ہماری غفلت ہی انتہاءپسندوں کی سہولت کارہے


پیر کے روز پشاور کی ایک مسجد میں جو اندوہناک واقعہ ہوا وہ کئی بنیادی سوال اٹھانے کا متقاضی تھا۔سوالات کا آغاز اس حقیقت کے تناظر میں ہونا چاہیے تھا کہ ریکارڈ بناتی شہادتوں کا باعث ہوئے اس دہشت گرد حملے کا نشانہ کوئی عام مسجد نہیں تھی۔وہ نسبتاََ محفوظ تصور ہوتی ”پولیس لائنز“ میں واقعہ تھی۔ پولیس ملازمین کی رہائش کے لئے وقف اس علاقے میں اجنبیوں کی آمدورفت پر عام دنوں کے برعکس کڑی نگاہ رکھنااس لئے بھی لازمی تھاکیونکہ گزشتہ کئی مہینوں سے دہشت گرد تنظیمیں خیبر پختونخواہ کے پولیس ملازمین کو مسلسل نشانہ بنا رہی تھیں۔ سنا ہے کہ جس علاقے میں دہشت گردی ہوئی وہاں داخلے کا محض ایک ہی راستہ ہے۔غالباََ وہاں نصب ہوئے سی سی ٹی وی کیمروں کی بدولت وزیر دفاع بعداز وقوعہ یہ ”اطلاع“ فراہم کرنے کے قابل ہوئے کہ حملے کا مبینہ ذمہ دار کم از کم گزشتہ دو دنوں سے ”پولیس لائنز“ میں آزادانہ گھوم رہا تھا۔کسی پوچھ پڑتال کے بغیر مذکورہ علاقے میں گھومتے ہوئے اس نے وہاں قائم مسجد کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔مذکورہ دعویٰ اگر درست ہے تو تفتیش کاروں کی اولین ترجیح مبینہ ذمہ دار کی شناخت ہے۔اس کے بعد یہ طے کرنا بھی لازمی ہوگا کہ وہ کس ”حوالے“ سے پولیس ملازمین کی رہائش کے لئے مختص علاقے میں دو دنوں سے بلاروک ٹوک گھوم رہا تھا۔اس امکان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اس علاقے میں رہائش پذیر کسی ملازم یا مسجد کی انتظامیہ سے منسلک کسی شخص کا قریبی دوست یا رشتے دار تھا۔اپنے تعلق کو اس نے اندوہناک واردات کے لئے استعمال کیا۔
پیر کے روز ہوئے سانحے کا جائزہ لیتے ہوئے ہم اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے خیبر پختونخواہ کے کئی شہروں کے رہائشی بھاری بھر کم تعداد میں گھروں سے نکل کر ا حتجاجی مظاہرے کررہے تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ عمران حکومت کے دوران افغانستان میں ”پناہ گزین“ ہوئے انتہا پسندوں کو ”مین سٹریم“ میں لانے کے لئے پاکستان لوٹنے کی سہولت فراہم کی گئی۔”حساس ادارے“ کے ا یک اعلیٰ ترین مگر اب ریٹائر ہوئے افسر نے ان کے ساتھ مذاکرات کئے تھے۔خاموشی سے وطن لوٹنے کے بعد وہ اپنے علاقوں میں متمول افراد اور دوکانداروں سے ”بھتہ“ جمع کرنا شروع ہوگئے۔ ان کی حرکتیں یہ عندیہ بھی دے رہی تھیں کہ ماضی کی طرح وہ ایک بار پھر خیبر پختونخواہ کے کئی علاقوں میں ”ریاست کے اندر ریاست“ قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔
احتجاجی مظاہرین جو فریاد کررہے تھے ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے ”ذہن سازوں“ نے اس پر توجہ د ینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ ٹی وی سکرینوں کے ”ایئرٹائم“ پر عمران صاحب کے ”بیانیہ“ کا اجارہ رہا۔ بڑے چاﺅ سے اس امر کا کھوج لگانے کی کوشش ہوتی رہی کہ سابق وزیراعظم ”امپورٹڈ حکومت“ کو بوکھلانے کے لئے کونسا نیا پتہ کھیلیں گے۔پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی یا نہیں۔وہ ہوگئیں تو نئے انتخابات کی ”تیاریاں“شروع ہوگئیں۔
دہشت گردی کی نئی لہر جس انداز میں لوٹنے کو مچل رہی تھی وہ ہمارے ٹاک شوز کا موضوع ہی نہیں رہا۔ اِکا دُکا اینکر نے اس جانب توجہ دلانا چاہی تو صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹرسیف نہایت رعونت سے بتاتے رہے کہ افغانستان میں کئی برسوں سے پناہ گزین رہے انتہا پسند اس ملک سے امریکی افواج کی ذلت آمیز رخصت کے بعد اب اپنے خاندان والوں سے میل ملاقات کے لئے واپس لوٹے ہیں۔ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
اس کالم کے ذریعے میں نے کم از کم دوبار ماضی کے تجربات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ افغانستان میں ”غلامی کی زنجیریں“ توڑنے والا نظریہ اور اس پر شدت سے ایمان رکھنے والے اب پاکستان میں قائم ریاستی نظام کو بھی اکھاڑنے کی تڑپ میں مبتلا ہورہے ہیں۔ افغان طالبان ان کی محض ”انسپریشن“ ہی نہیں بلکہ کئی اعتبار سے ان کے دیرینہ ساتھی بھی ہیں۔کابل میں طویل جنگ کے بعد اقتدار میں لوٹے طالبان کو پاکستان میں متحرک انتہا پسندوں سے ”جدا اکائی“ کی صورت نہ لیا جائے۔ان دونوں کے حتمی اہداف ایک جیسے ہیں۔
پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی مسلم ممالک میں نوجوانوں کی خاطر خواہ تعداد ”نظام کہنہ“ سے مایوس ہوکر ”اسلام کے حقیقی اصولوں“ پر مبنی ریاستی نظام متعارف کروانے کو بے چین ہے۔ان کی سوچ ”امن وامان“ یقینی بنانے والے ریاستی اداروں کو متحرک کرتے ہوئے دبائی نہیں جاسکتی۔ بھرپور تیاری اور سنجیدہ بحث مباحثے کے ذریعے جوابی بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ مو¿ثر بیانیے کی عدم موجودگی عوام کو سازشی کہانیوں پر اعتبار کرنے کو اکساتی ہے۔
آپ کوفرصت ملے تو پیر کے روز پشاور میں ہوئے اندوہناک سانحے کے فوری بعد سوشل میڈیا پر چھڑی بحث کا خدارا غور سے جائزہ لیں۔شہادتوں کی دل دہلادینے والی تعداد کو سفاکی سے نظرانداز کرتے ہوئے سوال یہ اٹھنا شروع ہوگئے کہ پیر کے روز پشاور میں ہوئے واقعہ کے بعد خیبرپختونخواہ میں انتخاب کا بروقت انعقاد اب ممکن رہا ہے یا نہیں۔نظر بظاہر یہ سوال بہت فطری محسوس ہوتا ہے۔اس کا سنجیدہ جائزہ مگر پیغام دیتا ہے کہ مذکورہ سوال اٹھانے والا درحقیقت یہ سوچ رہا ہے کہ عمران خان صاحب کی ”دوتہائی اکثریت کے ساتھ“ اقتدار میں واپسی کے امکان کو کمزور تر کرنے کے لئے ”امپورٹڈ حکومت اور اس کے سرپرست“ سازشی ذہن کے ساتھ دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کو آمادہ نہیں ہورہے۔ ”دانستہ کوتاہی“ سے پشاور جیسے واقعات ”ہونے دئیے جارہے ہیں“۔
جو کہانی گھڑی اور پھیلائی جارہی ہے میں ذاتی طورپر اسے قطعاََ بے بنیاد تصور کرتا ہوں۔اس کے باوجود یہ اعتراف کرنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ جس سازشی کہانی کا میں ذکر کررہا ہوں اسے عوام کی کماحقہ تعداد نے فی الفور تسلیم کرلیا ہے۔ سانحہ¿ پشاور کے حوالے سے پراسرار سرگوشیوں میں مزید سازشی کہانیاں بھی پھیلائی جارہی ہیں۔میں ان کا ذکر کرتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی ان سازشی کہانیوں کو ”قابل توجہ“ بناسکتاہوں۔ بنیادی التجا فقط یہ کرنا ہے کہ دہشت گردی کی نئے سرے سے ابھرتی لہر کے حقیقی اسباب جاننے پر توجہ مرکوز رکھیں۔ سازشی کہانیاں ہمیں ان سے غافل رکھیں گی اور ہماری غفلت انتہا پسندوں کی سہولت کار ثابت ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...