا کہ اگر اب بھی اتفاق نہ ہوا تو ملک اس سے بھی بڑے المیہ سے دوچار ہو سکتا ہے۔انگریزی کا محاورہ ہے۔
We must see things as they are and not as they ought to be.
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ نظام میں بڑی خامیاں ہیں۔ یہ ٹھیک طرح سے چل نہیں پا رہا۔ اس کے ذمہ دار ہمارے سیاستدان ہیں۔ جو کوئی بھی اقتدار میں آتا ہے‘ وہ لمحہ موجود پر یقین رکھتا ہے۔ اسے ذاتی مفاد ملکی مفاد سے کہیں زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ پچھلے الیکشن میں جو خرچ کیا اسے پورا کرنا۔ اور اگلے الیکشن کیلئے زرکثیر اکٹھا کرنا۔ کہتے ہیں آزمائے ہوئے کو کتنی بار پھر آزمایا جا سکتا ہے؟ ہمہ مقتدر قوتوں پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ مداخلت کرتی ہیں۔ خان نے ایمپائر کی بات کی تھی‘ حقیقت یہ ہے کہ جس قسم کا کھیل وطن عزیز میں کھیلا جا رہا ہے‘ وہاں پر ایمپائر کی موجودگی ناگزیر ہے۔ (ختم شد)