انسان وہی ہے جو اپنے خالق کو پہچانے بہت سے انسان ایسے ہیں جو شکل سے انسان ہیں لیکن ان میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر انسان کے اندر عقل موجود ہے لیکن سب کو یہ معلوم نہیں ہے کہ عقل کو کب اور کیسے استعمال کرنا ہے۔ بہت سے لوگ مالدار ہو کر فرعون بن جاتے ہیں اگر شیخ سعدی سے پوچھا جائے تو ان کے خیال سے جو زیادہ مالدار ہیں وہی زیادہ محتاج ہیں۔ اس زمانے میں ہر موڑ پر بخیل ملتے ہیں اور حضرت امام ابو حنیفہؒ کا فرمان بالکل درست ہے کہ بخیل کبھی سردار نہیں بن سکتا اسی لیے قیادت کا فقدان نظر آتا ہے ۔ پاکستان کے نظام سے کبھی کبھی یہ شکایت بھی ملتی ہے کہ بہت سے ذمہ داران اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں اور ہاں بالکل کرتے ہیں یہ بات بڑے زور ذمہ داری سے میں اس لیے بھی کرسکتا ہوں کہ میں بھی اس کا شکار ہوا ہوں۔ 2018ء کے نگران وزیر اعظم جناب ناصر الملک صاحب جو ریٹائرڈ چیف جسٹس آف پاکستان بھی تھے ۔ جب انھوں نے نگران وزیر اعظم کا حلف لیا تو میں اس وقت بحیثیت ایم ڈی پاکستان ٹورازم کام کر رہا تھا اور یہ ذمہ داری میں آنریری طور پر نبھا رہا تھا پہلی دفعہ پاکستان ٹورازم میں وہ اصلاحات آئیں جو کبھی سوچا بھی نہیں گیا تھا۔ نگران وزیر اعظم کا کام "فری اینڈ فئیر"الیکشن کروانا ہوتا ہے ۔ میرے علم کے مطابق وہ نہ کسی عہدے پر کوئی نئی اپوائنٹمنٹ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی عہدے پر کام کرنے والے کو نکال سکتے ہیں ۔ مگر مجھے پتہ اس وقت چلا جب انھوں نے وہ کام کر دیا جو ان کا اختیار ہی نہیں تھا ۔ میں نے ٹورازم میں بہت سی اصلاحات کیں تھیں جن کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ مجھے نگران وزیر اعظم کے حکم پر کیبنٹ ڈویژن نے فارغ کر دیا ۔ اس سے میرا نقصان نہیں ہوا بلکہ شاید پاکستان ٹورازم کا کچھ نہ کچھ نقصان ضرورہوا ۔مسئلہ میری ذات کا نہیں ہے پاکستان میں اپنی اپنی حدود میں رہنے کا سوال ضرور ہے۔ بحیثیت وزیر میںکبھی کبھی بولتا تھا اس کی سزا بھی بھگتنا پڑتی تھی۔ پاکستان کی دراصل بیماری ہی سٹیٹس کو مینٹیننگ قوتیں ہیں ۔ اور پاکستان کی ترقی کے راستے میں یہی قوتیں سب سے بڑی رُکاوٹ ہیں اس قوم کا بہترین لیڈر وہی ہوگا جو پاکستان میںکرپٹ لوگوں کا گریبان پکڑے گا۔ میں شاید ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے بہت سے ممبران پارلیمنٹ کو حکومت اورا سٹیٹ کا فرق ہی معلوم نہیں ہے ہمارے بہت سے نئے آنے والے لوگ اپنے آپ کوسٹیٹ سمجھ لیتے ہیں حالانکہ وہ حکومت میں اسٹیٹ کی مشینری کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں ۔وہ سمجھ لیتے ہیں کہ آئی جی، چیف سیکریٹری وغیرہ حکومت کے ملازم ہیں ۔ ایسا نہیں ہے وہ اسٹیٹ کے ملازم ہیں۔ کبھی کبھی تو ہمارے بہت سے حکومتی لوگ ان کے ساتھ ذاتی ملازموں جیسا سلوک کرتے ہیں یہیں سے خرابی شروع ہوتی ہے۔ سیاستدان ہی یہ نہیں کرتے بلکہ کچھ سول سرونٹس بھی حکمرانوں کے ذاتی ملازم اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کاحق ادا کرتے ہیں اور کبھی کبھی موجیںا ور کبھی چھوٹی موٹی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
ان دنوں میں عجیب افراتفری ہے میں نے بحیثیت سیاسی کارکن دیکھا ہے کہ اپوزیشن کے دنوں میں کچھ لوگ دن کوحکومت کے ساتھ اور رات کو اپوزیشن کی وفاداری کے عہد و پیماں کے ساتھ انھیں حکومتی کمزوریوں سے آگاہ کر کے آئندہ کیلئے اپنا راستہ صاف کر رہے ہوتے ہیں ۔اب یہی کام شاید ہمارے پارلیمنٹیرینز نے بھی شروع کیا ہے حکومت کا حصہ بھی ہیں حکومتی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر آتے ہیں اور پھر حکومت کیخلاف پریشر گروپ بھی بناتے ہیں۔ انھیں اپنی ذات کا فکر ہوتا ہے ۔ عوام جائے بھاڑ میں۔ اس کی ایک وجہ تو وہ مائنڈ سیٹ ہے جو کروڑوں کے پارٹی فنڈز دے کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اور ماشااللہ ان کی تعداد بھی کمال ہے۔ میرے لیے لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ ہمارا نظام بربادی کی طرف جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت مختلف شعبوں میں اصلاحات بھی لارہی ہے اور جوڈیشل سسٹم کی اصلاحات بہت اہم ہیں اور یقینا قابل ستائش ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے دن سے مافیا نما اپوزیشن نے حکومت کو کام ہی نہیں کرنے دیا اور ایک راز جو عمران خان کی حکومت آنے کے بعدکھلا کہ پاکستان میں مافیاز کتنے مضبوط ہیں جو نظام کو تہس نہس کرنے کی جرأت کرتے رہتے ہیں۔میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ مہنگائی اس حکومت کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور شاید کچھ نااہلی بھی ہے کہ بہت سی چیزوں کو قابل ٹیم نہ ہونے کی وجہ سے کنٹرول نہیں کر سکی۔ مہنگائی ایک انٹرنیشنل مسئلہ ہے پوری دنیا میں مہنگائی آئی ہے مگر کرپشن کا جن جسے بوتل میں بند ہونا چاہیے تھا اسے کھول دیا گیا ہے۔ پہلے نچلے درجے پر کرپشن ہوتی تھی اب کھلم کھلا بڑے بڑے لوگ کرپشن کو اپنا حق سمجھ رہے ہیں۔میری پاکستان دوستی اسی کی متقاضی ہے کہ میں سچ بولوں :
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزری ہے رقم کرتے رہیں گے
٭…٭…٭