بادل سدا سمندروں پر کیوں برستے ہیں؟

Feb 01, 2022

مجھے بحیثیت ایک حساس قلم کار جمہوریت سے کوئی کد نہیں لیکن میں کبھی کبھی اپنے خلوت خانہ خیال میں سوچا کرتا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جب بھی کوئی جمہوری حکومت قائم ہوتی ہے تو اخبارات کے صفحہ اول پر اس قسم کی خبریں بہ کثرت شائع ہوتی ہیں کہ’دہشت گردی پھر بڑھنے لگی، دھماکوں اور حملوں میں اضافہ، سکیورٹی ہائی الرٹ، پٹرولیم مصنوعات: قیمتوں میں آج سے پندرہ روپے لٹر تک اضافہ کا امکان، حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں، ووٹ کو عزت دو کا کھوکھلا نعرہ اپنی موت آپ مر چکا۔ حکومت عوام کو ریلیف نہیں تکلیف دے رہی ہے۔ پاکستان کو درپیش چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے دن رات ایک کر رکھے ہیں‘ ’محنت کے باوجودملک میں چوری چکاری اور بدعنوانی بہت زیادہ ہے جس پر قابو پانے میں وقت لگے گا جس اینٹ کو بھی ہاتھ لگائیں نیچے سے گند نکلتا ہے‘ ’حکومت ملک بھر میں بیروزگاری کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے‘  ’ رواں مالی سال کے دورا ن حکومت نے بینکوں سے اتنے ہزار ارب روپے کے ریکارڈ قرضے حاصل کیے ’بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے صنعتوں کی بندش سے لاکھوں مزدور بیروزگار ‘  ’ماضی کے حکمران اگلے سو سال تک اپنی نسلوں کا معاشی مستقبل محفوظ کرچکے‘ ’پاکستان کی معیشت صحیح سمت میں ترقی کر رہی ہے‘ ’ حکومت نے ملک میں کرپشن فری کلچر اور میرٹ کو فروغ دیا ‘۔
یہ کیسا عجیب تماشا اور تضاد ہے کہ ایک طرف ملک میں ایک ملین سے زائد ایم اے اور ایم ایس سی اور چارملین گریجوایٹ نوجوان بیروزگاری کے ٹارچر سیل میں لمحہ لمحہ اور سانس سانس مر رہے ہیں۔وہ ہر صبح اپنے گھروں سے بہ صد امید کسی سنہرے موقع، بہتر مستقبل اور محفوظ روزگار کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ گلی گلی پھرنے، سڑک سڑک خاک چھاننے، در در دستک دینے، چوکھٹ چوکھٹ جھولی پسارنے، آفس ٹو آفس جوتیاں چٹخانے، ونڈو ٹو ونڈو جھانکنے،ٹیبل ٹو ٹیبل دھکے اور باس ٹو باس جھڑکیاں کھانے کے بعد ہر شام وہ ناکام و نامراد روایتی بدھوئوں کی طرح گھروں کو لوٹتے ہیں۔ اتنی ذلت، اتنی خواری اور اتنی مشقت اٹھانے کے باوجود انہیں دس پندرہ ہزار روپے ماہوار کی ملازمت بھی نہیں ملتی اور دوسری طرف بلند ایوانوں کی اونچی مسندوں پر قبا بردوش براجمان، دارالامراء کے مدار المہاموں کے فرزندانِ ارجمند اور پسرانِ سعادت مند کے لیے شاہانہ ملازمتوں کے دروازے چوپٹ کھلے ہیں۔ انکے لیے ہمہ وقت ہن برستا ہے۔ ہن برس رہا ہے اور ہن برستا رہے گا۔ ’’تماشائی‘‘ حیران ہے کہ یہ بادل سدا سمندروں پر ہی کیوں برستے ہیں؟ ان بادلوں کا کوئی ایک آدھ آوارہ ٹکڑا کبھی بھولے سے کسی خشک لب صحرا کا رخ کر کے اسے سیراب کیوں نہیں کرتا؟غریب بیچارہ سڑکوںپر گرد اور دھواں پھانکتے پھانکتے رزق غبار ہو جاتا ہے لیکن اس کو معمولی ملازمت کا پروانہ نہیںملتا اور شاہی خاندانوں کے شہزادوں کے لیے نوکریوں پر کوئی پابندی نہیںاور بے وسیلہ اور بے سفارش عام شہری جس بھی دفتر کے گیٹ پر پہنچتا ہے ’’تاحکم ثانی ملازمتوں پر پابندی ہے‘‘ کا جہازی سائز نوٹس بورڈ اس کا منہ چڑاتا اور اسکی بے بسی کا مذاق اڑاتاہے۔ غریب، بے وسیلہ و بے سفارش شہری معیار پر پورا اترنے کے باوجود میرٹ کے ڈھنڈورچیوں کے دور میں بھی نوکری سے محروم رہتا ہے، یہ محرومی آخرکار اسے خودسوزی اور خودکشی کی شاہراہ کا مسافر بنا دیتی ہے۔ اس منظر کو دیکھنے کے بعد بآسانی یہ راز پایا جا سکتا ہے کہ بے زر، بے پر اور بے در خاندانوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے جواں سال بچے چوہے مار گولیاں کھانے، چھت کے پنکھوں سے لٹکنے، دریا ئوں میں کودنے، مینار پاکستان سے چھلانگیں لگا نے اور چلتی ٹرین کے سامنے ریل کی پٹڑی پر سر رکھ کر خودکشی کرنے پر کیوں مجبور ہو جاتے ہیں؟
آخر کیوں؟ ذرا سوچئے! محروم طبقات کے یہ لائق، قابل اور ذہین ترین نوجوان گلی گلی ،نگر نگر اور ڈگر ڈگر کیوں لہو، گردے اور عزتیں بیچتے نظر آتے ہیں۔ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری طرف موروثی سیاست کے جمہوریت نواز پرچم بردار شاہی خانوادوں کے نالائق، نکمے اور نکھٹو شہزادے اور شہزادیاں بے فکر ہیں کہ ان کے آبائو اجداد نے اتنی بے تحاشا دولت دنیا بھر کے بینکوں میں جمع کرا رکھی ہے کہ ان کی آنے والی بیسیوں نسلیں کوئی کام کئے بغیر صدیوں تک ’رنگیلا شاہانہ انداز‘ میں زندگی بسر کر سکتی ہیں۔کیا قیامت ہے کہ اس صورتحال کے باوجود دارالامراء اور شاہی محل کے مدارالمہاموں کے بھائی بند، فرزند، بھانجے اور بھتیجے بیس بیس اور تیس تیس لاکھ روپے ماہانہ کے حساب سے پانچ پانچ سال کی ایڈوانس تنخواہیں آخر کس حساب، کس ضابطے اور کس ریگولیشن کے تحت ہتھیاتے رہے ہیں؟ 
اس پاک سرزمین پر قابض ناپاک سیاسی بچے جموروں کی مکروہ تاریخ کا ایک ایک صفحہ اور ایک ایک سطر اس امر کی گواہی دے رہی ہے کہ ان قابضین کے چہیتوں، فرزندوں، بھتیجوں اور بھانجوں کے لیے تو ہر دورمیں رولز اینڈ ریگولیشنز کو جا وبے جا ’نرمایا‘ (ریلیکس کیا) جاتا رہاہے۔اس موقع سے ہر کسی نے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس معاملے میں کسی نے بھی کوئی رو رعایت نہیں کی۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ کسی کا کوئی استثنیٰ نہیں، کیا شریف، کیا بدمعاش، کیا جاگیردار، کیا کارخانہ دار، کیا مسٹر، کیا مولانا، اس بہتی گنگا میں سب نے دل کھول کراشنان کیا ہے، کوئی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ حرام خوری کے اس مقابلہ میں ہر کسی نے گویا سبقت لے جانے کی کوشش کی ہے۔ اس میدان میں سبھی نے اول پوزیشن حاصل کی اور سب ’’وکٹری سٹینڈ‘‘ پر گردن اکڑائے اور سینہ تانے کھڑے ہیں۔قواعد و ضوابط کو نرمانے کے اس کھیل کو جمہوری شہنشاہوں نے ’’رائل فیملیوں‘‘ کے لیے ’’ان ڈور گیم‘‘ بنا ئے رکھا، اس گیم میں لوئر کلاس، مڈل کلاس حتیٰ کہ اپر مڈل کلاس کا بھی کوئی ’آئوٹ سائیڈر ‘حصہ لینے کا کبھی تصورنہیں کر سکا۔ یہ مخصوص اور محفوظ گیم تھی۔ جمہور میں سے کسی کی مجال نہیں کہ اس ’’وادی مقدس‘‘ میں قدم رکھ سکے، قدم رکھنا تو دور کی بات ہے اس تصور ہی سے انکے تصور کا سانس پھولنے لگتا اور تخیل کے فرشتوں کے پر جلنے لگتے ہیں۔


مغربی جمہوری نظام کے تحت اپنے ووٹ دے کر ان ’’جمہوری بچے جموروں‘‘ کو ایوان اقتدار تک پہنچانے والی یہ بھوکی ننگی، فاقہ کش اور دریدہ دامن رعایا جب دیکھتی ہے کہ ہمارے یہ حاکم، آئے دن جب ان کا جی چا ہے قواعد و ضوابط کو نرماتے رہتے ہیں اور جب ہم اس بے ضابطگی کے خلاف حرف شکایت زبان پر لانے کی جسارت کرتے ہیں تو نادر شاہی اشاروں سے یہ کہہ کر ہمیں چپ کرا دیتے ہیں کہ زخم پہ زخم کھا کے جی، اپنے لہو کے گھونٹ پی، آہ نہ کر لبو ںکو سی،اور جب ہم تابعدار غلاموںکی طرح حسب الحکم خاموش ہو جاتے ہیں تو پھر یہ نیک بخت شیریں مقال کفایت شعاری اپنانے، گھاس کھانے اور پیٹ پر پتھر باندھنے کے وعظ فرماتے ہیں۔ وعظوں کے ان لالی پاپوں اور ضبط سخن کے باوجود حرف و صوت سے محروم ہی سہی کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی فریاد سلے ہوئے ہونٹوں سے باہر نکل ہی آتی ہے اور پھر جب یہ ’’نرم نوا فریاد‘‘ سینہ افلاک کو چیرنے لگتی ہے تو جمہوری عالم پناہ، فریادیوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، فریادیوں کی دلدہی اور دل آسائی کے لیے’’ نسخہ نمبر گیارہ‘‘ استعمال کرتے ہوئے ان بے ضرر فریادیوں کو دوبارہ پرفریب نعروں، جھوٹے وعدوں، خوشنما طفل تسلیوں اور پُرکار لارے لپوں سے ٹرخانے کا یہ ’’ٹرپل ان ون‘‘ پروگرام ایک ہی سانس میں ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔’جمہوری بچے جمورے‘ تمام گل اور تمام ثمر صرف اپنی ہی جھولیوں اور ٹوکریوں میں کیوں ڈالتے رہے ہیں؟ جمہور کی صد چاک پھیلی جھولی میںگل و ثمر نہ سہی ایک آدھ پتھر ہی اٹھا کر پھینک دیتے تو ان کے دریائے سخاوت اور بھرے خزانوں میں کونسی کمی واقع ہو جانا تھی؟

مزیدخبریں