امریکہ یورپ اسلام فوبیا میں جہالت کی حدیں پار کر چکا ہے ، حالیہ سویڈن اور اور ہالینڈ میں الہامی کتاب قرآنِ کریم کی بے حرمتی اور اسے جلا کر اپنے اندر کے خوف کو چھپانے پر مبنی شرمناک حرکت ہے، جب کہ اپنے آپ کو پڑھی لکھی، انسانی حقوق کی علمبر دار اور مہذب کہلانے والی قومیں اسلام کیساتھ تنازعات کے تسلسل کی آڑ میں روحانیت اور اسلامی تعلیمات کے پھیلائو سے خوف زدہ ہو کر دعوتِ اسلام کو روکنے کیلئے اسلامو فوبیا کے گھنائونے اور مکروہ عمل کی طرف راغب ہیں ۔اس مذموم ہتھکنڈے کے پسِ پردہ مقاصد میں مسلمانوں کوغم زدہ کرکے عالم اسلام کے مسائل سے توجہ ہٹا کر عالمی صہیونیت اور مغربی ممالک کی حکومتوں کے اسلام کے خلاف اقدامات سے مسلم اُمہ کو غافل کرنا ہے ، اسلامی مقاماتِ مقدسہ ، قرآنِ پاک اور خاتم النبیینؐ کی توہین میںمذہبی انتہا پسند سامراجی اور نو آبادیاتی نظام کے حامی اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں ، جنہوں نے مغرب میںآزادیِ اظہار اور انسانی حقوق کے حوالے سے جھوٹا او ر دوہرا معیار اپنا رکھا ہے ، سویڈن کے واقعہ سے انکے جھوٹے دعوئوں کی قلعی شفاف طریقے سے کھل کر سامنے آگئی ہے، تاہم مغربی ممالک کے جھوٹے اور من گھڑت بیانات سویڈن اور ہالینڈ میں رونما ہونیوالے قرآنِ پاک کو جلانے کے شر مناک عمل میں ملوث ہونے سے بری الذمہ نہیں ہیں ۔
آذربائیجان کی وزارتِ خارجہ نے سوشل میڈیا پوسٹ میں قرآن پر حملہ نفرت انگیز جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے آزادی برائے اظہار ِ خیال کے زمرے میں تصورنہیں کیا جا سکتا ، شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کے صدر ایر سین تاتار نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس طرح کی فرسودہ حرکتیں پوری دنیا کیلئے خطرہ اور عالمی امن کو متاثر کرنیوالے کسی دھماکے خیز مواد کی طرح ہوتی ہیں ، سینیگال کے صدر میکی سال نے ٹویٹ میں لکھا کہ ’’ میں قرآنِ کریم کو نذرِ آتش کرنیوالے انتہائی دائیں بازو کے راسموس پالودان کے اس گھنائونے فعل کی شدید مذمت کرتا ہوں ، اور ہمیں اسلامو فوبیا اور مسلمانوں کی مخالفت کیخلاف بلا کسی رعایت کے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ‘‘ دفترِ خارجہ پاکستان نے اپنے بیان میں اس مجرمانہ فعل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ یہ اشتعال انگیز اسلامو فوبک دنیا بھر کے1.5 بلین مسلمانوں کی مذہبی حساسیت کو ٹھیس پہنچاتا ہے ، ایسی کارروائیاں آزادی اظہار یا رائے کے کسی بھی جائز اظہار کے تحت نہیں آتیں ‘‘۔
عالمی اور ملکی سطح پر قرآنِ کریم کی بے حرمتی پر ہر طبقہء فکر کی شخصیات کا ایک ہی موقف ہے کہ ’’ قرآن پر حملہ نفرت انگیز ہے اور یہ آزادی برائے اظہارِ خیال کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا ‘‘ اسکے باوجود مغرب اسلام کے پھیلائو سے اسقدر خوف زدہ ہے کہ مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے انہیں حکومتی سطح پر مکمل تحفظ دلواتا ہے اور بعض مغربی ممالک ایسے افراد کو جنہوں نے پاکستان میں اسلام مخالف گھنائونے عمل کئے ہوں انہیں اپنے ملک کی شہریت دیکر لے جاتے ہیں ہمارے منصب ،حکمران اور مسلمان حکومتیں انکے فیصلے کے آگے سرنگوں کر لیتی ہیں۔ مسلمانوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیاء کرام پر مکمل ایمان لانا ہی دین ِ اسلام ہے، مغربی ممالک خاص کر فرانس، ہالینڈ، ڈنمارک اور سویڈن کی حکومتوں بشمول انکے روحانی پیشوا ئوں کو یہ بات سمجھنی چا ہیے کہ قرآن کی توہین دراصل تمام انبیاء کرام اور جس نبی ؑ پر وہ ایمان رکھتے ہیں انکی شان میںتوہین ہے جب وہ قرآن کریم کی بے حرمتی کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنے عیسیٰ مسیح جیزز کرائسٹ کی شان میں گستاخی کر رہے ہوتے ہیں اورقرآن پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی پیدائش سے پہلے اور بعد کے جو حقائق و واقعات بیان فرمائے ہیں ان کو جلانے کے مرتکب بھی بنتے ہیں ، کیونکہ قرآن پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر خیر ہر مقام پر موجود ہے ۔
قرآنِ کریم آزادی اظہار اور آزادی فکر کا درس ہے ، یہ الہامی کتاب ساری نوع انسانیت کیلئے ہے جو بھی چاہے اس سے ہدایت حاصل کر سکتا ہے ، قرآن اور خدائے برتر نے ہدایت لینے اور قرآن کو سمجھنے میں کسی پر کوئی قدغن نہیں لگائی ، اگر قرآن کا با رکت نزول نہ ہوتا تو انسانوں کو خدا کے ان انبیاء کرام کے طرزِ زندگی کا علم بھی نہ ہوتا جن کی آج وہ پیروی کر رہے ہیں ، دنیا کا عروج و زوال اور آخرت میں اجر بھی قرآن کریم کی بدولت ہے، قرآن کی تضحیک اور جلانے والے دینا و آخرتذلیل و رسوا ہوں گے ۔
قرآن ِ پاک کی توہین خدا اور اسکے پیغمبروں پر ایمان نہ لانے والوں کا جاہلانہ رویہ ہے جو کہ عہدِ رفتہ سے ایک سلسلے سے چلا آ رہا ہے ، جس میں مغربی ممالک ملوث ہیں ، قرآن پاک کی بے حرمتی اور انبیاء کرام کی توہین صرف مذمتی بیان بازی یا مظاہروں سے روکنا ممکن نہیں اس کیلئے ہمیں قرآنی تعلیم کو عام کرکے مغربی نظام ِ تعلیم کو ثانوی سطح پر لانا ہوگا ، اپنے رویوں کو بدلنا بہت اہم ہے ، ایسے گھنائونے واقعات پر مذمتوں جلسے جلوسوں کے بجائے گھر گھر سے قرآن کی تلاوت کا اہتمام کرکے شاہراہوں ، سفارتخانوں کے سامنے اونچی آواز میں قرآن کی تلاوت کا اہتمام ممکن بنایا جائے ، قرآن کی وعظمت اور اسکے فرمودات کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا کر ہی مذہبی جاہلانہ اقدامات کا منہ توڑ جواب دیا جاسکتا ہے۔